معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 146
عَنِ عَبْدُاللهِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : رَجُلٌ يَا نَبِيَّ اللَّهِ , مَنْ أَكْيَسُ النَّاسِ وَأَحْزَمُ النَّاسِ؟ قَالَ : « أَكْثَرَهُمْ ذِكْرًا لِلْمَوْتِ , وَأَشَدُّهُمُ اسْتِعْدَادًا لِلْمَوْتِ قَبْلَ نُزُولِ الْمَوْتِ , أُولَئِكَ هُمُ الْأَكْيَاسُ ذَهَبُوا بِشَرَفِ الدُّنْيَا وَكَرَامَةِ الْآخِرَةِ » (رواه الطبرانى فى معجم الصغير)
موت اور آخرت کی تیاری کرنے والے ہی ہوشیار اور دور اندیش ہیں
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ: اے اللہ کے پیغمبر! بتلائیے کہ آدمیوں میں کون زیادہ ہوشیار اور دور اندیش ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: وہ جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہے، اور موت کے لئے زیادہ سے زیادہ تیاری کرتا ہے جو لوگ ایسے ہیں وہی دانشمند اور ہوشیار ہیں، انہوں نے دنیا کی عزت بھی حاصل کی، اور آخرت کا اعزاز و اکرام بھی۔ (معجم صغیر للطبرانی)

تشریح
جب یہ حقیقت ہے کہ اصل زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے، جس کے لیے کبھی فنا نہیں، تو اس میں کیا شبہ کہ دانشمند اور دور اندیش اللہ کے وہی بندے ہیں جو ہمیشہ موت کو پیشِ نظر رکھ کر اس کی تیاری کرتے رہتے ہیں، اور اس کے برعکس وہ لوگ بڑے ناعاقبت اندیش اور احمق ہیں جنہیں اپنے مرنے کا تو پورا یقین ہے لیکن وہ اس سے اور اس کی تیاریوں سے غافل رہ کر دنیا کی لذتوں میں مصروف اور منہمک رہتے ہیں۔
Top