معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 143
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ : دَخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصَلاَّهُ فَرَأَى نَاسًا كَأَنَّهُمْ يَكْتَشِرُونَ قَالَ : أَمَا إِنَّكُمْ لَوْ أَكْثَرْتُمْ ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ لَشَغَلَكُمْ عَمَّا أَرَى ، فَأَكْثِرُوا مِنْ ذِكْرِ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ الْمَوْتِ ، فَإِنَّهُ لَمْ يَأْتِ عَلَى القَبْرِ يَوْمٌ إِلاَّ تَكَلَّمَ فِيهِ فَيَقُولُ : أَنَا بَيْتُ الغُرْبَةِ وَأَنَا بَيْتُ الوَحْدَةِ ، وَأَنَا بَيْتُ التُّرَابِ ، وَأَنَا بَيْتُ الدُّودِ ، فَإِذَا دُفِنَ العَبْدُ الْمُؤْمِنُ قَالَ لَهُ القَبْرُ : مَرْحَبًا وَأَهْلاً أَمَا إِنْ كُنْتَ لأَحَبَّ مَنْ يَمْشِي عَلَى ظَهْرِي إِلَيَّ ، فَإِذْ وُلِّيتُكَ اليَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَى صَنِيعِيَ بِكَ قَالَ : فَيَتَّسِعُ لَهُ مَدَّ بَصَرِهِ وَيُفْتَحُ لَهُ بَابٌ إِلَى الجَنَّةِ . وَإِذَا دُفِنَ العَبْدُ الفَاجِرُ أَوِ الكَافِرُ قَالَ لَهُ القَبْرُ : لاَ مَرْحَبًا وَلاَ أَهْلاً أَمَا إِنْ كُنْتَ لأَبْغَضَ مَنْ يَمْشِي عَلَى ظَهْرِي إِلَيَّ ، فَإِذْ وُلِّيتُكَ اليَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَى صَنِيعِيَ بِكَ قَالَ : فَيَلْتَئِمُ عَلَيْهِ حَتَّى تَلْتَقِيَ عَلَيْهِ وَتَخْتَلِفَ أَضْلاَعُهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : بِأَصَابِعِهِ ، فَأَدْخَلَ بَعْضَهَا فِي جَوْفِ بَعْضٍ قَالَ : وَيُقَيِّضُ اللَّهُ لَهُ سَبْعِينَ تِنِّينًا لَوْ أَنْ وَاحِدًا مِنْهَا نَفَخَ فِي الأَرْضِ مَا أَنْبَتَتْ شَيْئًا مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا فَيَنْهَشْنَهُ وَيَخْدِشْنَهُ حَتَّى يُفْضَى بِهِ إِلَى الْحِسَابِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّمَا القَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ . (رواه الترمذى)
غفلت کو دور کرنے کے لئے موت کو زیادہ یاد کرو
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن نماز کے لئے گھر سے مسجد تشریف لائے، تو آپ نے لوگوں کو اس حال میں دیکھا کہ گویا (وہاں مسجد ہی میں) وہ کِھل کِھلا کر ہنس رہے ہیں، (اور یہ حالت علامت تھی غفلت کی زیادتی کی) اس لئے رسول اللہ ﷺ نے (ان کی اس حالت کی اصلاح کے لئے) ارشاد فرمایا: میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اگر تم لوگ لذتوں کو توڑ دینے والی موت کو زیادہ یاد رکرو، تو وہ تمہیں اس غفلت میں مبتلا نہ ہونے دے، لذتوں کو توڑنے والی موت کو زیادہ یاد کرو۔ (اس کے بعد فرمایا) حقیقت یہ ہے کہ قبر (یعنی زمین کا وہ حصہ جس کو مرنے کے بعد آدمی کا آخری ٹھکانا بننا ہے) ہر روز پکارتی ہے۔ (ظاہر یہ ہے کہ زبانإ قال سے پکارتی ہے، اور اس کی اس پکار کو وہی سُن سکتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ سنانا چاہے، اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہر روز قبر زبانِ حال سے پکارتی ہے) کہ میں مسافرت اور تنہائی کا گھر ہوں، میں مٹی اور کیڑوں کا گھر ہوں (اور قبر کی زبان حال کی اس پکار کو تو ہر بندہ ہر وقت سن سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے زبانِ حال کی باتیں سننے والے کان عطا فرمائے ہوں)۔ (اس کے بعد آپ نے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ مرنے کے بعد جب بندہ کا واسطہ اس زمین سے پڑتا ہے اور وہ اس کے سپرد ہوتا ہے، تو ایمان و عمل کے فرق کے لحاظ سے زمین کا برتاؤ اس کے ساتھ کتنا مختلف ہوتا ہے، چنانچہ آپ نے فرمایا) جب وہ بندہ زمینی کے سپرد کیا جاتا ہے جو حقیقی مؤمن و مسلم ہو، تو زمین (کسی عزیز اور محترم مہمان کی طرح اس کا استقبال کرتی ہے، اور) کہتی ہے مرحبا! (میرا دل دیدہ و دل فرش، راہ) خوب آئے، اور اپنے ہی گھر آئے، تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جتنے لوگ میرے اوپر چلتے تھے ان میں سب سے زیادہ محبوب اور چہیتے مجھے تم ہی تھے، اور آج جب تم میرے سپرد کر دئیے گئے ہو، اور میرے پاس آ گئے ہو، تو تم دیکھو گے کہ (تمہاری خدمت اور راحت رسانی کے لئے) میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرتی ہوں، پھر وہ زمین اُس بندہ مؤمن کے لئے حد نگاہ تک وسیع ہو جاتی ہے، اور اُس کے واسطے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ اور جب کوئی سخت بدکار قسم کا آدمی، یا (آپ نے فرمایا، کہ) ایمان نہ لانے والا آدمی زمین کے سپرد کیا جاتا ہے، تو زمین اُس سے کہتی ہے کہ جتنے آدمی میرے اوپر چلتے پھرتے تھے تو مجھے ان سب سے زیادہ مبغوض تھا، اور آج جب تو میرے حوالہ کر دیا گیا ہے، اور میرے قبضے میں آگیا ہے، تو ابھی تو دیکھے گا کہ میں تیرے ساتھ کیا کرتی ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ پھر وہ زمین ہر طرف سے اُس کو بھینچتی اور دباتی ہے، یہاں تک کہ اس دباؤ سے اس کی پسلیاں ادھر اُدھر ہو جاتی ہیں۔ ابو سعید خدریؓ کا بیان ہے کہ حضور ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں میں دوسرے ہاتھ کی انگلیاں ڈال کر ہم کو اس کا نقشہ دکھایا۔ اس کے بعد فرمایا " پھر اس پر ستر اژدھے مسلط کر دئیے جاتے ہیں، جن میں سے ایک اگر زمین میں پھنکار مارے، تو رہتی دنیا تک وہ زمین کوئی سبزہ نہ اگا سکے، پھر یہ اژدھے اسے برابر کاٹتے نوچتے رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت اور حشر کے بعد وہ حساب کے مقام تک پہنچا دیا جائے۔ ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ اور حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ: اس کے سوا کچھ نہیں کہ قبر یا تو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے، یا دوزخ کے خندقوں میں سے ایک خندق۔ " (جامع ترمذی)

تشریح
قبر کے عذاب و ثواب کے متعلق پوری تفصیل سے گفتگو پہلی جلد میں کی جا چکی ہے، اور عقل کی خامی کسے جو سوالات اور شبہات اس بارہ میں پیدا ہو سکتے ہیں، ان کا جواب بھی وہیں دیا جا چکا ہے، یہ بھی وہیں بتایا جا چکا ہے کہ قبر سے مراد عالمِ برزخ کا ٹھکانا ہے، خواہ وہ اصطلاحی قبر ہو یا کچھ اور، نیز وہیں یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ ثواب یا عذاب کی تفصیلات میں جہاں جہاں حدیثوں میں ستر کا، یا اسی طرح کا کوئی دوسرا بڑا عدد آتا ہے تو اس سے مراد صرف کثرت اور بہتات بھی ہو سکتی ہے، الغرض ان سب پہلوؤں پر تفصیل سے گفتگو پہلی جلد میں کی جا چکی ہے، یہاں تو حدیث کی اس روح کو سمجھنا چاہئے کہ بندے کو خدا سے، اور آخرت کے اپنے انجام سے کسی وقت بھی غافل نہ ہونا چاہئے، اور موت اور قبر کو یاد کرنے اور یاد رکھنے کے ذریعہ غفلت کا علاج کرتے رہنا چاہئے، اور بلا شبہ یہ تیر بہدف علاج ہے۔ صحابہ میں جو تقویٰ، جو خوفِ خدا اور آخرت کی جو فکر تھی، وہ رسول اللہ ﷺ کے اسی طریقِ علاج کا نتیجہ تھا، اور آج بھی یہ اوصاف کچھ اُن ہی بندگانِ خدا میں نظر آتے ہیں، جنہوں نے موت اور قبر کی یاد کو اپنا وظیفہ بنا رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے، کہ موت اور قبر کی یاد کے ذریعہ اپنی غفلتوں کا علاج کریں، اور خدا کے خوف اور خشیت اور آخرت کی فکر کو اپنی زندگی کی اساس بنائیں۔
Top