معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 158
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ : لَمَّا بَعَثَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ خَرَجَ مَعَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوصِيهِ وَمُعَاذٌ رَاكِبٌ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي تَحْتَ رَاحِلَتِهِ ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ : " يَا مُعَاذُ إِنَّكَ عَسَى أَنْ لَا تَلْقَانِي بَعْدَ عَامِي هَذَا وَلَعَلَّكَ أنَ تَمُرَّ بِمَسْجِدِي هَذَا ، وَقَبْرِي " . فَبَكَى مُعَاذٌ جَشَعًا لِفِرَاقِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ الْتَفَتَ فَأَقْبَلَ بِوَجْهِهِ نَحْوَ الْمَدِينَةِ فَقَالَ : " إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِي الْمُتَّقُونَ مَنْ كَانُوا وَحَيْثُ كَانُوا " (رواه احمد)
خدا کا خوف اور تقویٰ ہی فضیلت اور قرب کا معیار ہے
حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب ان کو یمن کے لئے (قاضی یا عامل بنا کر) روانہ فرمایا (اور وہ حضور ﷺ کے حکم کے مطابق وہاں کے لئے روانہ ہونے لگے) تو (ان کو رخصت کرنے کے لئے) حضور ﷺ بھی اُن کو کچھ نصیحتیں اور وصیتیں فرماتے ہوئے اُن کے ساتھ چلے، اس وقت حضرت معاذؓ تو (حضور ﷺ کے حکم سے) اپنی سواری پر سوار تھے، اور حضور ﷺ خود ان کی سواری کے نیچے پیدل چل رہے تھے۔ جب آپ ضروری نصیحتوں اور وصیتوں سے فارغ ہو چکے، تو آخری بات آپ نے یہ فرمائی، کہ: اے معاذ! شاید میری زندگی کے اس سال کے بعد میری تمہاری ملاقات اب نہ ہو۔ (گویا آپ نے ان کو اشارہ فرمایا، کہ میری زندگی کا یہی آخری سال ہے، اور میں عنقریب ہی اس دنیا سے دوسرے عالم کی طرف منتقل کیا جانے والا ہوں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا) اور شاید ایسا ہو کہ (اب جب کبھی تم یمن سے واپس آؤ، تو بجائے مجھ سے ملنے کے اس مدینہ میں) تم میری اس مسجد اور میری قبر پہ گذرو۔ یہ سن کر حضرت معاذؓ (حضور ﷺ کی وفات کے تصور، اور) آپ کے فراق کے صدمہ سے رونے لگے، تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی طرف سے منہ پھیر کے، اور مدینہ کی طرف رخ کر کے فرمایا: مجھ سے زیادہ قریب اور مجھ سے زیادہ تعلق رکھنے والے وہ سب بندے ہیں، جو خدا سے ڈرتے ہیں (اور تقوے والی زندگی گزارتے ہیں) وہ جو بھی ہوں، اور جہاں کہیں بھی ہوں۔ (مسند احمد)

تشریح
حضور ﷺ کے ارشاد کے اس آخری حصہ کا مطلب یہ ہے کہ اصل چیز روحانی تعلق اور قرب ہے، اور میرے ساتھ اس تعلق کا دارو مدار تقوے پر ہے، پس اگر اللہ کا کوئی بندہ جسمانی طور پر مجھ سے کتنا ہی دور یمن میں یا دنیا کے کسی بھی حصہ میں ہو، لیکن اس کو خوفِ خدا اور تقویٰ نصیب ہو، تو وہ مجھ سے قریب ہے، اور گویا میرے ساتھ ہے، اور اس کے برعکس کوئی شخص ظاہری اور جسمانی طور پر میرے ساتھ ہو، لیکن اس کا دل تقوے کی دولت سے خالی ہو، تو اس ظاہری قرب کے باوجود وہ مجھ سے دور ہے، اور میں اس سے دور ہوں۔ آپ نے اس ارشاد کے ذریعہ حضرت معاذؓ کو تسلی دی، کہ اس ظاہری جدائی کا غم نہ کرو، جب خوفِ خدا اور تقویٰ تمہارے دل، اور تمہاری روح کو نصیب ہے، تو پھر تم یمن میں رہتے ہوئے بھی مجھ سے دور نہ ہو گے۔ اس کے علاوہ دنیا کی یہ زندگانی تو بس چند روزہ ہے، ہمیشہ رہنے کی جگہ تو دارِ آخرت ہے، اور وہاں اللہ کے سارے تقویٰ والے بندے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میرے ساتھ اور میرے قریب رہیں گے، اور پھر اس قرب و وصال کے بعد کسی فراق کا اندیشہ نہ ہو گا۔ اس آخری بات کے فرماتے وقت رسول اللہ ﷺ نے اپنا رُخ غالباً اس لئے حضرت معاذؓ کی طرف سے پھیر کے مدینہ کی طرف کر لیا تھا، کہ معاذ کے رونے سے غالباً آپ خود آبدیدہ ہو گئے تھے، آپ نے چاہا کہ معاذؓ آپ کے بہتے ہوئے آنسو نہ دیکھ لیں، نیز یہ بھی وجہ ہو سکتی ہے کہ اپنے ایک سچے محبت کا رونا دیکھ کر آپ کا دل دکھتا ہو، اور اس لئے اس وقت آپ نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا ہو، محبت و عقیدت کی دنیا میں اس طرح کے تجربے ہوتے ہی رہتے ہیں۔ حضرت معاذؓ کو رخصت کرتے وقت ااپ نے اُن کو تو حکم دے کے سواری پر سوار کر دیا اور خود بات کرتے ہوئے پیدل نیچے چلتے رہے۔ اس میں کتنا بڑا سبق، ار کیسا نمونہ ہے، ان سب لوگوں کے لیے جو دینی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ کے نائب سمجھے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنا خوف اور تقویٰ ہمارے دلوں کو نصیب فرما کر رسول اللہ ﷺ کا وہ روحانی قرب اور آخرت میں آپ کی وہ رفاقت نصیب فرمائے، جس کی بشارت حضور ﷺ نے اس حدیث میں دی ہے۔
Top