معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 142
عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِنِّي أَرَى مَا لَا تَرَوْنَ ، وَأَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُونَ ، إِنَّ السَّمَاءَ أَطَّتْ ، وَحَقَّ لَهَا أَنْ تَئِطَّ ، مَا فِيهَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِعَ إِلَّا وَمَلَكٌ وَاضِعٌ جَبْهَتَهُ سَاجِدًا لِلَّهِ ، وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا ، وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا ، وَمَا تَلَذَّذْتُمْ بِالنِّسَاءِ عَلَى الْفُرُشَاتِ ، وَلَخَرَجْتُمْ إِلَى الصُّعُدَاتِ ، تَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ ، وَاللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ شَجَرَةً تُعْضَدُ » (رواه احمد والترمذى وابن ماجه)
اگر عالم غیب ہم پر منکشف ہو جائے تو ہمارا کیا حال ہو
حضرت ابوذر غفاری ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: میں علمِ غیب کی وہ چیزیں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ آوازیں سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے، آسمان چرچرا رہا ہے، اور حق ہے کہ وہ چرچرائے۔ قسم ہے اُس ربِّ ذوالجلال کی، جس کے قبضہ میں میری جان ہے، آسمان میں چار انگل جگہ بھی نہیں ہے، جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ اللہ کے حضور میں اپنا ماتھا رکھے سجدے میں نہ پڑا ہو، اگر تم وہ باتیں جانتے، جو میں جانتا ہوں، تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے، اور بستروں پر بیویوں سے بھی لطف اندوز نہ ہو سکتے، اور اللہ سے نالہ و فریاد اور گریہ و زاری کرتے ہوئے بیابانوں اور جنگلوں کی طرف نکل جاتے۔ (اس حدیث کو نقل کر کے) ابوذرؓ فرماتے ہیں کاش! میں ایک درخت ہوتا، جو کاٹ دیا جاتا۔ (مسند احمد، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)

تشریح
اس سلسلہ کی پہلی جلد (کتاب الایمان) میں جیسا کہ تفصیل سے بیان ہو چکا ہے خدا کے پیغمبر کا اصل کام اور مقام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ جو غیبی حقائق اُس پر منکشف فرمائے، اور جن احکام کی اس کی طرف وضی کی جائے، وہ اللہ کے دوسرے بندوں کو پہنچائے، اور اس پر ایمان لانے والے اُس کے امتیوں کا مقام اور کام یہ ہے کہ اُس پیغمبر کے اعتماد و اعتبار پر اُن سب باتوں کو وہ حق جانیں، مانیں اور ان ہی حقائق کو اپنی زندگی کی بنیاد بنائیں۔ اللہ تعالیٰ نے عام انسانوں کو علم کے جو ذروائع، عقل و حواس وغیرہ عطا فرمائے، ان کی دسترس صرف اسی عالمِ شہود تک محدود ہے، عالمِ غیب تک اُن کی رسائی نہیں ہے، اس لئے غیبی حقائق کی دریافت اور ان کے بارے میں علم و یقین حاصل کرنے کی راہ ہمارے لئے یہی ہے کہ اللہ کے پیغمبروں کے سماع و مشاہدہ اور اُن کی خبر پر ہم اعتماد کریں، اور یقین لائیں اسی نام ایمان ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں عالمِ غیب کے اپنے اس ہیبت ناک انکشاف کا ذکر فرمایا ہے، کہ اللہ کے جلال اور فرشتوں کی کثرت سے آسمان چرچرا رہا ہے، اور چار انگل بھر جگہ بھی اُس میں ایسی نہیں ہے جہاں کوئی فرشتہ سر بسجود نہ ہو۔ اللهُ اَكْبَرُ! اَللهُ اَعْظَمُ!! اَللهُ اَجَلُّ!!!۔ آگے حضور ﷺ نے فرمایا کہ: اگر میری طرح تم بھی وہ سب کچھ جان لو، جو میں جانتقا ہوں، ا ور جو دیکھتا سنتا ہوں، تو تم اس دنیا میں اس طرح ہنسی خوشی نہ رہ سکو، بستروں پر بیویوں سے لطف اندوزی کا بھی تم کو ہوش نہ رہے، اور گھروں سے نکل کر جنگلوں میں اللہ کے سامنے نالہ و فریاد اور گریہ و زاری کرتے پھرو۔ حدیث کے راوی حضرت ابوذر غفاریؓ پر اس حدیث کا اتنا اثر پڑا تھا کہ بعض اوقات اس حدیث کے بیان کرنے کے ساتھ ان کے دل کی یہ آواز زبان سے نکل جاتی تھی، کہ: اے کاش! میں ایک درخت ہوتا، جس کو جڑ سے کاٹ ڈالا جاتا، اور پھر آخرت میں حساب کے لئے میری پیشہ نہ ہوتی۔ ف۔۔۔ اللہ تعالیٰ کو انسانوں سے چونکہ خلافتِ ارضی کا کام لینا ہے، اور وہ جب ہی ممکن ہے کہ انسان اس دنیا میں اطمینان اور سکون کے ساتھ رہ سکے، اس لئے وہ حقیقتیں اور وہ چیزیں عام انسانوں سے پردہ غیب میں رکھی گئی ہیں جن کے انکشاف کے بعد آدمی اس دنیا میں سکون سے نہیں رہ سکتا، مثلاً قبر کا یا دوزخ کا عذاب، اور اسی طرح قیامت کے لرزہ خیز مناظر اگر اس دنیا میں ہم جیسے انسانوں پر منکشف کر دئیے جائیں، اور ہم لوگ ان کو برأی العین دیکھ سکیں، تو پھر اس دنیا میں ہم کوئی کام نہیں کر سکتے، بلکہ زیادہ دنوں تک زندہ بھی نہیں رہ سکتے، لیکن رسول اللہ ﷺ سے اللہ تعالیٰ کو جو خاص کام لینا تھا، اس کے لئے ضروری رتھا کہ آپ پر ان چیزوں کا انکشاف کر دیا جائے، اور ایک درجہ پر ان حقائق کا مشاہدہ آپ کو کرا دیا جائے، تا کہ آپ کے اندر وہ عین الیقین اور حق الیقین پیدا ہو جائے، جس کی آپ کے منصبِ عالی اور کارِ عظیم کے لئے ضرورت تھی، اس لئے اس قسم کے بہت سے غیبی حقائق آپ پر منکشف کئے گئے، اور اسی کے ساتھ حکمتِ خداوندی نے آپ کے قلبِ مبارک کو وہ غیر معمولی طاقت بھی بخشی، کہ اس انکشاف اور مشاہدہ کے باوجود آپ اپنے تمام فرائضِ منصبی کو بحسن و خوبی انجام دے سکیں، اور دنیا میں ایسی جامع اور معتدل زندگی گزار سکیں، جو قیامت تک پیدا ہونے والے ہر قسم اور ہر طبقے کے انسانوں کے لئے نمونہ بن سکے۔ ﷺ۔
Top