معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 147
عَنْ أَبِي يَعْلَى شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ ، وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ ، وَالْعَاجِزُ ، مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا ، وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ » (رواه الترمذى وابن ماجه)
موت اور آخرت کی تیاری کرنے والے ہی ہوشیار اور دور اندیش ہیں
شداد بن اوس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہوشیار اور توانا وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے، اور موت کے بعد کے لئے (یعنی آخرت کی نجات و کامیابی کے لئے) عمل کرے، اور نادان و ناتواں وہ ہے جو انے کو اپنی خواہشاتِ نفس کا تابع کر دے (اور بجائے احکامِ خداوندی کے اپنے نفس کے تقاضوں پر چلے) اور اللہ سے امیدیں باندھے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

تشریح
دنیا میں كَيِّس (چالاک و ہوشیار اور کامیاب) وہ سمجھا جاتا ہے، جو دنیا کمانے میں چست و چالاک ہو، خوب دونوں ہاتھوں سے دنیا سمیٹتا ہو، اور جو کرنا چاہے کر سکتا ہو، اور بے وقوف و ناتواں وہ سمجھا جاتا ہے جو دنیا کمانے میں تیز اور چالاک نہ ہو۔ اور اہلِ دنیا جو اس دنیوی زندگی ہی کو سب کچھ سجھتے ہیں، اُن کو ایسا ہی سمجھنا بھی چاہئے رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں بتلایا کہ چونکہ اصل زندگی یہ چند روزہ زندگی نہیں ہے بلکہ آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی ہی اصل زندگی ہے، اور اُس زندگی میں کامیابی اُن ہی کے لئے ہے جو اس دنیا میں اللہ کی اطاعت اور بندگی والی زندگی گزار دیں، اس لئے درحقیقت دانشمند اور کامیاب اللہ کے وہ بندے ہیں جو آخرت کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں، اور جنہوں نے اپنے نفس پر قابو پا کر اس کو اللہ کا مطیع و فرمانبردار بنا رکھا ہے۔ اور اس کے برعکس جن احمقوں کا حال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کو نفس کا بندہ بنا لیا ہے، اور وہ اس دینوی زندگی میں اللہ کے احکام و اوامر کی پابندی کے بجائے اپنے نفس کے تقاضوں پر چلتے ہیں، اور اس کے باوجود اللہ سے اچھے انجام کی امیدیں باندھتے ہیں، وہ یقیناً بڑے نادان اور ہمیشہ ناکام رہنے والے ہیں، خواہ دنیا کمانے میں وہ کتنے ہی چست و چالاک اور پھرتیلے نظر آتے ہوں، لیکن فی الحقیقت وہ بڑے ناعاقبت اندیش، کم عقلے اور ناکامیاب و نامراد ہیں، کہ جو حقیقی اور واقعی زندگی آنے والی ہے اس کی تیاری سے غافل ہیں، اور نفس پرستی کی زندگی گزارنے کے باوجود اللہ سے خداپرستی والے انجام کی امید رکھتے ہیں، نادان اتنی موٹی بات نہیں سمجھتے کہ: گندم از گندم بروید جو ز جو از مکافاتِ عمل غافل مشو اس حدیث میں ان لوگوں کو خاص آگاہی دی گئی ہے، جو اپنی عملی زندگی میں اللہ کے احکام اور آخرت کے انجام سے بے پروا اور بے فکر ہو کر اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں، اور اس کے باوجود اللہ کی رحمت اور اس کے کرم سے امیدیں رکھتے ہیں، اور جب اللہ کا کوئی بندہ ٹوکتا ہے تو کہتے ہیں اللہ کی رحمت بڑی وسیع ہے، اس حدیث نے بتلایا کہ ایسے لوگ دھوکے میں ہیں، اور اُن کا انجام نامرادی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ رجاء یعنی اللہ سے رحمت اور کرم کی امید وہی محمود ہے جو عمل کے ساتھ ہو، اور جو امید بے عملی اور بد عملی اور آخرت کی طرف سے بے فکری کے ساتھ ہو، وہ رجاءِ محمود نہیں ہے بلکہ نفس شیطان کا فریب ہے۔
Top