معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 161
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو بَكْرٍ : يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ شِبْتَ ، قَالَ : « شَيَّبَتْنِي هُودٌ ، وَالوَاقِعَةُ ، وَالمُرْسَلَاتُ ، وَعَمَّ يَتَسَاءَلُونَ ، وَإِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ » (رواه الترمذى)
خوف و خشیت اور فکرِ آخرت کے لحاظ سے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کا حال
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو ابکرؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ پر بڑھاپا آ گیا، آپ نے ارشاد فرمایا، کہ: مجھے بوڑھا کر دیا سورہ ہود، سورہ واقعہ، سورہ مرسلات، سورہ عم یتساءلون اور سورہ تکویر (إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ) نے۔ (ترمذی)

تشریح
رسول اللہ ﷺ کی جسمانی صحت فطری طور پر جس قدر بہتر تھی اور قویٰ جیسے اچھے اور طبیعت جیسی معتدل تھی، اس کے لحاظ سے آپ پر بڑھاپے کے آثار بہت دیر سے ظاہر ہونے چاہئے تھے، لیکن جب وہ آثار عام اندازہ کے لحاظ سے قبل از وقت ظاہر ہونے لگے، تو حضرت ابو بکرؓ نے ایک روز عرض کیا، کہ: حضرت! آپ پر تو ابھی سے بڑھاپا آنے لگا؟ آپ نے ارشاد فرمایا، کہ: مجھے قرآن مجید کی ان سورتوں (سورہ ہود اور واقعہ وغیرہ) نے بوڑھا کر دیا۔ ان سورتوں میں قیامت و آخرت اور مجرموں پر اللہ کے عذاب کا بڑا دہشت ناک بیان ہے۔ آنحضرت ﷺ ان کے مضامین سے اس قدر متاثر ہوتے تھے اور ان کی تلاوت سے آپ پر خدا کے خوف اور آخرت کی فکر کا ایسا غلبہ ہوتا تھا کہ اس کا اثر آپ کی جسمانی قوت اور تندرستی پر پڑتا تھا، اور بلا شبہ خوف و فکریہ دونوں چیزیں ایسی ہیں جو جوانوں کو جلد بوڑھا کر دیتی ہیں، اسی لئے قیامت کے بارے میں قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے " يَوْمَ يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا " کہ قیامت کے دن بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔ اس حدیث سے خاص طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ خوفِ خدا اور فکر آخرت کے لحاظ سے آنحضرت ﷺ کے قلب مبارک کا حال کیا تھا۔
Top