معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 160
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا عَصَفَتِ الرِّيحُ ، قَالَ : « اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا ، وَخَيْرَ مَا فِيهَا ، وَخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا ، وَشَرِّ مَا فِيهَا ، وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ » ، قَالَتْ : وَإِذَا تَخَيَّلَتِ السَّمَاءُ ، تَغَيَّرَ لَوْنُهُ ، وَخَرَجَ وَدَخَلَ ، وَأَقْبَلَ وَأَدْبَرَ ، فَإِذَا مَطَرَتْ ، سُرِّيَ عَنْهُ ، فَعَرَفْتُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ ، قَالَتْ عَائِشَةُ : فَسَأَلْتُهُ ، فَقَالَ : " لَعَلَّهُ ، يَا عَائِشَةُ كَمَا قَالَ قَوْمُ عَادٍ : {فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا} (رواه البخارى ومسلم)
خوف و خشیت اور فکرِ آخرت کے لحاظ سے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کا حال
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا حال یہ تھا کہ جب ہوا زیادہ تیز چلتی تو آپ کی زبان پر یہ دیا جاری ہو جاتی " اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الخ " (اے میرے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس ہوا کی بھلائی کا اور اس میں جو کچھ ہے اس کی بھلائی کا اور جس مقصد کے لیے یہ بھیجی گئی ہے اس کی بھلائی کا اور میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس کے شر سے، اور اس میں جو کچھ ہے اس کے شر سے، اور جس مقصد کے لیے یہ بھیجی گئی ہے اس کے شر سے) اور جب آسمان پر ابر آتا تو آپ کا رنگ بدل جاتا اور (اضطراب کی یہ حالت ہوتی کہ) کبھی باہر آتے، کبھی اندر جاتے، کبھی آگے آتے کبھی پیچھے ہٹتے، پھر جب بارش ہو جاتی (اور خیریت سے گذر جاتی) تو یہ کیفیت آپ سے دور ہوتی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے آپ کی اس حالت اور واردات کو سمجھ لیا اور آپ سے پوچھا (کہ تیز ہوا کو اور اَبر کو دیکھ کر حضور ﷺ کی یہ کیفیت کیوں ہو جاتی ہے؟) آپ نے ارشاد فرمایا: عائشہ! (میں ڈرتا ہوں کہ) شاید یہ ابر و باد اس طرح کا ہو جو (حضرت ہود پیغمبر کی قوم) عاد کی طرف بھیجا گیا تھا (جس کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح کیا گیا ہے) کہ جب ان لوگوں نے اس بادل کو اپنی وادیوں کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا تو خوشی ظاہر کرتے ہوئے کہا یہ ابر ہمارے لئے بارش لانے والا ہے۔ (حالانکہ وہ بارش والا ابر نہ تھا، بلکہ آندھی کا ہلاکت خیز طوفان تھا، جو ان کو تباہ کرنے ہی کے لیے آیا تھا)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حضرت عائشہؓ کی اس حدیث کا حاصل اور مقصد صرف یہی ہے کہ حضور ﷺ کے قلبِ مبارک پر اللہ کے خوف و خشیت کا ایسا غلبہ تھا کہ ذرا ہوا تیز چلتی تو آپ گھبرا کر اللہ تعالیٰ سے اس کے خیر کے حاصل ہونے کی اور اس کے شر سے محفوظ ہرنے کی دعا کرتے اور جب آسمان پر ابر نمودار ہوتا تو اللہ کے جلال کی دہشت و ہیبت سے آپ کا یہ حال ہو جاتا کہ کبھی اندر جاتے کبھی باہر آتے کبھی آگے بڑھتے کبھی پیچھے ہٹتے اور آپ کی یہ کیفیت اس خوف اور ڈر سے ہوتی کہ کہیں بادل کی شکل میں اللہ کا ویسا عذاب نہ ہو جیسا کہ حضرت ہودؑ کی سرکش قوم عاد پر ابر ہی کی شکل میں بھیجا گیا تھا، جسے اپنے علاقہ کی طرف بڑھتا ہوا دیکھ کر نادانی سے وہ خوش ہوئے تھے اور انہوں نے اس کو ابرِ رحمت سمجھا تھا، حالانکہ وہ عذاب کی آندھی تھی۔ حدیث میں آیت کے جو الفاظ نقل کئے گئے ہیں وہ ناتمام ہیں۔ آخری حصہ یہ ہے " بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِهِ، رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ "
Top