معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 145
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ خَافَ أَدْلَجَ ، وَمَنْ أَدْلَجَ بَلَغَ الْمَنْزِلَ ، أَلاَ إِنَّ سِلْعَةَ اللهِ غَالِيَةٌ ، أَلاَ إِنَّ سِلْعَةَ اللهِ الجَنَّةُ . (رواه الترمذى)
خوف اور فکر والے ہی کامیاب ہونے والے ہیں
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جو شخص ڈرتا ہے، وہ شروع رات میں چل دیتا ہے، اور جو شروع رات میں چل دیتا ہے، وہ عافیت کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے یاد رکھو، اللہ کا سودا سستا نہیں بہت مہنگا اور بہت قیمتی ہے، یاد رکھو اللہ کا وہ سودا جنت ہے۔ (ترمذی)

تشریح
عرب کا عام دستور تھا کہ مسافروں کے قافلے رات کے آخری حصہ میں چلتے تھے، اور اس وجہ سے قزاقوں اور رہزنوں کے حملے بھی عموماً سحر ہی میں ہوتے تھے، اس کا قدرتی نتیجہ یہ تھا کہ جس مسافر یا جس قافلے کو رہزنوں کے حملے کا خوف ہوتا، وہ بجائے آخری رات کے شروع رات میں چل دیتا، اور اس تدبیر سے بحفاظت و عافیت اپنی منزل پر پہنچ جاتا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس مثال سے سمجھایا، کہ جس طرح رہزنوں کے حملہ سے ڈرنے والے مسافر، اپنے آرام اور اپنی نیند کو قربان کر کے چل دیتے ہیں، اسی طرح انجام کا فکر رکھنے والے اور دوزخ سے ڈرنے والے مسافرِ آخرت کو چاہئے کہ اپنی منزل (یعنی جنت) تک پہنچنے کے لئے اپنی راحتوں لذتوں اور خواہشوں کو قربان کرے، اور منزلِ مقصود کی طرف تیز گامی سے چلے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے بتلایا، کہ: بندہ اللہ تعالیٰ سے جو کچھ لینا چاہتا ہے، وہ کوئی سستی اور کم قیمت چیز نہیں ہے کہ یوں ہی مفت دے دی جائے، بلکہ وہ نہایت گرانقدر اور بیش قیمت چیز ہے، جو جان و مال اور خواہشاتِ نفس کی قربانی سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے، اور وہ چیز جنت ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے۔ إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ الاية۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان سے اُن کے جان و مال جنت کے عوض میں خرید لئے ہیں، وہ اپنا جان و مال اللہ کی راہ میں قربان کر دیں تو جنت کے مستحق ہوں گے، گویا جنت وہ سودا ہے جس کی قیمت بندوں کا جان و مال ہے۔
Top