معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2108
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: «الْقَرْنُ الَّذِي أَنَا فِيهِ، ثُمَّ الثَّانِي، ثُمَّ الثَّالِثُ»
فضائل اصحاب النبی ﷺ
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ سب سے بہتر کس زمانے کے لوگ ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ اور پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ۔

تشریح
حضرت انس بن مالک ؓ حضرت انس بن مالک ؓ کا تعلق مدینہ کے مشہور خاندان قبیلہ خزرج سے تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے دادا عبدالمطلب کی ننہال اسی قبیلہ کی ایک شاخ بنی نجار میں تھی۔ (3) ابھی یہ بچے ہی تھے کہ ان کے والد مالک کا انتقال ہو گیا۔ والدہ ام سلیمؓ بڑی صاحب فضل و کمال صحابیات میں تھیں، پہلے شوہر مالک کے انتقال کے بعد مدینہ کے ایک شخص ابو طلحہ نے شادی کا پیغام دیا، وہ اس وقت تک مسلمان نہ تھے، ام سلیمؓ نے کہا میں تم سے شادی کرنے پر راضی ہوں بشرط یہ کہ تم مسلمان ہو جاؤ، ابو طلحہؓ مسلمان ہو گئے اور پھر شادی ہو گئی۔ فضائل جب رسول اللہ ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ تشریف لائے ہیں، اس وقت حضرت انسؓ کی عمر صرف دس سال تھی۔ لیکن بہت ذہین بچے تھے، ان کی والدہ ام سلیم اور سوتیلے باپ ابو طلحہؓ ان کو لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ ان انسا غلام کیس فلیخدمک۔ اے اللہ کے رسول انس بہت سمجھدار بچہ ہے ہم اس کو آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ان کو اپنی خدمت میں رکھ لیا۔ اس دن سے وہ سفر و حضر میں ہمیشہ آپ کی خدمت میں رہے۔ (1) حتی کہ اس نو عمری کے باوجود غزوات میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ اسلام کا پہلا غزوہ غزوہ بدر ہے۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً گیارہ سال تھی۔ اس غزوہ میں بعض کم عمر صحابہ کرامؓ کو ان کی خواہش کے باوجود صغر سنی کی وجہ سے آپ ﷺ نے شرکت کی اجازت نہیں دی تھی۔ لیکن حضرت انس بحیثیت خادم آپ ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر میں بھی شریک ہوئے ہیں۔ (2) ان کی یہ شرکت چونکہ آپ ﷺ کے خادم کے طور پر تھی اس لئے بدری صحابہ کرامؓ کے تذکرہ میں محدثین نے ان کا ذکر نہیں کیا ہے۔ وہ آپ ﷺ کے کادم تھے اور اپنے نام کے ساتھ خادم رسول اللہ ﷺ کا لفظ لگاتے اور اس پر فخر کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کو بھی ان سے بہت محبت تھی کبھی کبھی پیار و محبت میں آپ ﷺ ان کو یَا بُنَیَّ یعنی اے میرے بیٹے کہہ کر پکارتے تھے۔ آپ ﷺ ان سے اپنے بچوں کی طرح مزاح فرماتے کبھی کبھی ان کے کان پکڑ کر یا ذا الاذنین اے دو کانوں والے فرماتے۔ انہیں بھی آپ سے بہت محبت اور تعلق تھا۔ آپ ﷺ کے وہ تمام کام جو گھر کے بچے کرتے ہیں، حضرت انسؓ ہی انجام دیتے، آپ نے ایک بار ان کو کسی کام کو بھیجنا چاہا کہتے ہیں میں نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں نہیں جاؤں گا، حالانکہ میرے دل میں تھا کہ ضرور جاؤں گا۔ میرے انکار کے بعد آپ نے مجھ سے کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہیں فرمایا بعد میں میں اس کام کے لئے چلا گیا، راستہ میں بچے کھیل رہے تھے میں بھی وہیں کھڑا ہو گیا۔ آپ نے یہ خیال فرمایا کہ میں کام کے لئے نہیں گیا ہوں، اس لئے خود اس کام کے لئے تشریف لے جانے لگے۔ راستہ میں مجھے بچوں کے کھیل میں مشغول دیکھا تو فرمایا تم گئے نہیں، میں نے عرض کیا ابھی جاتا ہوں۔ بچپن کے باوجود ذہانت اور سمجھداری بھی بہت تھی کہتے ہیں کہ ایک بار میری والدہ نے مجھ سے معلوم کیا تو تم اتنی دیر سے کہاں تھے۔ (3) میں نے عرض کیا رسول اللہ ﷺ نے ایک کام سے بھیجا تھا، والدہ نے معلوم کیا کیا کام تھا، میں نے عرض کیا کہ یہ آپ کا راز ہے، والدہ نے فرمایا آپ کا راز کسی کو نہ بتلانا۔ حضرت انسؓ یہ حدیث بیان کرنے کے بعد اپنے شاگرد حضرت ثابت بنانیؒ سے فرماتے ہیں کہ آپ کا راز اگر کسی کو بتلاتا تو ثابت تمہیں بتلاتا۔ (4) حضرت انسؓ کی کنیت ابو حمزہ ہے۔ یہ کنیت ان کے کسی بیٹے کے نام پر نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بچپن میں جنگل کی ایک سبزی جسے حمزہ کہتے ہیں توڑ کر کھا رہے تھے، آپ ﷺ نے دیکھ کر انہیں ابو حمزہ فرما دیا بس ان کی کنیت ابو حمزہ ہو گئی۔ (1) رسول اللہ ﷺ نے حضرت انسؓ کی والدہ ا م سلیم کی درخواست پر حضرت انسؓ کے لئے ہر خیر کی دعا فرمائی اور آخر میں یہ دعا بھی فرمائی: اللهم اكثر ماله وولده وبارك له فيما اعطيته ترجمہ: اے اللہ! انوسؓ کو خوب مال اور اولاد سے نوازئیے اور جو کچھ بھی آپ اس کو دیں اس میں برکت عطا فرمائے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہا اسی اسی دعا کا نتیجہ ہے کہ واللہ میرا مال بہت ہے اور میری اولاد اور میری اولاد کی اولاد آج سو ۱۰۰ سے بھی متجاوز ہے۔ (2) یہ بھی آپ ﷺ کی دعاؤں کا ثمرہ ہے کہ ان کے باغ کی ایک جھاڑی کے پتیوں سے مشک کی خوشبو آتی تھی۔ اسی طرح ان کے باغ میں سال میں دو بار پھل آتے تھے۔ جب کہ اور لوگوں کے باغات سال بھر میں صرف ایک ہی بار پھل دیتے تھے۔ (3) بعض روایات میں ان دعاؤں کے ساتھ وادخلہ الجنۃ کا بھی اضافہ ہے۔ یعنی اے اللہ ان کو جنت میں داخل فرما۔ اسی لئے صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے لئے تین دعائیں فرمائیں دو ۲ کو تو میں نے پورا ہوتے دیکھ لیا ہے۔ ان شاء اللہ تیسری دعا (وادخلہ الجنۃ) بھی ضرور قبول ہو گی۔ (4) رسول اللہ ﷺ نے تو ان کے لئے دعائیں فرمائیں ہی تھیں، وہ خود بھی مستجاب الدعوات تھے، ایک بار ان کی کاشت کے ذمہ دار ملازم نے آ کر عرض کیا۔ کہ آپ کی کھیتی سوکھ رہی ہے، آپ نے دو رکعت نماز پڑھ کر دعا کی خوب بارش ہوئی اور کھیتی سیراب ہو گئی۔ (5) نماز بہت اچھی اور بہت اہتمام سے پڑھتے، حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں ما رأيت احدا اشبه صلوة برسول الله صلى الله عليه وسلم من ابن ام سليم یعنی میں نے کسی کو حضرت انسؓ سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی نماز کے مشابہ نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ حضرت انسؓ کثیر الروایہ صحابی ہیں۔ ہجرت نبوی ﷺ کے بعد ان کا پورا وقت آپ کی خدمت اور صحبت میں گزرا اور انہیں بہت قریب سے آپ ﷺ کے اعمال کو دیکھنے اور اقوال کو سننے کا موقع ملا ہے۔ ان کی روایت کردہ احادیث کی تعداد ۲۲۷۶ ذکر کی جاتی ہے۔ (6) انہوں نے آپ کے بعد اکابر صحابہ کرامؓ سے بھی روایات لی ہیں۔ ان سے روایت کرنے والے بعض صحابہ کرامؓ بھی ہیں، تابعینؒ میں تو ان کے تلامذہ کی ایک بڑی جماعت ہے۔ ان کی والدہ ام سلیم ؓ بھی بہت ذہین، سمجھدار اور بڑے درجہ کی صحابیہ ہیں۔ امام نوویؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے یا آپ کے والد عبداللہ سے کوئی قریبی قرابت تھی ان کے ایک بھائی بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی غزوہ میں شہید ہو گئے تھے۔ اس وجہ سے آپ ﷺ ان کا بہت لحاظ کرتے اور ان کے یہاں آتے جاتے رہتے تھے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں روایت ہے کہ آپ ﷺ نے خواب میں جنت دیکھی اور وہاں حضرت ام سلیم ؓ کو بھی دیکھا۔ (1) مزاج میں سخاوت بھی بہت تھی۔ رسول اللہ ﷺ کی ذات پر اور اللہ کی راہ میں خوب خرچ کرتی تھیں۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی مدینہ طیبہ تشریف آوری پر آپ ﷺ کی ضروریات کے لئے کھجور کا ایک باغ بطور عاریتاً آپ کی خدمت میں پیش کر دیا تھا۔ (2) وہ بڑی جانباز، نڈر اور بہادر تھیں، غزوات میں شریک ہوتی تھیں۔ اصل کام تو مریضوں کی تیمارداری، زخمیوں کو پانی پلانا اور اپنے گھر کے مردوں کے لئے کھانا تیار کرنا تھا۔ لیکن اپنی حفاظت کے لئے اسلحہ بھی ساتھ رکھتی تھیں۔ غزوہ حنین کے موقع پر ایک خنجر لئے ہوئے تھیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ کیا ہے تو عرض کیا یہ خنجر میں نے اس لئے لیا ہے کہ اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو اس کا پیٹ پھاڑ دوں گی، (3) ان کے شوہر ابو طلحہؓ بھی غیر معمولی شجاع اور میدان جنگ میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے لوگوں میں تھے غزوہ احد میں جب مشرکین مکہ نے یکجا ہو کر رسول اللہ ﷺ پر یلغار کر دی اور سب نے اپ ﷺ ہی کو نشانہ بنا کر تیر و پتھر پھینکنے شروع کر دئیے۔ ایسے موقع پر جب کہ بڑے بڑے جانباز اور بہادر صحابہ کرامؓ کے قدم اکھڑ گئےتھے، حضرت ابو طلحہؓ آپ کے لئے سپر بنے ہوئے تھے۔ وہ بہترین تیر انداز تھے۔ اور مسلسل تیر اندازی کر رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کو اپنی پشت پر کر لیا تھا اور خود آپ ﷺ کے سامنے سینہ سپر ہو گئے تھے۔ آپ ﷺ کبھی کبھی سر اٹھا کر مشرکین کو دیکھتے تو ابو طلحہ کہتے۔ يا نبى الله بابى انت وامى لا يشرف لا يصيبك سهم من سهام القوم نحرى دون نحرك۔ اے اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ سر اٹھا کر نہ دیکھیں۔ خدانخواستہ دشمنوں کا کوئی تیر آپ کے نہ لگ جائے۔ میرا سینہ آپ کے سینہ کی حفاظت کرنے کے لئے حاضر ہے۔ (4) رسول اللہ ﷺ کے یہاں فاقہ تو رہتا ہی تھا۔ ام سلیمؓ اور ابو طلحہؓ اس کا خیال رکھتے اور کبھی کبھی آپ ﷺ کی خدمت میں کچھ پیش کر دیتے یا آپ ﷺ ہی کبھی تشریف لے آیا کرتے اور کھانا تناول فرما لیتے تھے، اس گھر میں سب ہی افراد کا آپ ﷺ سے بہت ہی قریبی تعلق تھا۔ اسی سلسلہ کا ایک عجیب و غریب واقعہ صحیح بخاری کے حوالہ سے پڑھ لیجئے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت ابو طلحہؓ نے ام سلیمؓ سے آ کر کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز میں بھوک کی وجہ سے بہت کمزوری محسوس کی ہے، تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے انہوں نے جواب دیا ہاں اور اس کے بعد چھوڑی چھوڑی چند جو کی روٹیاں نکالیں اور اپنی چادر کے ایک کونے میں لپیٹ کر میری بغل میں دبا دیں چادر کا باقی حصہ میرے اوپر لپیٹ دیا اور مجھے وہ روٹیاں لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ میں جب روٹیاں لے کر آپ کی خدمت میں پہنچا، آپ مسجد میں تشریف فرما تھے اور کچھ صحابہ کرامؓ بھی وہاں موجود تھے میں وہاں جا کر کھڑا ہو گیا۔ آپ نے دریافت فرمایا تمہیں ابو طلحہؓ نے بھیجا ہے میں نے عرض کیا جی ہاں فرمایا کھانا لے کر میں نے جواب دیا جی ہاں۔ آپ ﷺ نے وہاں مسجود سب صحابہ کرامؓ سے فرمایا ابو طلحہ کے یہاں چلیں، میں ان حضرات سے پہلے گھر پہنچا اور آ کر حضرت ابو طلحہ کو اس بات کی اطلاع کی انہوں نے میری والدہ ام سلیمؓ سے کہا رسول اللہ ﷺ صحابہ کی ایک جماعت کو لئے ہم لوگوں کے یہاں تشریف لا رہے ہیں اور ہمارے کھلانے کو کچھ نہیں ہے۔ ام سلیم نے کہا اللہ ورسولہ اعلم یعنی آپ صحابہؓ کو خود لائے ہیں اللہ جانے اور آپ جانیں۔ حضرت ابو طلحہؓ نے بڑھ کر آپ کا استقبال کیا اور گھر لے آئے آپ نے ام سلیمؓ سے کہا جو کچھ تمہارے پاس ہے لے آؤ۔ ام سلیمؓ وہی روٹیاں لے آئیں آپ نے ان کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرائے۔ ام سلیم نے گھی کی کپی سے گھی ڈال دیا پھر رسول اللہ ﷺ نے اس پر کچھ پڑھا اور فرمایا دس دس کر کے لوگوں کو بلاتے رہو۔ صحابہ کرامؓ کی دس ۱۰ دس ۱۰ کی جماعتیں آتئی رہیں اور کھانے سے فارغ ہو کر نکلتی رہیں حتیٰ کہ ستر ۷۰ یا اسی ۸۰ صحابہ کھانے سے فارغ ہو گئے۔ (1) رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے حضرت انسؓ کو بعض حکومتی کاموں کا ذمہ دار بنا کر بحریں بھیجا تھا۔ آخر میں بصرہ میں سکونت اختیار کر لی تھی، وہیں ۹۳ھ میں وفات پائی۔ بصرہ میں وفات پانے والے آخری صحابی حضرت انسؓ ہی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرات شیخین اور بعض دیگر اکابر صحابہؓ سے بھی روایت کرتے ہیں۔ ان کے مشہور تلامذہ میں حسن بصری، ثابت بنانی، قتادہ زہری وغیرہم ہیں ؓ، وارضاہ۔ حضرت سلمان فارسی ؓ حضرت سلمان فارسی ؓ، کا وطن ملک ایران کا شہر اصبہان ہے وہاں سے اللہ تعالیٰ نے ان کو مدینہ طیبہ پہنچایا اور شرف ایمان و صحابیت سے نوازا ہے ان کے اس شرف و کمال تک پہنچنے کی داستان خود ان کی زبانی سنئے۔ انہوں نے یہ پورا واقعہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو سنایا تھا۔ کہتے ہیں کہ میں ایرانی النسل ہوں۔ میرا وطن اصبہان ہے۔ میرے والد اپنے گاؤں کے سردار تھے۔ انہیں مجھ سے بہت محبت اور غیر معمولی تعلق تھا۔ اسی لئے ہمہ وقت گھر میں اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ انہوں نے میری پرورش، تربیت اور نگرانی بچیوں کی طرح خارجی ماحول سے کلی حفاظت کے ساتھ کی تھی۔ ہمارے یہاں کا دین آتش پرستی تھا۔ مجھے بھی اپنے دین سے بہت تعلق اور لگاؤ تھا، والد صاحب نے اپنے عبادت خانہ برائے عبادت جو آگ جلا رکھی تھی اور جس کو کبھی بجھنے نہ دیا جاتا تھا، میں ہی اس کا نگران تھا۔ والد مالدار اور صاحب ثروت تھے۔ بہت سے جانور اور کاشت کی زمین تھی۔ اس کی دیکھ بھال وہ خود ہی کرتے تھے، لیکن ایک دن کسی مجبوری کی وجہ سے مجھے جانوروں یا کاشت کاری کے سلسلے کے کسی کام سے بھیجا اور تاکید کر دی کہ کام سے فارغ ہو کر فوراً واپس آ جانا۔ میں اس کام کے لئے جب گیا تو راستہ میں مجھے نصاریٰ کا ایک کنیسہ۔ (گرجا) ملا۔ جس میں وہ لوگ اپنی عبادت میں مشغور تھے۔ ان کی آوازیں سن کر میں کنیسہ کے اندر داخل ہو گیا۔ چونکہ مجھے گھر سے نکلنے کی اجازت ہی نہ تھی، اس لئے ابھی تک میں مجوسیت یعنی آتش پرستی کے سوا کسی دین سے واقف نہ تھا مجھے ان کی عبادت اور ان کا دین اپنے دین اور آتش پرستی کے مقابلہ میں بہت اچھے لگے میں صبح شام تک انہیں لوگوں کے پاس رہا اور والد کے کام سے نہ جا سکا۔ میں نے ان لوگوں سے اس دین میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا اور یہ معلوم کیا کہ اس دین کا مرکز اصلی کہاں ہے۔ انہوں نے مجھے بتلایا کہ ہمارا مذہبی مرکز ملک شام میں ہے میرے دیر تک نہ آنے کی وجہ سے گھر پر میری تلاش شروع ہو گئی تھی۔ رات کو جب گھر پہنچا تو والد نے سوال کیا کہاں تھے؟ میں نے پورا واقعہ بتلا دیا اور نصرانیت میں اپنی رغبت کا ذکر بھی کر دیا۔ میرے والد نے مجھے سمجھایا اور کہا بیٹے اس دین میں کوئی خیر نہیں ہے۔ سارے ادیان میں تمہارا اور تمہارے آباء و اجداد کا دین سب سے بہتر دین ہے۔ لیکن میں اپنی رائے پر قائم رہا اور میں نے والد صاحب سے کہہ دیا کہ میرے نزدیک تو وہ دین یقیناً ہمارے دین سے بہتر دین ہے۔ اب میرے والد کو میرے بارے میں خطرہ ہو گیا اور انہوں نے نہ صرف یہ کہ مجھے خانہ قید کر دیا۔ بلکہ میرے پاؤں میں بیڑیاں بھی ڈال دیں، میں نے خاموشی سے اس کنیسہ کے لوگوں کو یہ پیغام بھیجا کہ اگر کوئی قافلہ ملک شام سے آئے تو مجھے اطلاع کرا دیں حسن اتفاق جلد ہی ایک قافہ ملک شام سے آ گیا اور اس کی واپسی کے وقت میں اپنی قید سے کسی طرح بھاگ کر اس قافلہ کے ساتھ ملک شام پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر مجھے دین نصاریٰ کے کسی بڑے عالم کی تلاش ہوئی لوگوں نے بتلایا کہ فلاں کنیسہ میں ایک بڑا نصرانی عالم ہے میں اس کے پاس پہنچا اور اپنا پورا قصہ اور آمد کا مقصد بھی بیان کر دیا کہ آپ کی خدمت میں رہ کر علم دین حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے میری درخواست منظور کر کے قیام کی اجازت دے دی۔ میں اس کے پاس کچھ عرضہ رہا لیکن وہ اچھا آدمی نہ نکلا۔ دوسرے کو اعمال خیر کی ترغیب دیتا اور خود عمل نہ کرتا تھا، مال کا حریص تھا، لوگوں سے صدقات و خیرات وصول کر کے جمع کرتا رہتا تھا۔ اس نے سونے چاندی سے پانچ مٹکے بھر لئے تھے، اسی وجہ سے مجھے اس سے نفرت ہو گئی تھی۔ اللہ کا کرنا کہ جلد ہی وہ مر گیا۔ اس کے بعد اس کنیسہ کے لئے ایک دوسرے عالم متعین کئے گئے وہ واقعی دیندار اور عابد، زاہد تھے۔ میں انے کے پاس رہا۔ ان کے صلاح و تقویٰ کی وجہ سے مجھے ان سے بہت محبت اور عقیدت ہو گئی۔ کافی دنون کے بعد جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو میں نے کہا کہ اب بظاہر آپ کا وقت قریب آ گیا ہے۔ آپ مجھے کس کی خدمت میں جانے کی وصیت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب علماء میں دین نہیں رہ گیا ہے، میرے علم میں ایک دیندار عالم موصل نامی شہر میں ہیں تم میری وفات کے بعد ان کے پاس چلے جانا۔ ان کی وفات کے بعد میں نے ایسا ہی کیا اور موصل پہنچ کر ان عالم کی خدمت میں حاضر ہوا، اپنا پورا واقعہ اور پہلے عالم کی وصیت کا ذکر کیا کہ انہوں نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے۔ انہوں نے مجھے اپنی خدمت میں رکھ لیا۔ وہ بھی بہت نیک عابد، زاہد عالم تھے، لیکن ان کی وفات بہت جلد ہو گئی۔ وفات سے پہلے میں نے ان سے بھی وہی سوال کیا کہ اب آپ کے بعد میں کہا جاؤں۔ انہوں نے مجھے نصیبین کے ایک عالم کا پتہ دیا میں ان کے انتقال کے بعد نصیبین کے عالم کے پاس پہنچا۔ وہ بھی عالم با عمل تھے۔ مگر میرے پہنچنے کے بعد جلس ہی مجھے محسوس ہوا کہ یہ بھی زیادہ دن کے مہمان نہیں ہیں۔ اس لئے ان سے بھی میں نے آئندہ کے لئے وصیت و نصیحت کی درخواست کی۔ انہوں نے مجھ سے ملک روم کے شہر عمودیہ کے ایک عالم کے پاس چلے جانے کو کہا اور پھر میں ان کی وصیت کے مطابق ان کے انتقال کے بعد عمودیہ کے ان عالم کی کدمت مین پہنچا جن کا پتہ نصیبین کے عالم نےدیا تھا۔ یہاں میں نے تحصیل علم کے ساتھ کچھ تجارت بھی کی جس سے میرے پاس کافی گائیں اور بکریاں جمع ہو گئی۔ اللہ کا کرنا ان عالم صاحب کا بھی وقت موعود آن پہنچا تو مین نے اپنا وہی پرانا سوال ان کے سامنے رکھ دیا۔ کہ اب آپ کے بعد کہاں؟ انہوں نے مجھ سے کہا اب تو کوئی عالم نصاریٰ میں ایسا نہیں رہا۔ جس کی طرف راہنمائی کی جا سکے۔ البتہ اب نبی آخر الزماں ﷺ کی بعثت کا وقت قریب آ چکا ہے۔ وہ ملت ابراہیمی پر ہوں گے۔ اور ان کا دارالہجرت ایک ایسا نخلستان یعنی کھجوروں کا علاقہ ہو گا جو دو پتھریلے علاقوں کے بیچ میں ہو گا، ان کی علامات نبوت بالکل واضح ہوں گی۔ وہ ہدیہ قبول کریں گے، صدقہ نہیں، ان کی کمر پر دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت ہو گی، اتر تمہاری رسائی ان تک ہو سکے تو تم ضرور ان کی خدمت میں چلے جانا۔ عموریہ کے ان عالم کی وفات کے بعد عرصہ تک میں عموریہ میں رہا۔ کافی دنوں کے بعد وہاں ملک عرب کے قبیلہ بنو کلاب کا ایک تجارتی قافلہ پہنچا۔ میں نے اہل قافلہ سے کہا، مجھے آپ لوگ اپنے ساتھ عرب لے چلیں۔ میں اپنی سب گائیں اور بکریاں آپ لوگوں کو دے دوں گا۔ انہوں نے میری بات قبول کر لی اور میں ان کے ساتھ ملک عرب کے لئے روانہ ہو گیا۔ لیکن جب یہ لوگ وادی القریٰ (جو خیبر کی قریب یہود کی ایک بستی ہے) پہنچے تو ان لوگوں نے بدعہدی کی اور مجھے غلاب بتا کر ایک یہودی کے ہاتھ بیچ دیا۔ کافی دنوں کے بعد ایک روز میرے مالک کا ایک عزیز مدینہ طیبہ سے آیا اور مجھے خرید کر مدینہ طیبہ لے گیا۔ مدینہ طیبہ میں نبی آخری الزماں ﷺ کے دارالہجرت ہونے کی وہ تمام علامتیں موجود تھیں جو مجھے عموریہ کے عالم نے بتلائی تھین اور مجھے یقین ہو گیا کہ ایک دن ضرور نبی آخر الزماں ﷺ یہاں یشریف لائیں گے۔ میں یہاں غلامی کی زندگی گذارتا رہا۔ اپنے مالک کے کام کاج میں مشغول رہتا تھا مکہ معظمہ میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی۔ کچھ خبریں مدینہ بھی آئیں، لیکن مجھ غلام کو کچھ پتہ نہ چلا۔ ایک دن مین نے یہودی مالک کے باغ میں کھجور کی درخت پر چڑھا ہوا تھا، میرا مالک قریب ہی بیٹھا تھا کہ اس کے ایک عزیز نے آ کر یہ خبر دی کہ مدینہ طیبہ کے بہت سے لوگ ایک ایسے شخص کے استقبال کے لئے قبا گئے ہیں جو مکہ سے آیا ہے، اور خود کو اللہ کا نبی کہتا ہے۔ یہ خبر سنتے ہی میرا عجیب حال ہو گیا، جسم کانپنے لگا اور مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں درخت سے نیچے نہ گر جاؤں۔ بمشکل تمام اتر کر آیا اور خبر دینے والے شخص سے پوچھنے لگا کہ تم کیا کہہ رہے تھے۔ میرے مالک کو میرے سوال پر بہت غصہ آیا، اس نے میرے منہ پر ایک طمانچہ مارا اور کہا تم سے کیا مطلب تم اپنا کام کرو میں نے کہا بس یونہی سوال کر رہا تھا جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ پہنچ گئے تو ایک رات کو میں کھانے کا کچھ سامان لے کر بغرض امتحان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یہ صدقہ آپ کے اور آپ کے ساتھیوں کے لئے لایا ہوں آپ ﷺ نے غریب صحابہ کرام سے فرمایا تم لوگ کھاؤ اور خود اس کو ہاتھ نہ لگایا میں نے دل میں کہا جو علامات عموریہ کے عالم نے بتلائی تھی ان میں سے ایک علامت تو صحیح نکلی کچھ دنوں کے بعد کھانے کا کچھ سامان لے کر دوبارہ حاضر ہوا اور عرض کیا یہ آپ کی خدمت میں ہدیہ ہے آپ نے اس کو قبول فرما لیا خود بھی کھایا اور صحابہ کرام کو بھی کھلایا میں نے اپنے دل میں کہا یہ دوسری علامت بھی صحیح ثابت ہوئی پھر ایک دن موقع پا کر کمر مبارک پر ختم نبوت بھی دیکھ لی اس آخری علامت کو دیکھ کر صبر نہ ہوسکا اور میں پشت مبارک سے چمٹ کر رونے لگا آپ نے مجھے اپنے سامنے کی جانب بلا لیا میں نے آپ کے سامنے بیٹھ کر اپنا پورا قصہ سنا دیا آپ نے میرا قصہ وہاں موجود صحابہ کرام کو بھی سنوایا۔ اب کس چیز کا انتظار تھا زندگی بھر سے جس نور ہدایت کی تلاش تھی میں اس کے سامنے تھا تمام عمر کی بے چینی کو قرار نصیب ہوگیا۔ کلمہ شہادت پڑھ کر اسی وقت مسلمان ہوگیا۔ (1) فضائل حضرت سلمان فارسی دین حق کی طلب میں کس طرح اپنے گھر کے آرام و راحت کو چھوڑ کر ملکوں ملکوں گھومتے پھرے اور ایک عالم سے دوسرے عالم کی خدمت میں علم دین کے خاطر جاتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے ان کو آغوش نبی ﷺ تک پہنچادیا گئی دین کا ایسا شوق اور طلب اللہ کی ان مخصوص بندوں ہی کا نصیب تھا اب رسول اللہ ﷺ کو ان کی آزادی کی فکر تھی آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم اپنے یہودی مالک سے کتابت کرلو۔ کتاب کی صورت یہ ہوتی ہے کہ غلام اور اس کے مالک کے درمیان یہ بات طے ہو جائے کہ ایک متعین مدت میں غلام اپنے آقا کو متعین رقم یا کوئی اور متبادل چیز ادا کردے تو وہ آزاد ہے آپ کے فرمانے پر حضرت سلیمان فارسی نے اپنے مالک سے کتابت کرلی اس یہودی نے بہت سخت شرائط پر کتابت کی تھی۔ اس کی پہلی شرط تو یہ تھی کہ میرے باغ میں تین سو کھجور کے درخت لگائے جائیں اور جب تک وہ پھل دینے کے قابل نہ ہو اس وقت تک سلمان ان کی پرورش اور نگہداشت کریں دوسری شرط چالیس اوقیہ چاندی کی ادائیگی تھی۔ (ایک اوقیہ چالیس درہم کے ہم وزن ہوتا ہے لہذا چالیس اوقیہ کا وزن چھ سو درہم ہوا) رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے کھجور کے تین سو پودے منگوائے اور اپنے دست مبارک سے سب پودے لگائے ایک بودا حضرت عمرؓ نے لگایا سب پودے اسی سال پھل دینے لگے سوائے اس ایک پودے کے کہ اس پر پھل نہیں آئے آپ ﷺ نے جب اس کے پھل نہ دینے کی تحقیق کی تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا یہ پودا میں نے لگا دیا تھا آپ ﷺ نے اسے اکھاڑ کر دوبارہ اپنے دست مبارک سے لگا دیا وہ بھی اسی سال پھل دینے لگا۔ (1) چاندی کی ادائیگی کا انتظام بھی آپ ہی نے کرکے حضرت سلمان فارسی کو اس یہودی کی غلامی سے آزاد کرایا۔(2) وہ اگرچہ رسول اللہ ﷺ کی مدینہ طیبہ تشریف آوری کے فورا بعد ہی مسلمان ہوگئے تھے لیکن غزوہ بدر اور احد میں اپنی غلامی کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے تھے آزادی کے بعد غزوہ خندق میں شریک ہوئے اور پھر جملہ غزوات میں شرکت کی غزوہ خندق کے موقع پر انہیں کی تجویز پر مدینہ کے اطراف میں خندق کھودی گئی جس کے کھودنے میں رسول اللہ ﷺ بھی صحابہ کرام کے ساتھ شریک رہتے تھے اور اسی خندق کی وجہ سے اس غزوہ کو غزوہ خندق کہتے ہیں۔ (3) رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا تھا جنت سلمان کے لیے ہمہ تن اشتیاق بنی ہوئی ہے۔ (4) وہ بڑے صاحب علم تھے، صحابہ کرامؓ بھی ان کے علم و دین کے معترف تھے حضرت معاذ بن جبلؓ سے انکی وفات کے قریب ان کے شاگردوں اور عزیزوں نے وصیت و نصیحت کی درخواست کی انہوں نے جو نصیحت فرمائیں ان میں سے ایک نصیحت یہ بھی تھی کہ سلمان فارسیؓ صاحب علم ہیں ان سے علم حاصل کرنا۔ (5) صحابہ کرام کی ایک غلطی پر تنبیہ کرنے کے لئے اللہ تعالی نے آیت کریمہ "إِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُم" نازل فرمائی جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم لوگ دین کی خدمت میں کوتاہی کرو گے تو اللہ تعالی تمہارے بجائے دوسرے لوگوں سے دین کا کام لے لے گا جو تمہاری طرح غلطی و کوتاہی نہ کریں گے۔ صحابہؓ نے اس آیت کے نزول کے بعد فورا ہی اپنی کوتاہی کی تو اصلاح کرلیں لیکن رسول اللہ ﷺ سے یہ بھی دریافت کرلیا کہ وہ کون لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالی فرما رہا ہے کہ ہماری بجائے ان سے دین کی خدمت لے لے گا اور پھر وہ ہماری جیسی کوتاہی بھی نہ کریں گے آپ نے حضرت سلیمان فارسیؓ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا یہ اور انکی قوم۔ حضرت سلمان فارسیؓ اپنے ملک ایران سے نکل کر کس طرح مدینہ طیبہ پہنچے تھے یہ تو آپ نے پڑھ لیا پھر ایک دن وہ بھی آیا کہ مسلمانوں کے ایک لشکر نے ایران کے ایک قلعہ کا محاصرہ کیا اس لشکر کے امیر حضرت سلیمان فارسیؓ تھے ان کے ساتھیوں نے حملہ کرنے کی اجازت چاہی تو انہوں نے کہا ابھی انتظار کرو میں ان کو اس طرح دین کی دعوت دیتا ہو جیسے میں نے رسول اللہ ﷺ کو دعوت دین دیتے سنا ہے اسکے بعد حضرت سلیمانؓ ان ایرانیوں کے قریب آکر فارسی زبان میں ان سے مخاطب ہوئے اور فرمایا۔ ایران کے لوگوں! میں تم ہی میں کا فارسی النسل ایک شخص ہو تم دیکھ رہے ہو یہ عرب میری اطاعت کر رہے ہیں اگر تم بھی مسلمان ہوجاؤ گے تو تم بالکل ہم لوگوں کے مساوی ہو جاؤ گے تم کو وہ جملہ حقوق حاصل ہوجائیں گے جو ہم سب کو ہیں اور تمہاری ذمہ داریاں بھی وہی ہوں گی جو ہماری ہیں۔ اور اگر تم اسلام نہیں لاتے تو تم جانو لیکن تمہیں جزیہ دینا پڑے گا جو ایک ذلت کی بات ہے اور اگر جزیہ دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے تو پھر قتال کے لئے تیار ہو جاؤ اہل فارس کسی بات کے لئے تیار نہیں ہوئے حضرت سلیمانؓ کے ساتھیوں نے اب حملہ کی اجازت چاہی آپ نے فرمایا ابھی نہیں تین دن تک اسی طرح دعوت دی جائے گی پھر حملہ کیا جائے گا بالآخر تین دن تک دعوت دینے کے بعد حملہ ہوا اور مسلمان کامیاب ہوئے۔ (1) رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ تشریف لا کر انصار اور مہاجرین کے درمیان مواخات کرادی تھی جس کی صورت یہ تھی کہ ایک ایک مہاجر صحابی کو ایک ایک انصاری صحابی کا بھائی قرار دے دیا گیا تھا۔ حضرت سلیمان فارسی کو جو مہاجر تھے حضرت ابودرداء انصاریؓ کا بھائی بنا دیا تھا۔ ایک دن حضرت سلمانؓ حضرت ابودرداءؓ کے یہاں ملاقات کیلئے آئے ان کی اہلیہ ام درداء کو دیکھا کہ بہت ہی معمولی حال میں ہیں زیب و زینت کی کوئی چیز بھی اختیار کئے ہوئے نہیں ہیں انہوں نے معلوم کیا کہ تم نے اپنا یہ حال کیوں بنا رکھا ہے انہوں نے جواب دیا تمہارے بھائی ابودرداء کو دنیا سے کوئی تعلق ہی نہیں کچھ دیر بعد ابودرداءؓ تشریف لے آئے کھانے کا اہتمام کیا اور حضرت سلمانؓ سے کہا آپ کھائیے میرا روزہ ہے حضرت سلمانؓ نے کہا کہ میں تمہارے بغیر نہیں کھاؤنگا اس پر حضرت ابو درداءؓ نے بھی کھانا کھا لیا۔ جب رات آئی تو ابودرداءؓ نفل نماز پڑھنے چلے حضرت سلمانؓ نے کہا سو جائیے وہ سو گئے کچھ دیر بعد وہ پھر نماز کے لیے کھڑے ہونے لگے حضرت سلمانؓ نے کہا اب کھڑے ہو جائءے اور نماز پڑھیے۔ دونوں نے نماز پڑھی اس کے بعد حضرت سلمانؓ نے حضرت ابو درداءؓ سے فرمایا تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے نفس کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے اہل و عیال کا بھی تم پر حق ہے ہر صاحب حق کو اس کا حق دینا چاہیے حضرت ابو درداء نے رسول اللہ ﷺ سے آکر اس پورے واقعہ کا ذکر کیا آپ ﷺ نے فرمایا سلمان نے صحیح کہا۔ (2) یہ روایت تو صحیح بخاری کی تھی ایک دوسری روایت میں اس کے بعد یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت ابو درداء سے فرمایا "سلمان افقه منك" سلمان تم سے زیادہ فقیہ یعنی زیادہ دینی سمجھ بوجھ اور واقفیت رکھنے والے ہیں ایک بار آپ نے حضرت سلمان کے بارے میں فرمایا "سلمان منا اهل البيت" سلمان تو ہمارے اہل بیت میں ہیں۔ کمال علم کے ساتھ زہد و تقویٰ میں بھی بڑا بلند مقام تھا حضرت عمرؓ نے مدائن کا حاکم بنا کر بھیجا تھا اور 5 ہزار درہم وظیفہ مقرر کیا تھا لیکن وہ سب راہ خدا میں خرچ کرتے اور خود اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔ (1) صحابہ کرام میں حضرت انسؓ حضرت عبداللہ بن عباسؓ حضرت ابو سعید خدریؓ اور بعض دیگر صحابہ کرام اور تابعین کی بھی ایک خاصی تعداد نے ان سے روایات نقل کی ہیں ان کی روایات کی تعداد 60 ہے عمر بہت طویل پائی بعض حضرات نے ساڑھے تین سو اور بعض نے ڈھائی سو سال ذکر کی ہے۔ (2) 36ھ یا 37ھ میں حضرت عثمانؓ کے زمانہ خلافت میں مدائن میں وفات ہوئی وہی قبر ہے۔ (3) ؓ وارضاہ۔
Top