معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 165
عَنْ أَبِىْ بُرْدَةَ بْنُ أَبِي مُوسَى قَالَ : قَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ : هَلْ تَدْرِي مَا قَالَ أَبِي لِأَبِيكَ؟ قَالَ : قُلْتُ : لاَ ، قَالَ : فَإِنَّ أَبِي قَالَ لِأَبِيكَ : " يَا أَبَا مُوسَى ، هَلْ يَسُرُّكَ إِسْلاَمُنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَهِجْرَتُنَا مَعَهُ ، وَجِهَادُنَا مَعَهُ ، وَعَمَلُنَا كُلُّهُ مَعَهُ ، بَرَدَ لَنَا ، وَأَنَّ كُلَّ عَمَلٍ عَمِلْنَاهُ بَعْدَهُ نَجَوْنَا مِنْهُ ، كَفَافًا رَأْسًا بِرَأْسٍ؟ فَقَالَ أَبِي : لاَ وَاللَّهِ ، قَدْ جَاهَدْنَا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَصَلَّيْنَا ، وَصُمْنَا ، وَعَمِلْنَا خَيْرًا كَثِيرًا ، وَأَسْلَمَ عَلَى أَيْدِينَا بَشَرٌ كَثِيرٌ ، وَإِنَّا لَنَرْجُو ذَلِكَ ، فَقَالَ أَبِي : لَكِنِّي أَنَا ، وَالَّذِي نَفْسُ عُمَرَ بِيَدِهِ ، لَوَدِدْتُ أَنَّ ذَلِكَ بَرَدَ لَنَا ، وَأَنَّ كُلَّ شَيْءٍ عَمِلْنَاهُ بَعْدُ نَجَوْنَا مِنْهُ كَفَافًا رَأْسًا بِرَأْسٍ ، فَقُلْتُ : إِنَّ أَبَاكَ وَاللَّهِ كَانَ خَيْرٌ مِنْ أَبِي " (رواه البخارى)
خوف و خشیت اور فکرِ آخرت کے لحاظ سے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کا حال
حضرت ابو موسیٰ اشعری کے صاحبزادہ ابو بردہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن عمر نے کہا، کیا تمہیں معلوم ہے کہ میرے والد نے تمہارے والد سے کیا بات کہی تھی؟ میں نے کہا مجھے معلوم نہیں، انہوں نے کہا کہ میرے والد نے تمہارے والد سے کہا تھا، کہ اے ابو موسیٰ , کیا تم اس پر خوش اور راضی ہو کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اور آپ کے ہاتھ پر ہمارا اسلام لانا اور آپ کے ساتھ ہمارا ہجرت کرنا اور جہاد کرنا، اور ہمارے وہ سارے اعمال جو ہم نے آپ کے ساتھ کئے، وہ تو ہمارے لئے ثابت اور محفوظ رہیں (اور ان کا صلہ اور اجر ہم کو عطا فرمایا جائے) اور ہم نے جو اعمال آپ کے بعد کئے، ان سے ہم برابر سرابر پر چھٹی پا جائیں (یعنی حضور ﷺ کے بعد ہم نے جو اچھے یا بُرے عمل کئے ہیں، ان پر نہ ہم کو ثواب ملے اور نہ عذاب)۔ (عبداللہ بن عمر ابو بردہ سے کہتے ہیں کہ میرے والد کی یہ بات سُن کر) تمہارے والد نے کہا، کہ نہیں! خدا کی قسم میں تو یہ نہیں چاہتا۔ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے بعد جہاد کئے ہیں، نمازیں پڑھی ہیں، روزے رکھے ہیں، اور (اللہ تعالیٰ کی توفیق سے) ان کے علاوہ بھی بہت سے اعمال خیر کئے ہیں، اور ہماری کوششوں سے، اور ہمارے ہاتھوں پر اللہ کے بے شمار بندے مسلمان ہوئے ہیں، اور ہم اللہ سے اپنے اعمال کے اجر و صلہ کی پوری امید رکھتے ہیں (اس لئے میں تو آپ کے خیال سے متفق نہیں ہوں)۔ اس پر میرے والد (حضرت عمرؓ) نے پھر فرمایا: کہ قسم اس ذاتِ پاک کی جس کے قبضہ میں عمرؓ کی جان ہے، میں تو دل سے چاہتا ہوں، کہ ہمارے وہ عمل (جو ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کئے، وہ تو) ہمارے لئے ثابت رہیں، اور ہم کو اُن کا صلہ عطا کیا جائے، اور جو عمل ہم نے آپ کے بعد کئے اُن سے ہم برابر سرابر چھٹی پا جائیں۔ (ابو بردہ کہتے ہیں، کہ) میں نے عبداللہ بن عمرؓ سے کہا، کہ: خدا کی قسم! تمارے والد (حضرت عمرؓ) میرے والد (ابو موسیٰؓ) سے افضل تھے۔ (بخاری)

تشریح
جس طرح اللہ کے کسی صالح اور مقبول بندہ کی اقتداء میں پڑھی ہوئی نماز کی مقبولیت کی امید کی جاتی ہے، اسی طرح حضرت عمرؓ یقین کے ساتھ اُمید رکھتے تھے، کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جو اعمالِ خیر نماز، روزہ، ہجرت، جہاد وغیرہ ہم نے کئے ہیں، وہ تو آنحضرت ﷺ کی معیت کی نسبت اور برکت سے ضرور ہی ان شاء اللہ قبول ہونگے، لیکن جو اعمال حضور ﷺ کے بعد کئے گئے، چونکہ ان کو یہ نسبت حاصل نہ تھی، بلکہ وہ اپنے ہی اعمال تھے، اس لئے حضرت عمرؓ عام اہلِ معرفت کی طرح ان کے انجام سے ڈرتے تھے، اور اپنی سلامتی و کامیابی اسی میں سمجھتے تھے کہ بعد والے سارے اعمال سے برابر سرابر پر چھٹی مل جائے، نہ ان پر عذاب ہو نہ ثواب۔ ؎ طاعت ناقص ما موجبِ غفراں نشودراضیم گر مدد علتِ عصیاں نشود حدیث کے آخر میں ابو بردہ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے جو یہ فرمایا کہ خدا کی قسم میرے والد سے تمہارے والد افضل تھے بظاہر اس سے ان کا مطلب تھا کہ چونکہ حضرت عمرؓ افضل تھے اپنے اعمال سے بے اطمینانی اور خدا کے خوف کا اثر ان پر اس قدر زیادہ تھا۔ صحیح بخاری ہی میں حضرت عمرؓ کے واقعہ شہادت کی ایک روایت میں ان کا یہ ارشاد بھی ذکر کیا گیا ہے۔ " وَاللَّهِ لَوْ أَنَّ لِي طِلاَعَ الأَرْضِ ذَهَبًا لاَفْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَبْلَ أَنْ أَرَاهُ " (اللہ کی قسم! اگر میرے پاس زمین بھر سونا ہو، تو میں اللہ کے عذاب کو دیکھنے سے پہلے اس سب کو فدیہ میں دے ڈالوں، اور اپنی جان چھڑا لوں)۔ اللہ اکبر! یہ ہے اس بندہ پر خوفِ خدا کا غلبہ جس نے بار بار رسول اللہ ﷺ کی زبانِ مبارک سے اپنے لئے جنت کی بشارتیں سنی ہیں۔ سچ کہا ہے کہنے والے نے " قریبا نرا بیش بود حیرانی " اللہ تعالیٰ اس خوف و خشیت کا کوئی حصہ ہم کو بھی نصیب فرمائے۔
Top