معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2111
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: «الْقَرْنُ الَّذِي أَنَا فِيهِ، ثُمَّ الثَّانِي، ثُمَّ الثَّالِثُ»
فضائل اصحاب النبی ﷺ
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ سب سے بہتر کس زمانے کے لوگ ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ اور پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ۔

تشریح
حضرت عبادہ بن صامت ؓ حضرت عبادہؓ کا تعلق مدینہ طیبہ کے قبیلہ خزرج سے ہے۔ مکہ معظمہ آ کر بیعت عقبہ اولیٰ کے موقع پر ایمان لائے تھے۔ یہ واقعہ ۱۲ نبوی کا ہے۔ اس سے ایک سال پہلے حج کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے منیٰ میں جمرہ عقبہ کے قریب مدینہ طیبہ سے حج کے لئے اانے والے حضرات کے سامنے اسلام پیش کیا تھا اور ان کو دین کی دعوت دی تھی اس وقت کل چھ مدنی صحابہ کرامؓ ایمان لے آئے تھے۔ آئندہ سال حج کے موقعہ پر اسی جگہ کچھ اور مدنی صحابہ کرامؓ حاضر خدمت ہو ئے اور مشرف باسلام ہو کر آپ کے دستِ مبارک پر اسلام اور اس کے بنیادی احکامات کی بیعت کر کے مدینہ طیبہ واپس ہوئے ہیں اس بیعت کا کس قدر تفصیلی ذکر صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے۔ (5) ان میں سے کچھ لوگوں کو آپ ﷺ نے الگ الگ قبیلوں کا نقیب یعنی دینی دعوت کے سلسلہ میں ذمہ دار بنایا تھا۔ انہیں نقباء میں سے حضرت عبادہ بن صامتؓ بھی تھے جن کو قبیلہ بنی عوف کا نقیب بنایا تھا۔ (6) صحیح بخاری کی اس روایت میں بھی جس کی طرف ابھی اشارہ کیا گیا ہے۔ آپؓ کے نقیب ہونے کا ذکر ہے۔ فضائل مدینہ طیبہ کے صحابہ کرامؓ میں اولین ایمان لانے والے صحابی ہیں لیلۃ العقبۃ الاولیٰ میں شریک ہونے والے اور ہجرت کے بعد غزوہ بدر سے لے کر تمام ہی غزوات میں شریک ہونے والے صحابی ہیں۔ بدری صحابہ کرامؓ میں بھی آپؓ کا بڑا بلند مقام ہے۔ چند صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ ہی میں پورا قرآن مجید حفظ کر لیا تھا ان میں حضرت عبادہ بن صامتؓ بھی ہیں۔ (1) حضرت یزید بن ابی سفیانؓ نے ملک شام سے حضرت عمرؓ کو خط لکھا کہ یہاں کی لوگوں کو قرآن پڑھانے اور دینی مسائل کی تعلیم دینے کے لئے کچھ معلمین بھیج دیجئے اور حضرت عمرؓ نے حضرت معاذؓ، حضرت عبادہؓ اور حضرت ابو درداءؓ کو بھیج دیا۔ حضرت عبادہؓ نے فلسطین میں قیام کیا اور وہاں کے لوگوں نے قرآن و سنت کی تعلیم دی۔ (2) وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلہ میں کسی کا لحاظ نہیں کرتے تھے۔ خواہ اس کا تعلق حاکم وقت ہی سے کیوں نہ ہو۔ جب حضرت معاویہؓ ملک شام کے حاکم ہوئے ہیں تو حضرت عبادہؓ وہیں قیام فرما تھے، انہوں نے حضرت معاویہؓ کی بہت سی باتوں پر نکیر کی ہے اور ان میں سے بعض باتوں کو حضرت معاوویہؓ نے تسلیم بھی کر لیا، ایک مرتبہ ایک خطیب نے خطبہ میں حضرت معاویہؓ کی موجودگی میں ان کی تعریف شروع کر دی، حضرت عبادہؓ نے زمین سے خاک اٹھائی اور خطیب کے منہ پر مار دی۔ حضرت معاویہؓ نے جب ان کے اس عمل پر گرفت کی تو انہوں نے فرمایا ہمیں اللہ کے رسول ﷺ نے یہی حکم دیا ہے کہ منہ پر تعریف کرنے والوں کے منہ پر خاک ڈال دیں۔ (3) غزوہ احد کے بعد مسلمانوں کی پریشاں حالی کو دیکھ مدینہ کے قرب و جوار کے یہودی قبائل نے مسلمانوں سے کئے ہوئے عہد و پیمان کو نظر انداز کر کے ان کے خلاف مختلف شکلوں میں اعلان جنگ کر دیا تھا۔ قبیلہ بنی قینقاع نے سب سے پہلے عہد شکنی کی تھی۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا اس قبیلہ سے پرانا معاہدہ تھا وہ اس قبیلہ کے ساتھ رہا۔ عبداللہ بن ابی کی طرح حضرت عبادہ بن صامتؓ کا بھی ان لوگوں سے پرانا معاہدہ تھا لیکن انہوں نے اس معاہدہ کی بالکل پرواہ نہ کی اور اپنی برأت اور بےتعلقی کا اعلان کر دیا، اسی موقع پر آیت کریمہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ نازل ہوئی جس میں مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ سے دوستی رکھنے سے منع فرمایا گیا تھا۔ (4) وفات حضرت معاویہؓ کے زمانہ خلافت میں ۳۴؁ھ میں بعمر ۷۲ سال ملک شام میں انتقال ہوا۔ حضرت خباب بن الارت ؓ حضرت خبابؓ کا تعلق قبیلہ بنی تمیم سے ہے بچپن میں کسی نے ان کو پکڑ کر مکہ معظمہ میں لا کر بیچ دیا اور مکہ کی ایک عورت ام انمار نے خرید کر اپنا غلام بنا لیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی دعوت میں جن صحابہ کرامؓ نے بالکل ابتدائی زمانہ میں لبیک کہا ان میں حضرت خبابؓ بھی ہیں۔ انہوں نے اسلام لانے کی پاداش میں ہر طرح کے ظلم و ستم برداشت کئے۔ (1) زمانہ جاہلیت میں لوہاری کا کام کرتے تھے اسلام لانے کے بعد بھی وہی کام کرتے رہے۔ اسی سلسلہ میں عاص بن وائل پر کچھ قرض ہو گیا تھا جس کا مطالبہ کرنے کے لئے عاص کے پاس گئے اس نے کہا تمہارے پیسے جب ملے گے جب تم محمد (ﷺ) کی نبوت کا انکار کر دو، خبابؓ نے فرمایا میں رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا انکار ہرگز نہیں کر سکتا خواہ تو مر کر دوبارہ زندہ ہو جائے۔ (2) عاص نے کہا کیا میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا حضرت خبابؓ نے فرمایا بالکل، اس نے کہا کہ پھر اس وقت میرے پاس بہت سا مال و دولت اور آل اولاد ہو گی میں اسی وقت تمہارے قرض کی ادائیگی کروں گا۔ اس پر سورہ مریم کی کئی آیتیں أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا سے لے کر وَنَرِثُهُ مَا يَقُولُ وَيَأْتِينَا فَرْدًا تک آیات نمبر ۷۷، نمبر ۷۹، نمبر ۸۰ نازل ہوئیں۔ (3) جن میں عاص کی اس بےہودہ قول پر سخت نکیر فرمائی گئی ہے، ان آیات کا ترجمہ اس طرح ہے۔ "بھلا آپ نے دیکھا اس شخص کو جو ہماری آیتوں (قدرت کی نشانیوں اور رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی دلیلوں کا منکر ہوا اور اس نے کہا مجھ کو (دوبارہ زندہ ہونے کی صورت میں) مال اور اولاد ضرور ملے گا کیا اس نے (آئندہ کی) غیب کی باتوں کو دیکھ لیا ہے یا اللہ سے کوئی عہد و پیمان لے رکھا ہے۔ ہرگز نہیں (یعنی مال اولاد کچھ نہیں ملے گا۔)بلکہ ہم اس کی اس بات کو جو وہ کہہ رہا ہے لکھ رکھیں گے اور اس کے لئے عذاب کو طویل تر کرتے رہیں گے۔ اور جس منال و اولاد کا وہ کر کر رہا ہے وہ سب بھی ہمارا ہی ہو گا (یعنی اس کو وہاں کچھ نہ ملے گا) اور وہ ہمارے حضور میں تنہا حاضر ہو گا۔ فضائل جیسا کہ ابھی گزرا وہ اولین اسلام لانے والوں میں ہیں اور اسلام کے لئے ہر طرح کی قربانیاں انہوں نے دی ہیں، چونکہ وہ غلام تھے اس لئے ان کے لئے ہر طرح کی ایذاء رسانیاں جائز تھیں اور کوئی بھی ان کا حمایتی نہ تھا۔ ایک بار مشرکین مکہ نے آگ جلائی اور اس کے دہکتے ہوئے انگاروں پر حضرت خبابؓ کو لٹا دیا ان کی کمر کی چربی سے جب تک انگارے بجھ نہ گئے ان کو اٹھنے نہ دیا۔ عرصہ کے بعد حضرت عمر فاروقؓ نے ان کی کمر دیکھ کر فرمایا تھا، میں نے آج تک ایسی کمر نہیں دیکھی۔ جلنے کے نشانات کی وجہ سے ان کی کمر پر برص کی طرح سفید داغ ہو گئے تھے۔ ان تکلیفوں سے تنگ آ کر ایک دن انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے شکوہ شکایت اور دعا کی درخواست کی آپ نے فرمایا ابھی جلدی نہ کرو پہلے لوگوں نے تو دین کے سلسلہ میں بہت سخت آزمائشیں برداشت کی تھیں۔ (اور آپ ﷺ نے ان آزمائشوں کا ذکر بھی کیا) اور پھر فرمایا واللہ یہ دین ضرور غالب ہو کر رہے گا۔ (1) حضرت علیؓ نے ان کے بارے میں فرمایا تھا۔ "رحم الله خبابا لقد اسلم راغبا وهاجر طائعا وعاش مجاهدا وابتلى فى جسمه حولا ولن يضيع الله اجر من احسن عملا"(2) اللہ خبابؓ پر رحم فرمائے وہ اپنی رضا و رغبت سے ایمان لائے اور انہوں نے خود اپنی خوشی سے ہجرت کی، مجاہدانہ زندگی بسر کی، ہر طرح کی جسمانی تکالیف برداشت کیں اور اللہ اعمال صالحہ کرنے والوں کا اجر ضائع نہیںفرمائے گا وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر اور اس کے بعد جملہ غزوات میں شریک رہے ہیں۔ (3) وفات ۳۷؁ھ کوفہ میں وفات پائی۔ (۴)ؓ وارضاہ۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ حضرت سعد بن معاذ ؓ کا تعلق مدینہ کے مشہور خاندان قبیلہ اوس کی ایک شاخ قبیلہ بنی عبدالاشہل سے ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف لانے سے پہلے ہی حضرت مصعب بن عمیرؓ کے ہاتھ پر ایمان لا چکے تھے جنہیں رسول اللہ ﷺ نے اہل مدینہ کو دین کی دعوت دینے کے لئے ہجرت سے پہلے ہی مدینہ طیبہ بھیج دیا تھا، ایمان لانے کے بعد انہوں نے اپنے خاندابنی عبدالاشہل کے لوگوں کو خطاب کر کے فرمایا اے میرے قبیلہ کے لوگو! تم لوگوں کے نزدیک میرا مقام کیا ہے؟ سب نے کہا آپ ہمارے سردار ہیں، اور ہم سب میں بلند مقام ہیں، یہ جواب سن کر حضرت سعدؓ نے فرمایا میرے لئے تم لوگوں سے بات کرنا حرام ہے جب تک کہ تم سب مرد و عورت اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان نہ لے آؤ، قبیلہ کے تمام مردوں و عورتوں نے ان کی دعوت پر لبیک کہا اور سب ہی لوگ ان کے کہنے پر مسلمان ہو گئے۔ پورے قبیلہ میں ایک بھی شخص ایسا نہ رہا جو دولت ایمانی سے محروم رہا ہو ..... (5) وہ قبیلہ بنی عبدالاشہل ...... (جو اوس کی شاخ ہے اور جس سے ان کا تعلق تھا۔) کے سردار تھے ہی اصل قبیلہ اوس جو انصار مدینہ کا ایک بہت بڑا قبیلہ تھا اس کے بھی سردار تھے، انصار میں کم ہی لوگ ان کے ہم پلہ سمجھے جاتے تھے، زمانہ جاہلیت میں بھی اہل مدینہ میں ان کو یہ بلند مقام حاصل تھا اور مدینہ طیبہ میں اسلام آ جانے کے بعد بھی ان کا یہ مقام اہل مدینہ میں مسلم رہا، خود رسول اللہ ﷺ نے ان کو اہل مدینہ کے سردار کے لقب سے یاد فرمایا ہے۔ (6) رسول اللہ ﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف لے آنے کے بعد آپ مسلسل دین ک دعوت اور رسول اللہ ﷺ کی نصرت و حمایت میں مشغول رہے، غزوہ بدر سے ہی غزوات میں شرکت شروع کر دی تھی، غزوہ خندق میں ایک مشرک کے تیر سے زخمی ہوئے، تیر ہاتھ کی ایک ایسی نس میں لگا جس کے کسی طرح بھی خون نہ رکتا تھا، رسول اللہ ﷺ نے کئی بار اس زخم پر گرم لوہے سے داغ لگوائے، اس وقت خون کو روکنے کے لئے یہ بھی ایک طریق علاج تھا، کئی بار کے بعد خون کا بہنا بند ہوا جب ان کا خون کسی طرح نہ رکتا تھا تو انہوں نے دعا کی تھی اے اللہ تو جانتا ہے کہ مجھے کوئی چیز بھی تیرے راستہ میں جہاد کرنے اور ان لوگوں سے جنگ اور قتال کرنے سے زیادہ محبوب نہیں ہے، جنہوں نے تیرے نبی ﷺ کی تکذیب کی ہے اور ان کو ان کے گھر (مکہ) سے نکالا ہے، الٰہی اگر قریش سے ابھی کوئی جنگ ہونا باقی ہو تو مجھے ابھی مزید زندگی عطا فرما تا کہ ان سے تیرے راستہ میں جہاد کروں، پروردگار، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ بظاہر اب قریش سے مزید کوئی جنگ نہیں ہونی، اگر ایسا ہی ہے تو مجھے اسی زخم میں شہادت عطا فرما دے۔ (1) بعض روایات میں یہ بھی اضافہ ہے کہ انہوں نے یہ بھی دعا کی تھی کہ اے اللہ میرے موت سے پہلے بنو قریظہ کو ان کی دھوکہ دہی اور عہد شکنی کی سزا دے کر میری آنکھیں ٹھنڈی کر دے، (2) بنو قریظہ کا قصہ یہ تھا کہ یہ مدینہ کے قریب ایک یہودی قبیلہ تھا، ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عہد و پیمان کیا تھا کہ ہم نہ آپ لوگوں سے جنگ کریں گے نہ آپ کے دشمنوں کی مدد کریں گے، لیکن دوسرے یہودیوں کی طرح ان لوگوں نے بھی عہد شکنی کی اور مشرکین مکہ اور عرب کے بعض دیگر قبائل کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ کیا انہیں کی سازشوں کے نتیجہ میں غزوہ خندق پیش آیا، اس لئے جیسے ہی رسول اللہ ﷺ غزوہ خندق سے فارغ ہو کر گھر تشریف لائے ہیں، فوراً ہی اللہ کا حکم آ گیا کہ بنی قریظہ پر حملہ کرنے کے لئے چلا جائے آپ صحابہ کرام کی ایک جمیعت لے کر وہاں تشریف لے گئے اور تقریباً ایک ماہ ان کے قلعہ کا محاصرہ کیا ان لوگوں نے اپنے اس مسئلہ میں حضور ﷺ ہی کو حکم بنایا چاہا لیکن آپ ﷺ نے ان کی رضامندی سے حضرت سعد بن معاذ ؓ کو حکم بنا دیا، حضرت سعد بن معاذؓ اور ان کے قبیلہ اوس سے زمانہ جاہلیت میں بنو قریظہ سے حلف یعنی نصرت و حمایت کا معاہدہ تھا لیکن حضرت سعدؓ کو اپنے ان حلیفوں کی عہد شکنی اور رسول اللہ ﷺ سے بغاوت انتہائی ناگوار گذری تھی اس لئے حضرت سعدؓ نے ان لوگوں کے مقاتلین کے قتل کئے جانے اور باقی لوگوں کو غلام بنانے کا فیصلہ فرمایا، حالانکہ ان لوگوں نے بار بار اپنے پرانے عہد و معاہدہ کی یاد دہانی کرائی اور نرم فیصلہ کرانے کی کوششیں کیں بلکہ بعض لوگوں نے تو ان کو اپنے حلیفوں کی حفاظت و حمایت نہ کر سکنے پر بہت عار بھی دلائی، لیکن حضرت معاذؓ نے یہی فیصلہ برقرار رکھا، رسول اللہ ﷺ نے ان کے فیصلے کی تصویب فرمائی۔ (3) حضرت سعدؓ نے زخمی ہونے کے بعد جو دعا کی تھی وہ مقبول ہوئی اور اللہ نے انہیں کے ذریعہ ان کی زندگی میں ہی بنو قریظہ کو کیفر کردار تک پہنچایا اور جیسے ہی وہ بنو قریظہ کے قضیہ سے فارغ ہوئے، زخم کا منہ کھل گیا اور وہی وجہ شہادت ہوا۔ فضائل حضرت سعد بن معاذ ؓ نہایت حسین و جمیل اور طویل القامت شخص تھے ظاہری حسن و وجاہت کے ساتھ اللہ نے ان کو دینی و دنیوی عزت و وقار بھی عطا فرمایا تھا اہل مدینہ میں ان کا بہت بلند مقام تھا ان کے اسلام لانے سے مدینہ میں اسلام کو بڑی تقویت ملی، ان کا پورا فیصلہ بنی عبدالاشہل ان کے اسلام لانے پر مسلمان ہو گیا تھا رسول اللہ ﷺ بھی ان کے مقام کا اعتراف و لحاظ فرماتے تھے۔ جب غزوہ خندق میں وہ زخمی ہوئے ہیں تو آپ نے ان کے لئے مسجد نبوی کے صحن میں ہی خیمہ لگوا دیا تھا تا کہ ان کی تیمارداری اور علاج و معالجہ آپ کی نگرانی میں ہوتا رہے اور وہ ہمہ وقت آپ ﷺ کی نظر میں رہیں پھر جب آپ ﷺ نے ان کو بنو قریظہ کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے قبیلہ بنو قریظہ بلوایا ہے اور وہ سواری پر سوار ہو کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا قوموا الى سيدكم اپنے سردار کے لئے کھڑے ہو جاؤ، بنو قریظہ کے بارے میں جو فیصلہ انہوں نے فرمایا تھا اس فیصلہ کو آپ ﷺ نے اللہ کا فیصلہ قرار دیا تھا اور اسی کے مطابق عمل بھی کرایا تھا۔ جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ ﷺ نے اللہ کے حضور عرض کیا۔ اللهم ان سعدا قد جاهد فى سبيلك وصدق رسولك وقض الذى عليه فتقبل روحه بخير ما تقبلت به روحا الٰہی سعد نے آپ کے راستہ میں جہاد کیا، آپ کے رسول ﷺ کی تصدیق کی اور اپنی تمام دینی ذمہ داریوں کو پورا کیا، میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ آپ ان کی روح کا بہتر سے بہتر استقبال فرمائیں حضرت سعد ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی یہ بات سن کر آنکھیں کھول دیں اور عرض کیا السلام عليك يا رسول الله میں آپ کی رسالت کی گواہی دیتا ہوں وفات ہو جانے پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جزاك الله خيرا فقد انجزت ما وعدته ولينجزنك ما وعدك۔ اللہ تم کو بہترین جزا دے، تم نے جو وعدے اللہ سے کئے سب پورے کر دکھائے اب یقیناً اللہ بھی تم سے کئے ہوئے اپنے وعدے پورے فرمائے گا۔ آپ نے ان کی وفات کے بعد فرمایا کہ سعد، اللہ کا نیک بندہ ہے جس کی آمد کی خوشی پر عرشِ الہٰی جھوم اٹھا، آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے اور ستر ہزار فرشتے آسمان سے ان کے جنازے میں شرکت کے لئے اتر آئے جو کبھی پہلے زمین میں نہیں اترے تھے۔ صحابہ کرام کو ان کی وفات پر اتنا صدمہ ہوا تھا کہ ایسا صدمہ شاذ و نادر ہی کسی کی وفات پر ہوا تھا، حضرت ابو بکر و عمر جیسے صحابہ کرامؓ بھی رو رہے تھے رسول اللہ ﷺ نے ضبط غم کے لئے اپنی داڑھی پکڑ رکھی تھی۔ (1)رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں دومۃ الجندل کے امیر نے ایک ریشمی جبہ بھیجا تھا، صحابہ کرامؓ نے ایسا قیمتی اور شاندار جبہ کبھی نہ دیکھا تھا، صحابہ اس کو بار بار چھوتے اور اس کی نرمی و نزاکت پر تعجب کا اظہار کرتے تھے، آپ نے صحابہ کرامؓ کے اس عمل کو دیکھ کر فرمایا کیا تم کو یہ بہت اچھا معلوم ہو رہا ہے، جنت میں سعد بن معاذؓ کے رومال اس سے بہت زیادہ بہتر اور نرم و نازک ہیں۔ (2) ان کی والدہ حضرت کبشہ ؓ بھی صحابیہ ہیں، بیٹے کی وفات پر بہت رنجیدہ تھیں، بڑا درد بھرا مرثیہ کہا ہے، رسول اللہ ﷺ نے ان کا مرثیہ سن کر ان کو صبر کی تلقین فرمائی اور فرمایا واللہ وہ دین میں بہت پختہ اور اللہ کے کام میں بہت قوی تھے۔ وفات غزوہ احزاب یعنی غزوہ خندق میں زخمی ہونے کی چند دن کے بعد ہی وفات ہو گئی اور وہی زخم شہادت کا سبب بنا تھا، غزوہ خندق کا واقعہ ۵؁ھ کا ہے وفات کے وقت ان کی عمر ۳۷ سال تھی۔ (1)
Top