معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2103
عَنْ قَيْسِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلَّقَهَا تَطْلِيقَةً، ثُمَّ اِرْتَجَعَهَا وَذَالِكَ أَنَّ جِبْرَائِيْلَ، قَالَ لَهُ إِرْجِعْ حَفْصَةَ فَإِنَّهَا صَوَّامَةٌ قَوَّامَةٌ، وَإِنَّهَا زَوْجَتُكَ وَفِي الْجَنَّةِ.
ام المومنین حضرت حفصہ ؓ
قیس ابن زید سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حفصہؓ کو ایک مرتبہ طلاق دی پھر رجوع فرما لیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ سے کہا کہ آپ ﷺ حفصہؓ سے رجعت کر لیں اس لئے کہ وہ بہت روزہ رکھنے والی اور بہت نماز پڑھنے والی ہیں اور وہ جنت میں بھی آپ کی زوجہ ہوں گی۔

تشریح
یہ حضرت عمر ؓ کی صاحبزادی تھیں، حضرت عمرؓ کی اولاد میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی تنہا یہی حقیقی بہن تھیں، ان کی والدہ زینب بنت مظعونؓ تھیں جو مشہور صحابی حضرت عثمان بن مظعون کی بہن تھیں، اور خود بھی صحابیہؓ تھیں۔ حضرت حفصہؓ کی ولادت بعثت نبوی سے ۵ سال پہلے ہوئی تھی، اس لحاظ سے یہ رسول اللہ ﷺ سے قریباً ۳۵ سال چھوٹی تھیں۔ ہجرت سے پہلے ان کا نکاح حضرت خنیس بن حذافہ سہمی نامی ایک صحابی سے ہوا تھا اور ان ہی کے ساتھ انہوں نے مدینہ منورہ ہجرت کی تھی۔ حضرت خنیسؓ غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے اور راجح قول کے مطابق بدر ہی میں ان کے کاری زخم آئے جن سے وہ جانبر نہیں ہو سکے تھے۔ اور کچھ ہی عرصہ کے بعد ان ہی زخموں کی وجہ سے شہادت پائی۔ حضرت خنیسؓ کے انتقال کے بعد حضرت عمرؓ کو اپنی بیٹی کی فکر ہوئی۔ یہ غزوہ بدر کے بعد کا زمانہ ہے۔ اسی موقعہ پر حضرت عثمانؓ کی اہلیہ اور رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہؓ کا انتقال ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ نے حضرت عثمانؓ سے حضرت حفصہؓ کے نکاح کی پیشکش کی۔ انہوں نے غور کرنے کے لئے کچھ وقت مانگا۔ اور چند دن کے بعد معذرت کر دی۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکرؓ سے یہی پیش کش کی، مگر انہوں نے خاموشی اختیار کی اور کوئی جواب نہیں دیا۔ حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ مجھے ان کی خاموشی حضرت عثمانؓ سے زیادہ ناگواری گذری ...... اس کے کچھ ہی عرصہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت حفصہؓ کے لئے پیام دیا، اور جب یہ نکاح ہو گیا تب حضرت ابو بکرؓ حضرت عمرؓ سے ملے اور کہا کہ میرا خیال ہے کہ جب تم نے مجھ سے حفصہ سے نکاح کی خواہش کی تھی، اور میں خاموش رہا تھا تو تم اس سے رنجیدہ ہوئے تھے۔ اصل میں قصہ یہ تھا کہ مجھے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ خود رسول اللہ ﷺ کا ارادہ حفصہؓ کو اپنے نکاح میں لینے کا ہے۔ اور اسی وجہ سے میں نے تمہاری پیشکش کا کوئی جواب نہیں دیا تھا، میں یہ بھی مناسب نہیں سمجھتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے جو بات ابھی راز میں رکھی تھی، مین اس کو ظاہر کر دوں۔ اور اگر رسول اللہ ﷺ کا یہ ارادہ میرے علم میں نہ ہوتا تو میں ضرور تمہاری پیش کش قبول کر لیتا۔ یہ ساری تفصیلات صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغٖیرہ میں حضرت حفصہؓ کے بھائی حضرت عبداللہ بن عمرؓ ہی کی روایت سے موجود ہیں۔ حدیث کی ایک اور کتاب مسند ابو یعلیٰ میں اتنی بات کا اور اضافہ ہے کہ جب حضرت عثمانؓ نے حضرت عمرؓ کی پیش کش قبول کرنے سے معذرت کر دی تو حضرت عمرؓ نے اس کا شکوہ رسول اللہ ﷺ سے کیا۔ جس پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حفصہ کو عثمانؓ سے بہتر شوہر دے گا اور عثمانؓ کو تمہاری بیٹی حفصہؓ سے بہتر بیوی۔ چنانچہ کچھ ہی دنوں کے بعد حضرت عثمانؓ کا نکاح رسول اللہ ﷺ ہی کی دوسری صاحبزادی ام کلثومؓ سے ہوا اور حضرت حفصہؓ کو رسول اللہ ﷺ کی زوجیت کا شرف ملا۔ حضرت حفصہؓ کے مناقب میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت عمر ؓ کے مشورہ سے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے عہد خلافت میں قرآن مجید کا جو نسخہ مکمل شکل میں مرتب و مدون کیا گیا تھا۔ وہ نسخہ حضرت عمر ؓ کی وفات کے بعد حضرت حفصہ ؓ ہی کی تحویل میں رہا، اور حضرت عثمان ؓ کے عہد خلافت میں جب ضرورت پڑی کہ قرآن مجید کے یکساں نسخے مرکز خلافت ہی سے مدون و مرتب کرا کے عالم اسلام میں بھیجے جائین تو حضرت حفصہؓ کے پاس محفوظ نسخہ کو بنیاد مانا گیا تھا ..... اس کی ضروری تفصیل اسی سلسلہ معارف الحدیث میں حضرت عثمانؓ کے مناقب میں لکھی جا چکی ہے ..... یہاں تو صرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ عہد فاروقی کے بعد اس نسخہ کی حفاظت کا شرف حضرت حفصہؓ کے حصہ میں آنا یقیناً ان کی ایک قابل ذکر فضیلت ہے۔ ام المومنین حضرت حفصہؓ نے حضرت معاویہؓ کے عہد خلافت میں ۴۵؁ھ میں انتقال فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر قریباً ۶۳ سال تھی۔ ان تعارفی و تمہیدی کلمات کے بعد وہ حدیث پڑھئے جس میں اللہ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل کی زبانی حضرت حفصہؓ کے بارے میں ایک شہادت نقل ہوئی ہے اور اسی کی وجہ سے واقعہ یہ ہے کہ حضرت حفصہؓ کے فضائل میں تنہا یہی حدیث بالکل کافی ہے۔ تشریح ..... اللہ تعالیٰ کی یہاں حضرت حفصہؓ کی قدر و منزلت اور مقبولیت و محبوبیت کا اندازہ کرنے کے لئے یہ حدیث بالکل کافی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب کسی وجہ سے ان کو طلاق دے دی تو اللہ نے نہ صرف حضرت جبرائیل کے ذریعہ آپ ﷺ کو رجعت کرنے کا حکم بھیجا بلکہ حضرت حفصہؓ کی سیرت و کردار کے بارے میں یہ سند اور یہ شہادت بھی عطا فرمائی کہ یہ دن کو کثرت سے روزہ رکھتی ہین اور رات کو اللہ کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر نمازیں پڑھتی ہیں اور یہی نہیں، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ خوشخبری بھی سنائی کہ جنت میں بھی ان کے لئے رسول اللہ ﷺ کی زوجیت کا شرف مقدر ہو چکا ہے۔ یہ بات تحقیقی طور پر نہیں معلوم ہو سکی کہ طلاق کے اس واقعہ کا اصل سبب کیا تھا۔ البتہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ طلاق اور رجعت ان دونوں کے سلسلہ کا یہ واقعہ جو رسول اللہ ﷺ کے گھر میں پیش آیا اسی سے امت کو طلاق اور رجعت کا صحیح اور مسنون طریقہ عملی طور پر معلوم ہوا۔ ہو سکتا ہے کہ اس واقعہ کے پیش آنے کی ایک حکمت اسی طریقہ کی تعلیم ہو ...... اس کے علاوہ یہ بھی اسی واقعہ کی برکت ہے کہ اس کی بدولت اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں حضرت حفصہؓ کی بلندی مقام، اور ان کے وہ خاص اوصاف جو اس کا سبب بنے، اور پھر ان کا جنتی ہونا، یہ سب بھی معلوم ہو گیا۔ ؓ وارضاہا۔ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ؓ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کا نام ہند تھا، بعض مورخین نے رملہ لکھا ہے آپ کے والد کے نام میں بھی اختلاف ہے۔ بعض لوگ حذیفہ بتلاتے ہیں زیادہ مشہور قول سہل یا سہیل بن المغیرہ ہے۔ ان کی کنیت ابو امیہ تھی اور کنیت سے ہی مشہور ہیں مکہ کے معززین میں شمار ہوتا تھا۔ بہت سخی اور صاحب خیر تھے۔ سفر میں جاتے تو تمام شرکاء سفر کا تکفل فرماتے، اسی لئے آپ کا لقب زاد الراکب (اہل قافلہ کی زاد راہ کے ذمہ دار) پڑ گیا تھا۔ حضرت ام سلمہؓ کی پہلی شادی اپنے چچازاد بھائی حضرت عبداللہ بن عبدالاسد المخزومی کے ساتھ ہوئی تھی، یہ رسول اللہ ﷺ کے رضائی (دودھ شریک) بھائی بھی تھے۔ ام سلمہؓ کے ایک بیٹے سلمہ کی وجہ سے ہی ان کی کنیت ام سلمہؓ کے شوہر حضرت عبداللہ کی کنیت ابو سلمہؓ پڑ گئی تھی۔ حضرت ابو سلمہؓ بھی شرفاء مکہ میں شمار ہوتے تھے۔ میاں بیوی دونوں ہی مکہ میں بالکل ابتدائی زمانہ میں اسلام لانے والے اور سابقین اولین میں ہیں۔ اہل مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر یہ دونوں میاں بیوی حبشہ کو ہجرت کر گئے تھے کچھ عرصہ حبشہ میں قیام کے بعد دونوں مکہ تشریف لے آئے۔ لیکن مکہ کے حالات نے اب بھی مکہ میں نہ رہنے دیا اور دونوں اپنے بیٹے سلمہ کو لے کر ہجرت کے ارادہ سے اونٹ پر سوار ہو کر مکہ معظمہ سے مدینہ طیبہ کے لئے نکلے ابھی یہ لوگ مکہ سے نکلے ہی تھے کہ حضرت ام سلمہؓ کے خاندان بنو مغیرہ کے لوگوں کو اس کا علم ہو گیا کہ ابو سلمہؓ خود تو مدینہ جا ہی رہے ہیں ان کے خاندان کی لڑکی، ام سلمہؓ کو بھی اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں ان لوگوں نے حضرت ابو سلمہؓ سے کہا کہ اپنے بارے میں تم بااختیار ہو جہاں چاہو رہو۔ لیکن ہم اپنی بیٹی کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے لئے تمہارے ساتھ ہرگز نہ جانے دیں گے اور وہ حضرت ام سلمہؓ اور ان کے بچے سلمہ کو مکہ واپس لے گئے حضرت ابو سلمہؓ تنہا ہی مدینہ طیبہ روانہ ہو گئے۔ اس واقعہ کی اطلاع جب حضرت ابو سلمہب کے خانداں بنو المخزوم کے لوگوں کو ہوئی کہ ان کے خاندان کے ایک فرد ابو سلمہ کے ساتھ بنو المغیرہ کے لوگوں نے یہ زیادتی کی ہے، تو خاندانی حمیت کی وجہ سے ان لوگوں نے ام سلمہؓ کے کاندان بنو المغیرہ سے سلمہؓ کو جو ابھی بچے ہی تھے یہ کہہ کر لے لیا کہ ام سلمہؓ تو تمہارے خاندان کی ہیں ان کو تم رکھو لیکن سلمہؓ تو ہمارے خاندان کا بچہ ہے۔ اب صورت ھال یہ ہو گئی کہ ابو سلمہؓ تو مدینہ طیبہ تشریف لے گئے، ام سلمہؓ اپنے گھر بنو المغیرہ میں ہیں، اور بچہ سلمہؓ حضرت ابو سلمہؓ کے قبیلہ بنو المخزوم کے قبضہ میں ہے۔ اس مصیبت میں مبتلا حضرت ام سلمہؓ مکہ سے نکل کر دن بھر مقام ابطح میں بیٹھی اپنے شوہر اور بچہ کے غم میں روتی رہتیں۔ ہفتہ عشرہ اسی حال میں گزر گیا، ایک دن ان کے خاندان کے کسی شخص نے ان کو اس طرح روتے دیکھا تو اہل خاندان سے کہا اس بیچاری پر رحم کرو اور اس کو اپنے شوہر کے پاس جانے دو، قبیلہ کے لوگوں کو بھی ان پر ترس آ گیا اور ان کو ان کے شوہر ابو سلمہؓ کے پاس مدینہ طیبہ جانے کی اجازت دے دی گئی۔ جب اس کا علم حضرت ابو سلمہؓ کے قبیلہ کو ہوا تو انہوں نے سلمہؓ کو حضرت ام سلمہؓ کے حوالے کر دیا۔ حضرت ام سلمہؓ اپنے بچہ سلمہ کو لے کر اونٹ پر سوار ہو کر مدینہ کے ارادہ سے تنہا نکل پڑیں۔ ابھی مکہ سے چند میل دور مقام تنعیم تک ہی پہنچیں تھیں کہ عثمان بن طلحہ نامی مکہ کے ایک شخص ملے پوچھا ابو امیہ کی بیٹی کہاں کا ارادہ ہے، ام سلمہؓ نے جواب دیا اپنے شوہر ابو سلمہؓ کے پاس مدینہ جانا ہے، پوچھا کوئی ساتھ ہے ام سلمہؓ نے کہا کہ اس بچہ اور اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں۔ عثمان بن طلحہ نے کہا میں ساتھ ہوں ابو امیہ کی بیٹی تنہا سفر نہیں کرے گی۔ حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں میں نے ان جیسا شریف آدمی نہیں دیکھا۔ راستہ بھر ان کا معمول یہ رہا کہ جب منزل پر اترنے کا وقت آتا تو اونٹ کو بٹھاتے اور خود وہاں سے ہٹ جاتے اور میں اونٹ سے اتر آتی اور جب چلنے کا وقت آتا تو آ کر اونٹ بٹھاتے میں سوار ہو جاتی اور وہ اونٹ کی نکیل پکڑ کر چل دیتے پورا سفر اسی طرح طے ہوا۔ جب یہ لوگ مقام قبا میں (جو اس زمانہ میں مدینہ سے باہر ایک چھوٹی سی آبادی تھی اور اب مدینہ طیبہ ہی کا ایک محلہ ہے) پہنچے تو عثمان بن طلحہ نے حضرت ام سلمہؓ سے کہا کہ تمہارے شوہر یہیں قبا میں ہیں انہوں نے حضرت ام سلمہؓ کو ان کے حوالے کیا اور خود مکہ واپس چلے گئے۔ اکثر مؤرخین اور سیر نگاروں کے نزدیک سب سے پہلے مدینہ ہجرت کرنے والی عورت حضرت ام سلمہؓ ہی ہیں۔ مسلم شریف کی آئندہ ذکر کی جانے والی روایت سے بھی اس قول کی کچھ تائید ہوتی ہے۔ غزوہ احد میں حضرت ابو سلمہؓ نے بڑی بےجگری و جاں بازی اور شوق شہادت میں شرشار ہو کر قتال میں حصہ لیا، اسی موقعہ پر ان کے بہت گہرا زخم لگا تھا جو کچھ دنوں میں ٹھیک ہو گیا۔ اور حضرت ابو سلمہؓ بالکل صحت یاب ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو بنو اسد سے جہاد کرنے والی جماعت کا امیر بنا کر بھیجا۔ اس جنگ میں ان کا پرانا زخم پھر ہرا ہو گیا اور اس میں شدید تکلیف پیدا ہو گئی اور اسی زخم کی وجہ سے ۸؍ جمادی الاخریٰ ۴ھ کو حضرت ابو سلمہؓ کی وفات ہو گئی۔ انتقال کے وقت رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف فرما تھے آپ ﷺ ہی نے اپنے دست مبارک سے ابو سلمہؓ کی آنکھیں بند کیں اور ان کی مغفرت اور رفع درجات کی دعا کی اور یہ بھی عرض کیا کہ اے اللہ ان کی جگہ آپ ہی ان کے پسماندگان کی نگرانی و سرپرستی فرمائیں۔ حضرت ام سلمہؓ کے لئے حالت پردیسی میں شوہر کی وفات بڑا حادثہ تھا۔ وہ اپنے شوہر کو بےمثال شوہر سمجھتی تھیں اور ان کے بعد ان سے بہتر یا ان جیسے شوہر کے ملنے کی امید نہ تھی۔ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کے باوجود مجھے ابو سلمہؓ کا متبادل نظر نہ آتا تھا کہ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ تُصِيبُهُ مُصِيبَةٌ فَيَقُولُ مَا أَمَرَهُ اللَّهُ: {إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ}، اللَّهُمَّ أَجِرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَأَخْلُفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا، إِلَّا أَخْلَفَ اللَّهُ لَهُ خَيْرًا مِنْهَا " قَالَتْ: فَلَمَّا مَاتَ أَبُو سَلَمَةَ قُلْتُ: أَيُّ الْمُسْلِمِينَ خَيْرٌ مِنْ أَبِي سَلَمَةَ؟ أَوَّلُ بَيْتٍ هَاجَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ إِنِّي قُلْتُهَا فَأَخْلَفَ اللَّهُ لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ترجمہ: جس صاحب ایمان پر کوئی مصیبت آئے (اور کوئی چیز فوت ہو جائے) اور وہ اس وقت اللہ تعالیٰ سے وہ عرض کرے جو عرض کرنے کا حکم ہے۔ یعنی إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللَّهُمَّ أَجِرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَأَخْلُفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا (ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہم سب لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اے اللہ مجھے میری اس مصیبت میں اجر عطا فرما اور (جو چیز مجھ سے لے لی گئی ہے) اس کے بجائے اس سے بہتر مجھے عطا فرما) تو اللہ تعالیٰ اس چیز کے بجائے اس سے بہتر ضرور عطا فرمائے گا (ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ) جب میرے پہلے شوہر ابو سلمہ کا انتقال ہوا تو میں نے اپنے جی میں سوچا کہ میرے شوہر مرحوم ابو سلمہؓ سے اچھا کون ہو سکتا ہے۔ وہ سب سے پہلے مسلمان تھے جنہوں نے گھر بار کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی طرف ہجرت کی (لیکن رسول اللہ ﷺ کی تعلیم کے مطابق) میں نے ان کی وفات کے بعد إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہا اور دعا کی اللَّهُمَّ أَجِرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَأَخْلُفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ابو سلمہؓ کی جگہ رسول اللہ ﷺ مجھے نصیب فرمایا۔ حضرت ام سلمہ ؓ کی یہ روایت مسلم شریف کے حوالے سے معارف الحدیث جلد سوم میں گزر چکی ہے یہاں بھی اصل روایت اور اس کا ترجمہ وہیں سے نقل کیا گیا ہے صحیح مسلم کے علاوہ حدیث کی دوسری کتابوں میں بھی اس واقعہ کے ساتھ یہ دعا الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ روایت کی گئی ہے، ابن سعد نے طبقات میں ام سلمہؓ کے واسطہ سے یہ واقعہ بھی نقل کیا ہے کہ ایک دن میں نے اپنے شوہر ابو سلمہؓ سے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ اگر کوئی شہر مر جائے اور بیوہ دوسری شادی نہ کرے اور دونوں جنت میں جائیں تو اللہ تعالیٰ جنت میں بھی ان کا رشتہ برقرار رکھتا ہے۔ اسی طرح اگر بیوی مر جائے اور شوہر دوسری شادی نہ کرے تو بھی دنیا کا یہ رشتہ جنت میں باقی رکھا جاتا ہے۔ آئیے ہم دونوں عہد کریں کہ ہم دونوں میں سے جو پہلے مر جائے دوسری شادی نہیں کرے گا۔ حضرت ابو سلمہؓنے یہ سن کر کہا کیا تم مجھ سے عہد کرنے کو تیار ہو، میں نے کہا بالکل اس پر حضرت ابو سلمہؓ نے فرمایا کہ اگر میرا انتقال پہلے ہو جائے تو تم شادی کر لینا اور اس کے بعد یہ دعا بھی کی کہ اے اللہ میرے بعد ام سلمہؓ کو مجھ سے بہتر شوہر عطا فرما جو ان کے لئے نہ باعث غم ہو نہ باعث تکلیف۔ ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ ان کے انتقال کے بعد میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ان سے بہتر کون ہو سکتا تھا یہاں تک کہ آپ ﷺ کا پیغام آیا۔ ابو سلمہؓ کے انتقال اور ام سلمہؓ کی عدت گذر جانے کے بعد حضرت ابو بکرؓ و حضرت عمرؓ نے اور ام سلمہؓ کو شادی کا پیغام دیا تھا لیکن ام سلمہؓ نے شادی سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن جب حضرت عمرؓ رسول اللہ ﷺ کا پیغام لے کر آئے تو انہوں نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پیغام کو قبول کرنے میں مجھے تین (۳) عذر ہیں نمبر ۱ میں بہت غیرت مند ہوں۔ نمبر ۲ میرے کئی بچے ہیں۔ نمبر ۳ میری عمر بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ مطلب یہ تھا کہ ان وجوہات سے رسول اللہ ﷺ کے حقوق کی ادائیگی میں کہیں کوتاہی نہ ہو جائے۔ بعض روایات میں یہ عذر بھی مذکور ہے کہ میرا کوئی ولی مدینہ میں نہیں ہے۔ جب حضرت عمرؓ نے ام سلمہؓ کے یہ اعذار آپ ﷺ کو پہنچائے تو آپ ﷺ نے فرمایا جہاں تک ان کی حد سے بڑھی ہوئی غیر کا معاملہ ہے تو میں دعا کروں گا اللہ تعالیٰ اسے دور فرما دے گا اور رہا بچوں کا سوال تو وہ اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ ہیں اور رہا ان کی درازی عمر کا مسئلہ تو میری عمر ان سے زیادہ ہے۔ اور ان کا کوئی بھی ولی اس رشتہ کو ناپسند نہیں کرے گا۔ رسول اللہ ﷺ ...... کی یہ ہدایات جب ام سلمہؓ کو پہنچیں تو وہ فوراً رشرہ کے لئے تیار ہو گئیں اور شوال ۴ھ میں حضرت ام سلمہؓ حرم نبوی میں داخل ہو گئیں۔ اولاد حضرت ام سلمہؓ کے اپنے پہلے شوہر سے دو لڑکے سلمہ اور عمر تھے اور دو لڑکیاں درہ اور برہ تھیں بعد میں آپ ﷺ نے بردہ کا نام بدل کر زینب رکھ دیا تھا۔ فضائل ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کے فضائل میں صحیح بخاری و صحیح مسلم میں یہ روایت ذکر کی گئی ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حضرت جبرائیلؑ آئے اور حضرت ام سلمہب آپ کی قریب بیٹھی ہوئی تھیں۔ جب جبرائیلؑ چلے گئے تو آپ ﷺ نے حضرت ام سلمہؓ سے سوال کیا کہ یہ کون تھے؟ حضرت ام سلمہؓ نے عرج کیا کہ یہ دحیہ کلبیؓ تھے (اس لئے کہ حضرت جبرائیل دحیہ کلبیؓ ہی کی شکل میں آئے تھے) اس کے بعد آپ نے مسجد تشریف لے جا کر حضرت جبرائیل کی تشریف آوری کا ذکر کیا تو حضرت ام سلمہؓ سمجھیں کہ وہ حضرت جبرائیلؑ ہی تھے۔ ازواج مطہرات کے سلسلہ میں سورہ احزاب کی آیت " إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا " حضرت ام سلمہؓ ہی کے مکان میں نازل ہوئی۔ اس کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہؓ اور حضرات حسنینؓ کو بلا کر اپنی چادر میں لپیٹ لیا اور حضرت علیؓ آپ کی پشت کے پیچھے بیٹھ گئے پھر آپ نے یہ دعا کی "اللهم هوءلاء اهل بيتى فطهرهم تطهيرا" اے اللہ یہ لوگ بھی میرے اہل بیت ہیں ان کو بھی پاک و صاف فرما دیجئے۔ یہ سن کر حضرت ام سلمہؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی میں بھی تو ان کے ساتھ ہوں آپ نے فرمایا انت علی مکانک وانت علی خیر یعنی تم تو اہل بیت میں ہو ہی اور تم خیر پر بھی ہو۔ حضرت ام سلمہؓ نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ عورتوں کا ذکر قرآن مجید میں کیوں نہیں ہے ان کی اس طلب اور خواہش پر آیت کریمہ " إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ...... الخ" نازل ہوئی۔ اور آپ ﷺ نے منبر پر کھڑے ہو کر اس آیت کو صحابہ کرامؓ کو سنایا۔ حضرت ام سلمہب بہت ذہین اور فہیم تھیں اللہ نے تفقہ فی الدین سے بھی خوب نوازا تھا صلح حدیبیہ کے موقع پر جب یہ طے ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ اس سال تو واپس چلے جائیں اور آئندہ سال عمرہ کے لئے آنا چاہیں تو آ سکتے ہیں۔ آپ ﷺ اور صحابہ کرامؓ سب عمرہ کا احرام باندھے ہوئے تھے واپسی کے لئے احرام سے نکلنا اور اپنی ہدی کے جانوروں کو ذبح کرنا ضروری تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو احرام سے نکلنے یعنی اپنی ہدی کے جانوروں کو ذبح کرنے اور سر منڈوانے کا حکم دے دیا یہ کام صحابہ کرامؓ کے لئے بڑا شاق اور گراں تھا ان کے دل کسی طرھ عمرہ کئے بغیر احرام کھولنے کے لئے آمادہ نہ ہوتے تھے۔ آپ نے اپنے خیمہ میں آ کر صحابہ کرامؓ کی اس حالت اور اس پر اپنی ناگواری کا اظہار ام سلمہؓ سے کیا حضرت ام سلمہب نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول (ﷺ) آپ خیمے سے باہر تشریف لے جائیں اور اپنی ہدی کا جانور ذبح کر کے اور بال منڈوا کر احرام سے نکل جائیں۔ آپ نے باہر آ کرایسا ہی کیا صحابہ کرامؓ نے جب آپ ﷺ کا یہ عمل دیکھا تو سب نے اپنے جانور ذبح کئے بال منڈوائے اور احرام کھول دئیے۔ حضرت ام سلمہؓ کو احادیث رسول بکثرت یاد تھیں۔ حضرت عائشہؓ حضرت ابن عباسؓ اور بہت سے صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ نے آپؓ سے احادیث روایت کی ہیں۔ محدثین نے آپ کی روایت کردہ احادیث کی تعداد ۳۷۸ بتلائی ہے۔ لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کے طرز پر قرآن مجید پڑھنے کی ترغیب دیتی تھیں اور بتلاتی تھیں کہ آپ ﷺ رک رک کر قرآن مجید پڑھتے تھے۔ اور مثال کے طور پر کہتیں کہ آپ الحمدللہ رب العالمین پڑھتے اور وقف فرماتے پھر الرحمٰن الرحیم پڑھتے اور وقف فرماتے۔ ام سلمہب یہ بھی ذکر کرتی تھیں کہ آپ ﷺ مالک یوم الدین کی جگہ، ملک یوم الدین پڑھتے تھے۔ ترمذی ۲ ص ۱۱۶ روایات احکام کے علاوہ قراۃ قرآن کی کیفیت اور قرآن کی تفسیر کے سلسلہ کی متعدد روایات حضرت ام سلمہؓ کے واسطہ سے کتب حدیث میں مروی ہیں۔ آپ کے سن وفات میں اختلاف ہے راجح قول یہ ہے کہ آپ نے ۵۹ھ میں وفات پائی اور حضرت ابو ہریرہؓ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش ؓ ام المومنین حضرت زینب ؓ کا نام پہلے برہ تھا رسول اللہ ﷺ نے بدل کر زینب رکھ دیا۔ برہ کے معنی نیک اور فیاض کے ہیں۔ ام المومنین حضرت زینب کے علاوہ بعض۔۔۔۔۔ جن کا نام برہ تھا ان کا نام آپ ﷺ نے بدل دیا اور فرمایا لا تزكوا انفسكم الله اعلم باهل البر منكم (1) یعنی خود اپنے آپ کو نیک اور سخی نہ کہو اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں کون نیک اور سخی ہے۔ آپ کے والد جحش بن رئاب کا تعلق قبیلہ بنی اسد سے تھا اور والدہ امیمہ بنت عبدالمطلب رسول اللہ ﷺ کی حقیقی پھوپھی تھیں۔ یعنی حضرت زینب ؓ آپ کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ حضرت زینب شروع ہی میں ایمان لانے والے لوگوں میں تھیں كانت قديمة الاسلام وقال الزهرى زينب من المهاجرات الاول (2) یعنی آپ قدیم الاسلام تھیں اور امام زہریؒ فرماتے ہیں کہ زینب بالکل اولین دور میں ہجرت کرنے والوں میں تھیں۔ پہلا نکاح پھوپھی زاد بہن ہونے اور نو عمری میں ہی اسلام لے آنے کے وجہ سے حضرت زینبؓ رسول اللہ ﷺ کی تربیت ہی میں رہیں اس لئے آپ ﷺ نے ان کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہؓ سے کر دیا تھا۔ حضرت زیدؓ بچپن ہی سے آپ ﷺ کی زیر تربیت رہے تھے اس لئے علم و دین میں ممتاز تھے پھر آپ ﷺ نے ان کو اپنا متبنیٰ (منہ بولا بیٹا) بھی بنا لیا۔ اور آپ ﷺ کو ان سے اولاد کا سا تعلق بھی تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود بہرحال وہ ایک آزاد کردہ غلام اور حضرت زینبؓ قبیلہ قریش کے سردار عبدالمطلب کی نواسی اور اپنے باپ کی طرف سے بھی ایک بڑے گھر کی بیٹی تھیں اس لئے شروع میں حضرت زینبؓ اور ان کی بھائی عبداللہ بن جحش نے اس رشتہ کو نامنظور کر دیا تھا۔ طبرانی نے بسند صحیح یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت زیدؓ کا پیغام خود رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینبؓ کو دیا تھا اور حضرت زینبؓ نے یہ کہہ کر کہ میں نسباً ان سے بہتر ہوں اس پیغام کو رد کر دیا تھا۔ اس پر آیت کریمہ نازل ہوئی۔ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا (سورة احزاب آيت نمبر 36) ترجمہ: کسی صاحب ایمان مرد اور عورت کے لئے اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول کسی بات کا (قطعی) حکم دے دیں تب بھی وہ اس کام کے بارے میں بااختیار رہیں۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول کے وجوبی حکم دینے کے بعد کسی بھی مومن یا مومنہ کو اپنے دنیوی اور ذاتی معاملہ میں بھی کوئی حق اور اختیار باقی نہیں رہتا۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت زینبؓ اور ان کے بھائی عبداللہ بن جحشؓ نے اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا اور آپ ﷺ نے حضرت زیدؓ کا نکاح حضرت زینبؓ سے کر دیا اور اپنے پاس سے ان کا مہر دس دینار (تقریباً ۴ تولہ سونا) اور ساٹھ درہم (تقریباً ۱۸۔ تولہ چاندی) اور ایک باربرداری کا جانور ایک زنانہ جوڑا اور پچاس مد آٹا (تقریباً ۲۵ سیر) اور دس مد کھجور (تقریباً پانچ (1) سیر ادا کیا۔) حضرت زینبؓ نے اس رشتہ کو اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے حکم کی وجہ سے قبول کر لیا تھا اور اپنی طبیعت کو بھی اس پر راضی کر لیا تھا۔ لیکن مدینہ کے منافقین نے جو رسول اللہ ﷺ کی ایذا رسانی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے اس کو لے کر ایک فتنہ کھڑا کر دیا کہ لیجئے محمد ﷺ نے ایک شریف خاندان کی عورت کا نکاح ایک غلام سے کر دیا۔ خصوصاً منافقین کی عورتوں نے اس فتنہ انگیزی میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور حضڑت زینبؓ جو دل سے اس رشتہ کو قبول کر چکی تھیں ان کو ورغلانے کی پوری پوری کوششیں کیں۔ حضرت زینبؓ کے دل پر ان باتوں کا اثر ہوا ان کی مزاج میں کچھ تیزی اور احساس برتری تو تھا ہی منافقین کے اس فتنہ نے حضرت زینبؓ اور حضرت زیدؓ کے درمیان کچھ دوری پیدا کر دی۔ ادھر حضرت زیدؓ کو حضرت زینبؓ کا احساس تفوق و برتری اپنی حساس اور غیرت مند طبیعت پر بار محسوس ہونے لگا جس کی وجہ سے انہوں نے اس رشتہ کو ختم کرنے کا ارادہ کر لیا اور رسول اللہ ﷺ سے اس کی اجازت چاہی آپ نے حضرت زیدؓ سے سوال کیا کہ کیا زینب کی طرف سے تمہیں کچھ شک ہے عرض کیا کوئی شک کی بات تو نہیں البتہ زینبؓ کو اپنے خاندانی شرف کا احساس ہے اور وہ اس کا اظہار بھی کر دیتی ہیں۔ پھر ممکن ہے وہ یہ بھی سمجھتے ہوں کہ زینبؓ کی خواہش بھی رشتہ کو ختم کر دینے ہی کی ہے اس طرح اس رشتہ کے ختم ہونے سے دونوں کو راحت مل جائے گی۔ حضرت زیدؓ کی درخواست کو آپ ﷺ نے منظور نہیں فرمایا اور رشتہ کو باقی رکھنے ہی کا حکم دیا۔ لیکن یہ رشتہ زیادہ دنوں باقی نہ رہ سکا۔ حضرت زیدؓ رشتہ کو ختم کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اور دوبارہ رسول اللہ ﷺ سے اپنے اس ارادہ کا اظہار کیا کہ اب میں رشتہ باقی نہ رکھ سکوں گا۔ آپ نے اب بھی حضرت زیدؓ کو صبر و تحمل کی تلقین فرمائی اور رشتہ کو باقی رکھنے کو فرمایا جس کا ذکر قرآن مجید میں ان الفاظ میں ہے أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّـهَ یعنی اپنی بیوی کے نکاح کو باقی رکھو اور خدا سے ڈرو۔ لیکن حضرت زیدؓ کی حالت حد اضطرار کو پہنچ گئی تھی اور صورت ھال ایسی ہو گئی تھی کہ اب نکاح کو باقی رکھنا شرعاً درست نہ تھا اس لئے چار و ناچار آپ ﷺ نے حضرت زیدؓ کو طلاق دینے کی اجازت دے دی اور پھر حضرت زیدؓ نے طلاق دے بھی دی اور صرف ایک سال ہی میں یہ رشتہ ختم ہو گیا۔ چونکہ یہ رشتہ آپ نے اسلامی مساوات کے اظہار کے لئے کرایا تھا۔ پھر اس رشتہ کی وجہ سے حضرت زینبؓ کو منافقین کی طرف سے آزاد کردہ غلام کی بیوی کا طعنہ سننا پڑا تھا اور اب طلاق ہو جانے کے بعد یہ بھی طعنہ سننا پڑ گیا کہ لو غلام نے بھی طلاق دے دی۔ اس لئے آپ ﷺ کو اس حادثہ سے بہت رنج ہوا۔ پھر حضرت زینبؓ پر بھی اس حادثہ کا کافی اثر تھا اس کی تلافی اور حضرت زینبؓ کی دلداری کی شکل صرف یہی تھی کہ آپ ﷺ حضرت زینبؓ سے نکاھ فرما لیں لیکن منافقین کی طرف سے اندیشہ تھا کہ وہ اس نکاح کو ایک دوسرے فتنہ کا ذریعہ بنا دیں گے اور کہیں گے کہ محمد ﷺ نے اپنے متبنیٰ کی مطلقہ سے شادی کر لی۔ جاہلیت کے رسم و رواج میں اس کی بالکل گنجائش نہیں تھی اس لئے فتنہ کا کافی اندیشہ تھا۔ ادھر طبیعت پر طلاق کے حادثہ کا اثر اور ادھر اس کی مناسب تلافی کی صورت میں فتنہ کا اندیشہ اس لئے طبیعت بہت پریشان تھی اور آپ ﷺ اپنی بات زبان پر لاتے ڈرتے تھے اسی پریشانی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّـهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّـهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ میں فرمایا ہے۔ یعنی تم اپنے دل میں وہ بات چھپا رہے تھے جس کو اللہ ظاہر کرنے والا ہے اور تم لوگوں (منافقوں) سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ زیادہ مستحق ہے اس بات کا کہ اس سے ڈرا جائے۔ اس آیت میں گویا اس بات کی اجازت بلکہ حکم تھا کہ حضرت زینبؓ سے نکاح کر لیا جائے۔ حضرت زینبؓ کی عدت ختم ہو چکی تھی اور اب یہ آیت بھی نازل ہو گئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینبؓ کے پاس اپنے نکاح کا پیغام لے کر حضرت زیدؓ ہی کو بھیجا جب حضرت زید نے جا کر حضرت زینبؓ کو رسول اللہ ﷺ کا پیغام پہنچایا، تو حضرت زینبؓ نے کہا ما انا بصانعة شيئا حتى او امر ربى فقامت الى مسجدها کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے میں اپنے اللہ سے استخارہ ضرور کروں گی یہ کہہ کر اپنے مصلے پر کھڑی ہو گئیں یعنی نماز شروع کر دی۔ ادھر حضرت زیدؓ نے آ کر آپ ﷺ کو حضرت زینبؓ کا جواب بتلایا ادھر یہ آیت کریمہ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا (2) نازل ہو گئی۔ (ترجمہ: پس جب زید نے زینب سے اپنارشتہ منقطع کر لیا (اور عدت بھی گذر گئی) تو ہم نے ان کا نکاح تم سے کر دیا تا کہ اہل ایمان کے لئے اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (سے نکاح کرنے) میں کوئی حرج اور تنگی باقی نہ رہے بشرطیکہ وہ لوگ اپنی بیویوں سے اپنا رشتہ ختم کر لیں۔ اکثر مفسرین کے نزدیک حضرت زینب کا نکاح آسمان پر ہی ہوا دنیا میں نہیں اور آیت کریمہ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا کے واضح اور متبادر معنی بھی یہی ہیں۔ علاوہ ازیں صحیح روایات سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے زمین پر نکاح نہیں کیا۔ صحیح مسلم کی جو روایت ابھی ہم نے ذکر کی ہے اس میں بھی فقامت الى مسجدها کے بعد فنزل القرآن وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فدخل عليها بغير اذن (3) کے الفاظ ہیں۔ یعنی ان آیات کے نزول کے بعد آپ ﷺ بلااجازت لئے حضرت زینبؓ کے پاس تشریف لے گئے علاوہ ازیں حضرت زینبؓ خود اس بات پر فخر کرتی تھیں کہ میرا نکاح میرے اللہ نے کیا جب کہ دیگر ازواج مطہرات کا نکاح ان کے اولیاء یا اہل خاندان نے کیا ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کے الفاظ ہیں وَكَانَتْ تَفْخَرُ عَلَى أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقُولُ: زَوَّجَكُنَّ أَهْلُوكُنَّ وَزَوَّجَنِي الله مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَوَاتٍ (1) یعنی زینبؓ دیگر ازواج مطہرات کے مقابلہ میں بطور فخر کہا کرتی تھیں تمہارا نکاح تمہارے اہل خاندان نے کیا اور میرا نکاح اللہ نے سات آسمانوں کے اوپر سے کیا۔ صحیح بخاری میں اس مذکورہ روایت کی بعد اس معنی کی ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں وَكَانَتْ تَفْخَرُ عَلَى نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ تَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ أَنْكَحَنِي فِي السَّمَاءِ صحیح بخاری کے علاوہ اس مضمون کی روایات حدیث کی بعض دوسری کتابوں میں بھی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زینبؓ کا نکاح دنیا میں نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ نے آسمان پر ہی کر دیا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے اسے ہی کافی سمجھا۔ (2) لیکن سیرت ابن ہشام میں یہ مذکور ہے کہ آپ ﷺ نے ان آیات کے نزول کے بعد حضرت زینبؓ سے نکاح کیا اور چار سو درہم مہر مقرر فرمایا۔ تہذیب سیرت ابن ہشام میں اس واقعہ کو ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے۔ وتزوج رسول الله صلى الله عليه وسلم زينب بنت جحش بن رئاب الاسديه زوجه اياها اخوها ابو احمد بن جحش واصدقها رسول الله صلى الله عليه وسلم اربع مائة درهم (3) لیکن عام مفسرین اور محدثین کے نزدیک روایات کی کثرت اور اصحیت کی بنیاد پر پہلا قول ہی راجح ہے۔ مشہور مفسر ابن کثیرؒ آیت کریمہ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا کی تفسیر میں لکھتے ہیں وكان الذى ولى تَزْوِيجِهَا مِنْهُ هو الله عز وجل بمعنى انه اوحى اليه ان يدخل عليها بلا ولى ولا عقد ولا مهر ولا شهود من البشر. (4) جس کا حاصل یہی ہے کہ دنیا میں نہ نکاح ہوا نہ گواہی اور نہ مہر ہی متعین ہوا۔ اسی طرح علامہ شوکانیؒ نے بھی مذکورہ آیت کی تفسیر میں تحریر فرمایا ہے۔ فَلَمَّا أَعْلَمَهُ اللَّهُ بِذَلِكَ دَخَلَ عَلَيْهَا بِغَيْرِ إِذْنٍ، وَلَا عَقْدٍ، وَلَا تَقْدِيرِ صَدَاقٍ، وَلَا شَيْءٍ مِمَّا هُوَ مُعْتَبَرٌ فِي النِّكَاحِ فِي حَقِّ أُمَّتِهِ. وَقِيلَ: الْمُرَادُ بِهِ: الْأَمْرُ لَهُ بِأَنْ يَتَزَوَّجَهَا. وَالْأَوَّلُ أَوْلَى، وَبِهِ جَاءَتِ الْأَخْبَارُ الصَّحِيحَةُ اس کا حاصل بھی یہی ہے جو تفسیر ابن کثیر کی عبارت کا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا نکاح آسمان پر ہی کر دیا تھا جس کی وجہ سے دنیا میں ایجاب و قبول اور تعیین مہر اور دیگر متعلقات نکاح کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اس کے بعد علامہ شوکانیؒ فرماتے ہیں کہ دوسرا قول اس بارے میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو حضرت زینبؓ سے نکاح کرنے کا حکم دیا لیکن اول قول راجح اور احادیث صحیح سے ثابت ہے۔ حضرت زینبؓ کے نکاح کے سال کے بارے میں کئی قول ہیں لیکن زیادہ راجح قول یہ ہے کہ آپ کا نکاح ذیقعدہ ۴ھ میں ہوا۔ حضرت زینبؓ کے اس پورے واقعہ میں بہت سی دینی حکمتیں ہیں اس میں اسلامی مساوات کا بھی اظہار ہے کہ نکاح میں کفارہ کے معتبر ہونے کے باوجود اگر بعض دینی مصالح متقاضی ہوں تو ایک بڑے خاندان کی لڑکی کا نکاح ایک آزاد کردہ غلام سے بھی کرایا جا سکتا ہے پھر اس واقعہ سے متعلق آیات میں یہ بھی مذکور ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے قطعی حکم کے بعد کسی صاحب ایمان مرد و عورت کو اپنے بارے میں اس حکم کے خلاف کسی بھی قسم کا کوئی اختیار نہیں رہتا۔ نیز ان آیات سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ دینی کاموں کو عوام الناس کے شور و غوغا اور اعتراضات کی وجہ سے نہیں چھوڑا جا سکتا، جاہلی رسم و رواج کو ختم کرنے اور غلط عقائد کی اصلاح کے لئے یہ سب تو سننا اور برداشت کرنا ہی پڑتا ہے۔ دنیا میں ایجاب و قبول کے بجائے آسمان پر ہی نکاح کر دینے میں حضرت زینبؓ کو اعزاز بخشا ہے کہ ان کے نکاح کا متولی اللہ تعالیٰ ہے واقعہ حضرت زینبؓ کی قربانی کا یہی صلہ ہونا چاہئے تھا۔ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے امتثال امر میں بڑی قربانی دی ہے۔ ولیمہ حضرت زینبؓ کے نکاح کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ایسا شاندار لیمہ کیا کہ ایسا ولیمہ کسی بھی زوجہ مطہرہ کے نکاح کے بعد نہیں کیا گھا۔ صحیح بخاری میں حضرت انسؓ کی روایت ہے فرماتے ہیں کہ «مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْلَمَ عَلَى أَحَدٍ مِنْ نِسَائِهِ مَا أَوْلَمَ عَلَيْهَا، أَوْلَمَ بِشَاةٍ» (1) یعنی میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ نے اپنی کسی بھی زوجہ مطہرہ کا اتنا شاندار ولیمہ کیا ہو جتنا حضرت زینبؓ کا ولیمہ کیا آپ ﷺ نے حضرت زینبؓ کے ولیمہ میں بکری ذبح کی تھی۔ پھر اس ولیمہ میں حضرت انسؓ کی والدہ ام سلیم ؓ نے حیس (مالید یا اسی طرح کا کوئی کھانا) بھی بھیجا تھا۔ اس ولیمہ کے موقع پر آپ ﷺ نے حضرت انسؓ سے کچھ صحابہ کرامؓ کے نام لے کر فرمایا کہ جاؤ فلاں فلاں کو بلا لاؤ اور جو بھی تمہیں ملے اس کو بھی بلا لانا حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کے بتائے ہوئے صحابہ کرامؓ کو اور جو جو بھی مجھے ملے سب کو بلا لایا حضرت انسؓ کے شاگرد جعد نے پوچھا کہ کل کتنے لوگ ولیمہ میں آ گئے تھے حضرت انسؓ نے فرمایا کہ تقریباً تین سو ۳۰۰۔ کھانا ایک طشت میں کر دیا گیا اور حاضرین صحابہ کرامؓ کو آپ نے دس دس کی جماعت کر کے بلانا شروع کیا، لوگ آتے رہے اور کھا کر جاتے رہے یہاں تک کہ سب لوگ کھانے سے فارغ ہو گئے۔ جب کھانے کے لئے کوئی نہیں بچا تو رسول اللہ ﷺ نے طشت اٹھانے کو فرمایا حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں فیصلہ نہیں کر سکتا کہ لوگوں کے کھانے سے پہلے طشت میں کھانا زیادہ تھا یا فارغ ہونے کے بعد (1) اسی ولیمہ کی موقع پر آیت حجاب۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَـٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ ۖ وَاللَّـهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ترجمہ: اے ایمان والوں! نبی کے گھروں میں نہ داخل ہو مگر یہ کہ تم کو کسی کھانے پر آنے کی اجازت دی جائے۔ نہ انتظار کرتے ہوئے کھانے کی تیاری کا۔ ہاں جب تم کو بلایا جائے تو داخل ہو پھر جب کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ اور باتوں میں لگے ہوئے بیٹھے نہ رہو۔ یہ باتیں نبی کے لئے باعث اذیت تھیں لیکن وہ تمہارا لحاظ کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ حق کے اظہار میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا اور جب تم ازواج نبی سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔ (2) اس آیت کے نزول کی کچھ تفصیل مسلم کی روایت کے مطابق یہ ہے کہ دعوت ولیمہ کے ختم ہو جانے کے بعد بھی بعض صحابہ کرامؓ آپ ﷺ کے مکان میں جہاں حضرت زینبؓ بھی دیوار کی طرف منہ کئے بیٹھی تھیں اس طرح محو گفتگو تھے کہ ان کو اس کا خیال ہی نہیں رہا کہ اب ان کو یہاں سے اٹھ جانا چاہئے رسول اللہ ﷺ مروت اور حیاء کی وجہ سے کچھ کہہ تو نہ سکے لیکن ان کو اٹھانے کے لئے خود گھر سے باہر تشریف لے گئے تھوڑی دیر کے بعد جب واپس آئے تب بھی وہ لوگ بیٹھے تھے۔ آپ ﷺ دوبارہ تشریف لے گئے کچھ دیر کے بعد جب تشریف لائے تو ان صحابہ کرامؓ کو توجہ ہو گئی اور وہ اٹھ کر چلے گئے۔ آپ ﷺ نے دروازہ پر پردہ لٹکا دیا۔ اس کے بعد ہی مذکورہ آیت حجاب نازل ہوئی۔ اس آیت مین چند احکامات ہیں اول یہ کہ بلا بلائے آپ کے گھروں میں نہ آئیں۔ دوم یہ کہ بلانے پر بھی قبل از وقت آ کر نہ بیٹھ جائیں اور نہ کھانے کے بعد بیٹھ کر گفتگو میں مشغول ہوں سوم یہ کہ ازواج مطہرات سے بھی کوئی چیز مانگنی ہو تو پردہ کے پیچھے سے ہی مانگیں۔ اس آیت کے بعد کی آیتیں بھی رسول اللہ ﷺ اور ازواج مطہرات ہی سے متعلق احکامات کی ہیں۔ فضائل ام المومنین حضرت زینبؓ کے بےشمار فضائل ہیں۔ ان کا نکاح اللہ تعالیٰ نے خود کیا جس پر وہ دیگر ازواج مطہرات کے مقابلہ میں فخر و مباہات فرماتی تھیں۔ وہ خاندانی رشتہ میں بھی رسول اللہ ﷺ کی دیگر ازواج مطہرات کے مقابلہ میں قریب ترین تھیں۔ سورہ احزاب کی متعدد آیتوں کے نزول کا تعلق ان کی ذات سے ہے۔ بہت متقی پرہیز گار ااور اللہ سے ڈرنے والی اور اللہ کی راستہ میں مال خرچ کرنے والی تھیں۔ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ زینبؓ بہت صالحہ، کثرت سے روزہ رکھنے والی اور شب بیداسر تھیں۔ (1) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی بہت مداح ہیں صحیح مسلم کی ایک روایت میں ان کا بیان پڑھئے۔ قَالَتْ عَائِشَةُ: وَهِيَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي مِنْهُنَّ فِي الْمَنْزِلَةِ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ أَرَ امْرَأَةً قَطُّ خَيْرًا فِي الدِّينِ مِنْ زَيْنَبَ. وَأَتْقَى لِلَّهِ وَأَصْدَقَ حَدِيثًا، وَأَوْصَلَ لِلرَّحِمِ، وَأَعْظَمَ صَدَقَةً، وَأَشَدَّ ابْتِذَالًا لِنَفْسِهَا فِي الْعَمَلِ الَّذِي تَصَدَّقُ بِهِ، وَتَقَرَّبُ بِهِ إِلَى اللهِ تَعَالَى، مَا عَدَا سَوْرَةً مِنْ حِدَّةٍ كَانَتْ فِيهَا، تُسْرِعُ مِنْهَا الْفَيْئَةَ. (2) ترجمہ: حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ تمام ازواج مطہرات میں صرف حضرت زینبؓ ہی بارگاہ نبوی میں میرے ہم پلہ تھیں اور میں نے زینب سے زیادہ دیندار، متقی و پرہیزگار، سچ بولنے والی صلہ رحمی کرنے والی، صدقہ کرنے والی اور اپنی جان کو نیکی اور تقرب الی اللہ کے کاموں میں زیادہ کھپانے والی کوئی عورت نہیں دیکھی۔ ہاں مزاج میں ذرا سی تیزی تھی جس پر وہ جلد ہی قابو پا لیتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ کے ان بلند کلمات کی وقعت اور عظمت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب یہ بھی معلوم ہو جائے کہ یہ کلمات ایک ایسی طویل حدیث میں ہیں جس مین حضرت عائشہؓ یہ ذکر کر رہی ہیں کہ حضرت زینبؓ ازواج مطہرات کی نمائندہ بن کر رسول اللہ ﷺ سے میری کچھ شکایات کرنے کے لئے آئی تھی۔ انہیں حضرت عائشہؓ کا قول حافظ شمس الدین ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں نقل کیا ہے فرماتی ہیں۔ يرحم الله زينب لقد نالت فى الدنيا الشرف الذى لا يبلغه الشرف. ان الله زوجها ونطق به القران وان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لنا اسرعكن لحوقا اطولكن باعا فبشرها بسرعة لحوقها به وهى زوجته فى الجنة. (3) ترجمہ: اللہ تعالیٰ زینب پر رحم فرمائے انہوں نے دنیا ہی مین وہ شرف و کمال حاصل کر لیا جس کا مقابلہ کوئی شرف و کمال نہیں کر سکتا اللہ تعالیٰ نے خود ان کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے فرمایا اور قرآن مجید میں اس کا ذکر بھی فرمایا۔ نیز رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں یہ خوشخبری دی کہ ازواج مطہرات میں میری وفات کے بعد سب سے پہلے میرے پاس آنے والی میری وہ بیوی ہوں گی جو سب سے زیادہ لمبے ہاتھوں والی (یعنی کار خیر میں بہت خرچ کرنے والی) ہوں گی اور وہ جنت میں بھی رسول اللہ ﷺ کی بیوی ہیں۔ حضرت زینبؓ اگرچہ کوتاہ قامت تھیں اور اسی حساب سے ان کے ہاتھ بھی دیگر ازواج مطہرات کے مقابلہ میں چھوٹ ہی ہوں گے لیکن چونکہ بہت فیاض اور سخی تھیں اور عربی میں اطولكن يدًا یا اطولكن باعًا بطور مجاز سخی و فیاض کے معنی میں بولا جاتا ہے اس لئے آپ ﷺ نے ان کے لئے اطولكن باعًا یا اطولكن يدًا کے الفاظ استعمال فرمائے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ہم ازواج النبی ﷺ اپنے ہاتھ ناپا کرتی تھیں اور آپ ﷺ کے فرمان اطولكن باعًا کا ظاہری مطلب ہی لیتی تھیں لیکن جب آپ کی وفات کے بعد حضرت زینبؓ ہم سب سے پہلے آپ ﷺ سے جا ملیں تو پتہ چلا کہ آپ ﷺ کے فرمان اطولكن باعًا کا مطلب سب سے زیادہ سخی اور فیاض ہے۔ اور واقعی زینبؓ ہم سب میں سب سے زیادہ سخی اور فیاض تھیں۔ حضرت عائشہؓ یہ بھی فرماتی ہیں كانت زينب صناع اليدين فكانت تدبغ وتحرز وتتصدق به فى سبيل الله. (1) یعنی زینبؓ اپنے ہاتھ سے کمائی کرتی تھیں وہ چمڑے کی دباغت کرتی اور چمڑے کا سامان بناتی اور اس سے حاصل شدہ مال کو اللہ کے راستہ میں خرچ کرتی تھیں۔ ان کی شان استغناء کا ایک واقعہ ابن سعد نے طبقات میں ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔ عَنْ بَرْزَةَ بِنْتِ رَافِعٍ، قَالَتْ: أَرْسَلَ عُمَرُ إِلَى زَيْنَبَ بِعَطَائِهَا فَقَالَتْ: غَفَرَ اللَّهُ لِعُمَرَ غَيْرِي كَانَ أَقْوَى عَلَى قَسْمِ هَذَا قَالُوا: هَذَا كُلُّهُ لَكِ، قَالَتْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَاسْتَتَرَتْ مِنْهُ بِثَوْبٍ وَقَالَتْ: صُبُّوهُ وَاطْرَحُوا عَلَيْهِ ثَوْبها واخذت تفرقه فى رحمها وايتامها واعطتنى ما بقى فَوَجَدْنَا تَحْتَهُ خَمْسَةً وَثَمَانِينَ دِرْهَمًا، ثُمَّ رَفَعَتْ يَدَيْهَا فَقَالَتِ: اللَّهُمَّ لَا يُدْرِكُنِي عَطَاءٌ عُمَرَ بَعْدَ عَامِي هَذَا. (2) ترجمہ: حضرت زینبؓ کی خادمہ برزہ بنت رافع کہتی ہیں کہ حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں حضرت زینبؓ کی خدمت میں ایک گرانقدر عطیہ بطور وظیفہ بھیجا۔ حضرت زینبؓ نے اسے دیکھ کر کہا اللہ عمرؓ کی مغفرت فرمائے کہ اس مال کو تو میرے علاوہ کوئی اور شخص زیادہ اچھا تقسیم کرتا لانے والوں نے کہا کہ یہ برائے تقسیم نہیں بھیجا ہے یہ سب آپ کا ہے یہ سن کر حضرت زینبؓ نے سبحان اللہ کہا اور فرمایا اسے یہیں ڈال دو اور اس پر کپڑا ڈھک دو۔ اس کے بعد آپ نے اسے اپنے عزیزوں اور یتیموں میں تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ تقسیم کے بعد جو بچ رہا وہ مجھے عنایت فرما دیا میں نے اسے گنا تو وہ پچاسی درہم تھے پھر حضرت زینبؓ نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا کی اے اللہ اس سال کے بعد میرے پاس عمرؓ کا عطیہ نہ آئے۔ پھر ہوا بھی یہی حضرت زینبؓ آئندہ سال آنے سے پہلے ہی وفات پا گئیں۔ حضرت عمرؓ کو جب معلوم ہوا کہ حضرت زینبؓ نے سب مال تقسیم کر دیا ہے تو خود ان کے گھر حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں مزید رقم بھیجوں گا اور ایک ہزار درہم پھر بھیجے۔ حضرت زینبؓ نے وہ بھی تقسیم کر دئیے۔ جیسا کہ ابھی گزرا کہ حضرت زینبؓ ازواج مطہرات کی نمائندہ بن کر حضرت عائشہؓ کے خلاف رسول اللہ ﷺ سے بات کرنے گئی تھیں اور صحیح مسلم کی اسی روایت میں یہ بھی ذخر ہے کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ سے حضرت عائشہؓ کے خلاف خوب کھل کر بات کی تھی۔ لیکن تقویٰ و راست گوئی کا یہ حال تھا کہ جب واقعہ افک کے موقعہ پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینبؓ سے حضرت عائشہؓ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے صاف کہہ دیا والله ما علمت الا خيرا والله میں ان کے بارے میں صرف اچھی رائے ہی رکھتی ہوں۔ حالانکہ فتنہ افک میں ان کی حقیقی بہن حضرت حمنہؓ مبتلا ہو گئی تھیں۔ ان کی نیکی، دینداری اور متقی و پرہیز گار ہونے کی شہادت تو رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک نے بھی دی تھی۔ ام المومنین حضرت میمونہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ مال فئی کو صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت میں تقسیم فرما رہے تھے حضرت زینبؓ نے اس سلسلہ میں آپ کو کچھ مشورہ دے دیا جو حضرت عمرؓ کو ناگوار گزرا اور حضرت عمرؓ نے ان کے دخل دینے پر اپنی ناگواری کا اظہار بھی کرنا چاہا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرؓ کو خاموش کر دیا اور فرمایا زینب کو کچھ نہ کہو اس لئے کہ وہ اوٰھہ ہیں۔ کسی صحابی نے اوٰھہ کا مطلب دریافت کیا تو فرمایا کہ اواھہ کے معنی ہیں خشوع و خضوع کرنے والی اور آپ نے آیت کریمہ ان ابراہیم لحلیم اواہ منیب بھی پڑھی جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حلیم (بردبار) اواہ (خشوع و خضوع کرنے والے) اور منیب (اللہ کی طرف توجہ کرنے والے) فرمایا ہے۔ آپ اگرچہ کثیر الروایت نہیں ہیں پھر بھی آپ کی روایت کردہ احادیث صحاح ستہ وغیرہ حدیث کی مشہور کتابوں میں ہیں۔ آپ سے روایت کرنے والوں میں آپ کے بھتیجے محمد بن عبداللہ بن جحش۔ ام حبیبہ نبت ابی سفیان، زینب بنت ابی سلمہ وغیرہ صحابہ و تابعین ہیں۔ وفات ام المومنین حضرت زینب ؓ کی وفات ۲۰ یا ۲۱ ہجری میں ہوئی آپ رسول اللہ ﷺ کے بعد ازواج مطہرات میں سب سے پہلے وفات پانے والی زوجہ مطہرہ ہیں۔ وفات سے پہلے اپنا کفن تیار کر کے رکھ لیا تھا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر حضرت عمر بھی کفن بھیجیں تو ایک کو تو استعمال کر لیا جائے اور دوسرے کو صدقہ کر دیا جائے چنانچہ ایسا ہی ہوا آپ کی بہن حضرت حمنہؓ بنت جحش نے حضرت عمرؓ کا کفن تو استعمال کرا دیا اور حضرت زینبؓ کا تیار کردہ کفن صدقہ کر دیا۔ ان کی وفات پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا ذھبت حمیدہ سعیدہ مفزع الیتامیٰ والارامل۔ ایک ستودہ صفات، نیک بخت اور یتیموں اور بیواؤں کی سہارا عورت دنیاسے رخصت ہو گئیں۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور محمد بن عبداللہ بن جحش، حضرت عبداللہ بن ابی احمد بن جحش اور حضرت اسامہ بن زید ؓ نے قبر میں اتارا قبر مبارک جنت البقیع میں ہے۔ ؓ وارضاھا۔ ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ الہلالیہ ؓ ازواج مطہرات میں حضرت زینب بنت جحش کے علاوہ زینب نام کی آپ کی ایک اور زوجہ مطہرہ بھی تھیں۔ ان کا پورا نام زینب بنت خزیمہ الہلالیہ ہے۔ باپ کا نام خزیمہ ہے ان کے سلسلہ نسب میں ایک شخص ہلال نامی تھے جس کی وجہ سے ان کو زینب بنت خزیمہ الہلالیہ کہا جاتا ہے۔ والدہ کا نام ہند بنت عوف یا خولہ بنت عوف ہے جن کا تعلق قبیلہ حمیر سے ہے۔ ان ہی ہند کی بیٹی ام المومنین حضرت میمونہ ؓ ہیں۔ حضرت زینب بنت خزیمہ کی وفات کے کئی سال بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت میمونہؓ سے نکاح فرمایا ان دونوں کی ماں ایک ہیں لیکن والد الگ الگ ہیں۔ حضرت زینب بنت خزیمہ کا پہلا نکاح حضرت عبداللہ بن جحش ؓ سے ہوا تھا۔ (1) حضرت عبداللہ بن جحش غزوہ احد شوال ۳ھ میں شہید ہو گئے تھے ان کی شہادت کے کچھ ہی دنوں کے بعد حضرت زینبؓ کے یہاں ناتمام بچہ پیدا ہوا جس سے ان کی عدت ختم ہو گئی اور ذی الحجہ ۳ ھ میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینب بنت خزیمہؓ سے نکاح کر لیا، ابھی نکاح کو صرف تین مہینے ہی گزرے تھے کہ ام المومنین حضر زینب بنت خزیمہ ؓ کا انتقال ہو گیا۔ انا لله وانا اليه راجعون۔ ان کے نکاح اور وفات کے بارے میں ایک قول یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ نکاح تو رمضان ۳ھ میں ہوا اور وفات ربیع الاول ۴ھ یا ربیع الآخر ۴ھ میں نکاح سے ۷ یا ۸ مہینے کے بعد ہوئی لیکن اول قول راجح بتلایا جاتا ہے۔ ازواج مطہرات میں صرف ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ ؓ اور ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ ہی کی وفات رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں ہوئی ہے دیگر تمام ازواج مطہرات آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی باحیات رہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ کی نماز جنازہ پڑھائی اور مدینہ طیبہ کے قبرستان جنت البقیع میں دفن فرمایا۔ وفات کے وقت ان کی عمر صرف تیس سال تھی۔ (2) فضائل ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ بہت زیادہ سخی تھیں۔ غریبوں کی غمخواری کرتیں اور مسکینوں کو کھانا کھلاتی تھیں۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ کے نکاح میں آنے سے پہلے ہی ام المساکین کے لقب سے مشہور تھیں۔ اپنی ذاتی خوبیوں کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کی زوجہ مطہرہ ہونے کا شرف، پھر آپ ہی کے سامنےوفات پانا اور آپ کا خود نماز جنازہ پڑھانا اور اپنی نگرانی میں جنت البقیع میں دفن کرنا یہ بھی بڑی خوبی اور فضیلت کی بات ہے۔ ام المومنین حضرت جویریہ ؓ ۵؁ھ میں رسول اللہ ﷺ کو یہ خبر ملی کی قبیلہ بنی مصطلق کا سردار حارث ابن ابی ضرار اہل مکہ کے اکسانے پر یا خود ہی مدینہ طیبہ پر حملہ کرنے اور العیاذ باللہ رسول اللہ ﷺ کو شہید کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور اس مقصد کے لئے اس نے اپنے قرب و جوار کے دیگر مشرک قبائل کو بھی جمع کرنا شروع کر دیا ہے۔ (1) یہ قبیلہ بنی مصطلق قبیلہ خزاعہ کی شاخ تھا اور مکہ معظمہ سے کچھ دور مریسیع (2) نام کے چشمہ یا تالاب کے کنارے آباد تھا۔ قرب و جوار کے بہت سے قبائل اسلام دشمنی کی وجہ سے اس ارادہ میں اس قبیلہ کے لوگوں کے سامنے تھے اور ان لوگوں کو مشرکین مکہ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ جب رسول اللہ ﷺ کو ان لوگوں کے اس ارادہ کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے پیش قدمی کر کے خود بنی مصطلق پر حملہ کرنے کا ارادہ فرما ہی لیا اور شعبان ۵ ھ میں تقریبا ایک ہزار صحابہ کرامؓ کی جمیعت کو ساتھ لے کر اچانک قبیلہ بنی مصطلق پر حملہ کر دیا ان لوگوں کو ابھی تک اس کا علم نہ ہو سکا تھا اور وہ اپنے روزمرہ کے کاموں میں مشغول تھے کہ مسلمانوں کا یہ لشکر وہاں پہنچ گیا۔ آپ ﷺ نے حضرت عمر فاروقؓ سے فرمایا کہ ان لوگوں سے کہو کہ لا الٰہ الا اللہ کے قائل ہو جائیں یعنی اسلام قبول کر لیں جس سے ان کی جان و مال سب محفوظ ہو جائے گا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے بآواز بلند رسول اللہ ﷺ کا یہ پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیا لیکن انہوں نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا اور مسلمانوں کے لشکر پر تیر اندازی شروع کر دی۔ مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے یکبارگی حملہ کر دیا۔ قبیلہ بنی مصطلق کے لوگ مقابلہ نہ کر سکے، ان کے انصار و اعوان قبائل تو پہلے ہی راہ فرار اختیار کر گئے تھے۔ بنی مصطلق نے بھی اب ہتھیار ڈال دئیے صحابہ کرامؓ نے پورے قبیلہ کے لوگوں کو قیدی بنا لیا جن کی تعداد تقریباً ۷۰۰ سو تھی اس جنگ میں بنی مصطلق کے دس ۱۰ مشرک مارے گئے تھے اور صرف ایک صحابیؓ شہید ہوئے تھے۔ بنی مصطلق کے قیدیوں میں قبیلہ کے سردار ابن ابی ضرار کی بیٹی جویریہؓ بھی تھیں۔ حارث خود تو کسی طرح بچ گئے تھے اور مسلمانوں کے ہاتھ نہیں آئے تھے لیکن جویریہؓ کا شوہر مسافع بن صفوان مارا گیا تھا ان قیدیوں کو دیگر مال غنیمت کے ساتھ صحابہ کرامؓ میں تقسیم کر دیا گیا۔ حضرت جویریہؓ حضرت ثابت بن قیسؓ کے حصہ میں آئیں۔ انہوں نے حضرت ثابت بن قیس ؓ سے کہا کہ اگر آپ مجھے رقم لے کر آزاد کرنے پر تیار ہوں تو میں رقم کا انتظام کر لوں۔حضرت ثابت نے اسے منظور کر لیا۔ شرعی اصطلاح میں اس طرح کے معاملہ یا عقد کو کتابت کہتے ہیں اور جو رقم آزادی کے بدلہ میں دینا طے ہوتی ہے اسے بدل کتابت کہا جاتا ہے۔ حضرت جویریہؓ اور حضرت ثابت بن قیسؓ کے درمیان بدل کتابت ۹ اوقیہ سونا طے پایا تھا۔ ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہوتا ہے ایک درہم تین ماشہ سے کچھ زائد ہوتا ہے۔ حضرت جویریہؓ خود باندی اور ان کے قبیلہ کے لوگ بھی سب غلام باندی ہی تھے۔ بدل کتابت کا انتظام ان کے بس کی بات نہ تھی لیکن رئیس زادی تھیں، ہمت اور عقل سے کام لیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں قبیلہ بنی مصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی جویریہ ہوں، میں مسلمان ہو گئی ہوں اور گواہی دیتی ہوں کے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اور میں جس مصیبت میں گرفتار ہوں آپ سے مخفی نہیں ہے۔ غلاموں اور باندیوں کی تقسیم میں، میں ثابت بن قیسؓ کے حصہ میں آ گئی ہوں انہوں نے مجھ سے معاملہ کتابت کر لیا ہے لیکن بدل کتابت میرے پاس نہیں ہے۔ آپ سے مدد کی طالب ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی درخواست سن کر فرمایا کہ کیا میں تم کو اس سے بہتر بات نہ بتلاؤں انہوں نے عرض کیا کہ ضرور ارشاد فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم منظور کر لو تو میں تم کو ثابت بن قیسؓ سے خرید کر آزاد کر دوں اور پھر تم مجھ سے نکاح کر لو۔ حضرت جویریہؓ نے اسے بخوشی منظور کر لیا اور رسول اللہ ﷺ نے ان کو خرید کر آزاد فرما دیا اور ان سے نکاح فرما لیا اور چار ہزار درہم مہر مقرر فرمایا۔ (1) اس غزوہ سے تین دن پہلے حضرت جویریہؓ نے اپنے گھر پر ہی خواب دیکھا تھا کہ مدینہ سے چاند چلا اور میری گود میں آ گیا۔ میں نے اپنے گھر کے لوگوں سے اس کا تذکرہ مناسب نہ سمجھا لیکن جب یہ غزوہ ہوا اور میں قید کر کے مدینہ لائی گئی تو مجھے اپنے خواب کی تعبیر کی کچھ امید نظر آئی۔ (2) جب صحابہ کرامؓ کے علم میں یہ بات آئی کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جویریہؓ سے نکاح کر لیا ہے اور اب ان کے یہ غلام اور باندی جن کا تعلق قبیلہ بنی مصطلق سے ہے رسول اللہ ﷺ کے سسرالی رشتہ دار ہو گئے ہیں لہذا اب ان لوگوں کو غلام اور باندی بنائے رکھنا مناسب نہیں ہے تو صحابہ کرامؓ نے اپنے ان غلاموں اور باندیوں کو آزاد کر دیا۔ (3) جن کی تعداد تقریباً سات سو تھی، پھر بعد میں یہ سب لوگ مسلمان ہو گئے۔ اسی موقع پر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا تھا۔ ما اعلم امرۃً اعظم برکۃ منھا علی قومھا۔ یعنی میرے علم میں کوئی عروت ایسی نہیں ہے جو جویریہؓ سے زیادہ اپنی قوم کے لئے باعث خیر و برکت ہو۔ جب یہ سب کچھ ہو چکا تو حضرت جویریہؓ کے والد حارث بن ابی ضرار اپنی بیٹی کو چھڑانے کے لئے بہت سا مال و دولت بطور فدیہ لے کر آئے ان کے ساتھ ان کے دو بیٹے بھی تھے اس مال و دولت مین بڑی تعداد میں اونٹ بھی تھے۔ اثنائے سفر میں حارث بن ابی ضرار کو دو اونٹ بہت اچھے محسوس ہوئے اور انہوں نے ان دونوں اونٹوں کو راستہ ہی میں کسی وادی میں چھپا دیا۔ جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور اپنی آمد کا مقصد ذکر کیا تو آپ نے ان سے فرمایا کہ جویریہ موجود ہیں جانا چاہیں تو لے جاؤ۔ باپ نے بیٹی سے کہا کہ محمد (ﷺ) نے تمہیں میرے ساتھ جانے کی اجازت دے دی ہے۔ چلو گھر چلو، حضرت جویریہؓ نے فرمایا اخترت اللہ ورسولہ میں نے تو اللہ اور اس کے رسول ہی کو اختیار کر لیا ہے باپ نے ہر چند سمجھایا اپنی عزت کا واسطہ بھی دیا لیکن حویریہؓ رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر جانے کے لئے تیار نہیں ہوئیں۔ بعد میں رسول اللہ ﷺ نے حارث بن ابی ضرار سے ان دو اونٹوں کا بھی ذخر فرمایا جو حارث بن ابی ضرار راستہ میں چھپا آئے تھے اور ان اونٹوں کا ذخر سن کر حارث بولے ان اونٹوں کی خبر تو میرے اور اللہ کے سوا کسی کو نہ تھی۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔ (1) ان کے ساتھ دو بیٹے بھی مسلمان ہو گئے۔ اس طرح پورا قبیلہ بنی مصطلق اسلام لے آیا۔ یہ سب حضرت جویریہؓ کے نکاح کی برکت ہے۔ دینی نقطہ نظر کے علاوہ سیاسی اور دفاعی نقطہ نظر سے بھی قبیلہ بنی مصطلق کا ایمان لانا بڑا اہم واقعہ تھا اس لئے کہ یہ قبیلہ مدینہ طیبہ کے مقابلہ میں مکہ معظمہ کے زیادہ قریب تھا اور اہل مکہ ابھی اسلام نہیں لائے تھے۔ فضائل ام المومنین حضرت جویریہؓ نے رسول اللہ ﷺ سے متعدد روایات نقل کی ہین اور ان سے حضرت ابن عباسؓ ِ، حضرت جابرؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ صحابہ کرامؓ نے روایات لی ہیں۔ ام المومنین حضرت جویریہ ؓ بڑی ذاکر و شاغل تھیں۔ نما زکے بعد بعض اوقات گھنٹوں مصلے پر بیٹھ کر ذکر خداوندی میں مشغور رہتی تھیں ان کے اس طرح طویل ذکر الٰہی کا ایک واقعہ امام مسلمؒ اور امام ترمذیؒ نے حضرت جویریہؓ ہی کی روایت سے نقل کیا ہے۔ صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ یہ ہیں۔ عَنْ جُوَيْرِيَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهَا بُكْرَةً حِينَ صَلَّى الصُّبْحَ، وَهِيَ فِي مَسْجِدِهَا، ثُمَّ رَجَعَ بَعْدَ أَنْ أَضْحَى، وَهِيَ جَالِسَةٌ، فَقَالَ: «مَا زِلْتِ عَلَى الْحَالِ الَّتِي فَارَقْتُكِ عَلَيْهَا؟» قَالَتْ: نَعَمْ. (2) ترجمہ: ام المومنین حضرت جویریہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن نماز فجر پڑھنے کے بعد ان کے پاس سے باہر نکلے وہ اپنی نماز پڑھنے کی جگہ پر بیٹھی کچھ پڑھ رہی تھیں پھر آپ کچھ دیر کے بعد جب چاشت کا وقت آ چکا تھا واپس تشریف لائے حضرت جویریہؓ اسی طرھ بیٹھی اپنے وظیفہ میں مشغول تھیں آپ ﷺ نے ان سے فرمایا میں جب سے تمہارے پاس سے گیا تھا کیا تم اس وقت سے برابر اسی حال میں اور اسی طرح پڑھ رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔ اس ھدیث میں ابھی اور بھی کچھ باقی ہے لیکن ہمیں صرف اتنا ہی ذکر کرنا جس سے حضرت جویریہؓ کے کثرت سے ذکر اور وظیفہ میں مشغولیت کا پتہ چلتا ہے۔ الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ یہ روایت ترمذی میں بھی ہے۔ ان کے نفلی روزے رکھنے کا ذکر بھی حدیث کی کتابوں میں ملتا ہے۔ ایک دفعہ جمعہ کے دن رسول اللہ ﷺ ان کے گھر تشریف لائے معلوم ہوا کہ وہ نفلی روزہ رکھے ہوئے ہیں آپ نے دریافت کیا کہ کیا تم نے کل بھی روزہ رکھا تھا، عرض کیا نہیں، پھر دریافت کیا کہ کیا کل رکھو گی؟ عرض کیا نہیں۔ اس کے بعد آپ نے ان کو تنہا جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا تنہا جمعہ کے دن کا روزہ رکھنا مختلف فیہ ہے۔ تفصیل حدیث و فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے۔ ام المومنین حضرت جویریہؓ کے فضائل میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان کی ذات ہی قبیلہ بنی مصطلق کے لوگوں کی آزادی کا اور ایمان لانے کا ذریعہ بنی۔ وفات ام المومنین حضرت جویریہ ؓ نے ربیع الاول ۵۰ھ میں وفات پائی۔ مروان بن الحکم نے جو مدینہ کے حاکم تھے اور تابعی ہیں نماز جنازہ پڑھائی۔ اور مدینہ طیبہ کی قبرستان جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ام المومنین حضرت ام حبیبہ ؓ مشہور صحابی حضرت ابو سفیان بن حزب ؓ کی صاحبزادی اور امیر المومنین حضرت معاویہ ؓ کی بہن ام المومنین حضرت ام حبیبہ ؓ کا نام رملہ تھا۔ ان کی ایک بیٹی حبیبہ کی وجہ سے ان کی کنیت ام حبیبہ تھی۔ ان کی والدہ صفیہ بنت ابو العاص حضرت عثمان ؓ کی پھوپھی تھیں۔ حضرت ابو سفیان ؓ اگرچہ بہت دیر سے ایمان لائے لیکن حضرت ام حبیبہ ؓ اور ان کے پہلے شوہر عبیداللہ بن جحش اسلام کے ابتدائی دور میں ہی اسلام لا چکے تھے اور اہل مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کے ساتھ حبشہ ہجرت کر گئے تھے۔ عبیداللہ بن جحش حبشہ جا کر نصرانی ہو گیا اور اس حالت ارتداد میں اسے موت آئی۔ اس نے حضرت ام حبیبہؓ کو اسلام ترک کرنے اور نصرانیت کو اختیار کرنے کی ترغیب دی۔ لیکن حضرت ام حبیبہؓ اس نازک وقت میں ثابت قدم رہیں اور ان کی خوش نصیبی کہ عبیدہ بن جحش کے انتقال اور ان کی عدت کے گذرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرو بن امیہ کو اپنے نکاح کا پیغام دے کر حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس، جو خود مسلمان ہو چکے تھے بھیجا اور اپنے نکاح کا وکیل بھی نجاشی کو بنایا۔ بادشاہ نجاشی نے اپنی ایک باندی کو حضرت ام حبیبہؓ کے پاس یہ پیغام لے کر بھیجا کہ بادشاہ یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا گرامی نامہ ان کے نام آیا ہے جس میں یہ تحریر ہے کہ وہ ام حبیبہ کو ہمارے نکاح کا پیغام دین اور اگر وہ منظور کر لیں تو آپ ہی ہمارا نکاح کر دیں۔ حضرت ام حبیبہؓ نے جب یہ خوشخبری سنی تو اس باندی کو جو یہ پیغام مسرت لے کر آئی تھی چاندی کے دو کنگن، کئی انگوٹھیاں اور دو اور زیور انعام میں دئیے۔ اور اپنے ایک قریبی عزیز خالد بن سعید بن العاص ؓ کو اپنے نکاح کا وکیل مقرر کر دیا۔ (1) حضرت ام حبیبہ کی منظوری مل جانے پر دوسرے دن بادشاہ نجاشی نے حبشہ میں موجود صحابہ کرامؓ کو جن میں رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ بھی تھے، اپنے محل میں بلایا اور خود خطبہ نکاح پڑھا اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ایجاب نکاح کیا۔ حضرت خالد بن سعیدؓ نے حضرت ام حبیبہ ؓ کی طرف سے نکاح قبول کیا۔ نجاشی نے ۴۰۰ دنار مہر مقرر کیا اور خود ہی مہر کی یہ رقم ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ کی خدمت میں بھیجی۔ مہر کی رقم میں سے پچاس دینار ام المومنین نے اس باندی کو جو نکاح کا پیغام لے کر آئی تھی دئیے، اس باندی نے وہ واپس کر دئیے اور وہ زیورات بھی واپس کر دئیے جو کل ام المومنین نے دئیے تھے اور کہا، بادشاہ سلامت کا یہی حکم ہے۔ نکاح کے بعد بادشاہ نے ام المومنین کی خدمت میں بہت سے ہدایا اور خوشبوئیں بھیجیں۔ مجلس نکاح کے اختتام پر جب صحابہ کرامؓ اٹھنے لگے تو نجاشی نے کہا کہ بیٹھ جائیے سب لوگ کھانا کھا کر جائیں گے اور یہ بھی کہا کہ نکاح کے موقع پر کھانا کھلانا انبیاء علیہم السلام کی سنت رہی ہے۔ (2) مشہور قول کے مطابق یہ نکاح ۶؁ھ میں ہوا ہے۔ جب حضرت ابو سفیان کو جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اس نکاح کی اطلاع مکہ میں ملی تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی عظمت کا اعتراف کیا اور آپ کی شان میں بہت بلند کلمات کہے۔ (3) ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ کے نکاح کے سلسلے میں صحیح مسلم کی ایک طویل روایت میں یہ ہے کہ حضرت ابو سفیانؓ نے ایمان لانے کے بعد مدینہ طیبہ میں آپ سے یہ درخواست کی کہ آپ میری بیٹی ام حبیبہؓ سے شادی کر لیں اورآپ نے ان کی یہ درخواست قبول بھی فرما لی۔ (4) محدثین نے روایت کے اس حصہ کی مختلف توجیہات کی ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ روایت کا یہ حصہ جس میں حضرت ام حبیبہؓ کا نکاح حضرت ابو سفیانؓ کے اسلام لانے اور مدینہ طیبہ ہجرت کرنے کے بعد ہونا معلوم ہوتا ہے صحیح نہیں ہے۔ بہرحال یہ نکاح حبشہ ہی میں ہوا ہے اور حضرت ابو سفیان ؓ کے مشرف باسلام ہونے سے پہلے ہی ہو چکا ہے۔ اس کی تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے۔کہ صلح حدیبیہ کے بعد ابو سفیان اہل مکہ کے نمائندہ بن کر صلح ہی سے متعلق بعض معاملات کے بارے میں گفتگو کرنے کے لئے مدینہ طیبہ حاضر ہوئے اور اپنی بیٹی ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ کے گھر ان سے ملنے کے لئے گئے وہ جب اند گھر میں پہنچے تو ام المومنین نے رسول اللہ ﷺ کا بستر جو بچھا ہوا تھا لپیٹ دیا۔ حضرت ابو سفیانؓ نے کہا کہ یہ تم نے کیا کیا، آیا یہ بستر میرے لائق نہیں ہے یا میں بستر کے قابل نہیں ہوں۔ ام المومنین نے کہا، ابا جان آپ مشرک ہیں اور یہ رسول اللہ ﷺ کا بستر ہے، اس لئے آپ اس بستر پر بیٹھنے کے لائق نہیں ہیں۔ (1) فضائل ام المومنین حضرت ام حبیبہ ؓ کو اللہ تعالیٰ نے ظاہری حسن و جمال کے ساتھ باطنی کمالات سے بھی نوازا تھا۔ وہ اولین ایمان لانے والوں میں ہیں۔ حالانکہ ان کے والد ابو سفیان ؓ جو سرداران قریش میں سے تھے بہت دیر میں فتح مکہ کے قریب ایمان لائے تھے گھر کے دوسرے افراد بھی دیر ہی سے مسلمان ہوئے، ایسے حالات میں ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ کا اسلام کے ابتدائی عہد ہی میں مشرف اسلام ہو جانا اور اپنے گھر کے لوگوں کی مخالفت کی پرواہ نہ کرنا اور اسلام کی خاطر مکہ معظمہ سے حبشہ کو ہجرت کر جانا، پھر جب ان کا پہلا شوہر حبشہ میں مرتد ہو گیا اور ان کو بھی اسلام کو ترک کرنے اور نصرانیت کو اختیار کرنے کی ترغیب دی تو ان کا اپنے ایمان کو بچائے رکھنا اور دین اسلام پر ثابت قدم رہنا بڑی ہمت اور اولو العزمی کی بات تھی، جب کہ پردیس میں صرف وہی شوہر ظاہری سہارا تھا۔اسی طرح حضرت ابو سفیانؓ کے آنے پر رسول اللہ ﷺ کے بستر کو لپیٹ دینا اور ان کے سوال کرنے پر یہ کہنا کہ ابا جان یہ رسول اللہ ﷺ کا بستر ہے اور آپ مشرک ہیں آپ اس بستر پر بیٹھنے کے لائق نہیں ہیں، رسول اللہ ﷺ سے ان کی غیر معمولی محبت و عقیدت اور ان کے دل میں آپ کی بےپناہ عظمت و شوکت اور خود ان کی اعلیٰ درجہ کی قوت ایمانی کا پتہ دیتا ہے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے ارشادات پر عمل کرنے کا بڑا اہتمام کرتی تھیں ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ کی صاحبزادی حضرت زینب ؓ کہتی ہیں کہ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ أَبُوهَا أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ، فَدَعَتْ بِطِيبٍ فِيهِ صُفْرَةٌ خَلُوقٌ، أَوْ غَيْرُهُ، فَدَهَنَتْ بِهِ جَارِيَةً، ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا، ثُمَّ قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ، غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لاَ يَحِلُّ لاِمْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ، إِلاَّ عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا. (2) روایت کا حاصل یہ ہے کہ حضرت زینب بن ابی سلمہ ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ کے والد حضرت ابو سفیانؓ کی وفات پر ان کی خدمت میں حاضر ہوئیں (اور بظاہر ابو سفیان ؓ کی وفات کو تین دن گذر چکے تھے) حضرت ام حبیبہ ؓ نے ایک خوشبو جو زعفران وغیرہ سے بنائی جاتی ہے اور جس میں سرخ اور پیلا رنگ ہوتا ہے منگائی اور ایک بچی کے لگائی اور پھر اپنے رخساروں پر بھی لگا لی اور فرمایا مجھے خوشبو استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کسی صاحب ایمان عورت کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی بھی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ منائے۔ البتہ شوہر پر چار مہینہ دس دن سوگ منائے گی۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد پر عمل کرنے کے لئے اپنے رخساروں پر یہ خوشبو لگا لی ہے۔ (تا کہ یہ اظہار ہو جائے کہ میں اپنے والد حضرت ابو سفیان ؓ کا تین دن سے زیادہ سوگ نہیں منا رہی ہوں۔) انہی کی روایت سے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد حدیث کی متعدد کتابوں میں نقل کیا ہے۔ کہ مَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الجَنَّةِ: أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ العِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلاَةِ الْفَجْرِ صَلاَةِ الْغَدَاةِ. (1) حدیث کا ترجمہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص دن رات میں یہ بارہ رکعتیں پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک محل تیار کر دے گا۔ چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں ظہر کے بعد دو رکعتیں مغرب کے بعد دو رکعتیں عشاء کے بعد اور دو رکعتیں فجر سے پہلے۔ مسند احمد میں اسی روایت کے بعد یہ بھی اضافہ ہے فما برحت اصليهن بعد یعنی جب سے میں نے آپ کا یہ ارشاد سنا ہے کبھی ان رکعتوں کا ناغہ نہیں کیا ہمیشہ یہ رکعتیں پابندی سے پڑھتی ہوں۔ حدیث کی کتابوں میں ان کے متعلق اتباع سنت کے اہتمام کے اور بھی واقعات مذکور ہیں۔ آخرت کے حساب و کتاب سے بہت ڈرتیں اور صفائی معاملات کا بہت خیال کرتی تھیَں۔ ابن سعد نے ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کا قول نقل کیا ہے قالت دعتنى ام حبيبه عند موتها فقالت قد كان يكون بينا ما يكون بين الضرائر فحللينى من ذالك فحللتها واستغفرت لى استغفرت لها فقالت لى سررتنى سرك الله وارسلت الى ام سلمه مثلا ذالك (2) روایت کا حاصل یہ ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضرت ام حبیبہ ؓ نے اپنی وفات کے وقت مجھے بلایا اور فرمایا ہم لوگوں میں کبھی کبھی بعض ایسے واقعات پیش آئے ہوں گے جو سوتنوں مین پیش آ جاتے ہیں، میں تم سے ان کی معافی مانگتی ہوں۔ مین نے معاف کر دیا۔ تو انہوں نے میرے واسطے دعائے مغفرت کی اور میں نے ان کے لئے دعائے مغفرت کی۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اسی طرح انہوں نے حضرت ام سلمہ ؓ سے بھی اپنی کوتاہیوں کی معافی تلافی کی۔ رسول اللہ ﷺ سے براہ راست اور بالواسطہ متعدد روایات نقل کی ہیں جو حدیث کی مشہور کتابوں صحاح ستہ وغیرہ میں موجود ہیں، ان سے روایات نقل کرنے والوں میں ان کے بھائی معاویہؓ بیٹی حبیبہؓ اور بعض دیگر صحابہ و تابعینؒ ہیں۔ وفات امیر المومنین حضرت معاویہؓ کے زمانہ خلافت میں آپ کی وفات ہوئی۔ سن وفات کے بارے میں کئی قول ہیں۔ لیک راجح قول ۴۲ھ ہے۔ اور مدینہ طیبہ میں دفن کی گئیں۔ ؓ وارضاھا۔ ام المومنین حضرت صفیہ ؓ ام المومنین حضرت صفیہ ؓ کا باپ حیی ابن اخطب قبیلہ بنی نضیر کا سردار تھا اس کا سلسلہ نسب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ ماں کا نام ضرہ ہے یہ قبیلہ بنی قریظہ کے سردار کی بیٹی تھیں۔ (1) بنو نضیر اور بنو قریظہ مدینہ کے ممتاز یہودی قبیلے گے، ان قبیلوں کے لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی مدینہ تشریف آوری کے بعدآپ سے یہ عہد کیا تھا کہ ہم آپ سے جنگ کریں گے اور نہ آپ کے دشمنوں کی مدد کریں گے۔ (2)لیکن دونوں قبیلون کے لوگوں نے عہد شکنی کی۔ قبیلہ بنی نضیر نے مشرکین مکہ کے کہنے پر رسول اللہ ﷺ کو شہید کرنے کی سازش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطلاع دے دی۔ (3) اور آپ نے ان کی بدعہدی کی وجہ سے غزوہ بدر کے چھ مہینے کے بعد ان کے قلعہ کا محاصرہ فرمایا۔ (4) ان لوگوں نے مجبور ہو کر صلح کی درخواست کی آپ نے ان کی درخواست منظور فرما لی اور یہ طے پایا کہ وہ اپنے اونٹوں پر جتنا سامان لاد کر لے جا سکتے ہوں لے جائیں۔ البتہ اسلحہ لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ (5) ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور خیبر میں جا کر بس گئے جہاں یہود کی بڑی بڑی بستیاں تھیں۔ حضرت صفیہ کے والدین بھی اپنے قبیلہ والوں کے ساتھ خبیر چلے گئے تھے اس وقت حضرت صفیہؓ بہت کم دمر تھیں وہاں خیبر میں ان کی پہلی شادی سلام بن مشکم سے ہوئی تھی اس نے طلاق دے دی تھی پھر کنانہ بن ابی حقیق سے نکاح ہوا وہ غزوہ خیبر میں مارا گیا اور حضرت صفیہ ؓ ۷ھ میں خیبر کے قیدیوں کے ساتھ قید ہو کر مسلمانوں کے قبضہ میں آئیں۔ مشہور صحابی حضرت دحیہ کلبی ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے خیبر کے قیدیوں میں سے ایک باندی مانگی آپ نے فرمایا انتخاب کر کے لے لو، انہوں نے حضرت صفیہ ؓ کا انتخاب کر لیا۔ ایک صحابی نے آ کر عرض کیا، اے اللہ کے رسول! (ﷺ) آپ نے حضرت دحیہ کو بنو نضیر اور بنو قریظہ کی رئیس زادی دے دی ہے۔ وہ تو صرف آپ ہی کے لئے مناسب ہے، آپ نے حضرت دحیہ کو دوسری باندی دی اور حضرت صفیہؓ کو آزاد کر کے ان سے نکاح فرما لیا۔ (6) آزاد کرنے کے بعد آپ ﷺ نے حضرت صفیہ کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ وہ اپنے وطن چلی جائیں یا مسلمان ہو کر آپ ﷺ سے نکاح کر لیں۔ حضرت صفیہؓ نے عرض کیا اختار الله ورسوله لقد كنت اتمنى ذالك فى الشرك یعنی میں تو اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرتی ہوں۔ اب تو الحمدللہ، اللہ نے ایمان کی دولت سے نواز دیا میری تو اسلام سے پہلے بھی یہی خواہش تھی۔ (1) نکاح کے بعد انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے ایک خواب کا واقعہ بھی سنایا۔ انہوں نے بتلایا کہ یا رسول اللہ(ﷺ) جب آپ اور صحابہ کرامؓ کا محاصرہ کئے ہوئے تھے اسی زمانہ میں ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ چاند میری گود میں آ کر گرا ہے۔ میں نے اپنے شوہر کو یہ خواب سنایا تو اس نے میرے چہرے پر اتنی زور سے طمانچہ مارا کہ چہرہ پر اس کا نشان پڑ گیا اور کہا کہ تو بادشاہ عرب کو اپنا شوہر بنانے کی خواہش کرتی ہے۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے خیبر سے واپسی پر راستے میں مقام سد الصہباء پر آپ سے نکاح کیا تھا اور دوسرے دن وہیں ولیمہ فرمایا۔ ولیمہ میں آپ کے فرمانے پر صحابہ کرامؓ اپنے اپنے سامان میں سے کھجور، پنیر، گھی وغیرہ لے آئے، ایک دسترخوان پر رکھ کر کھا لیا گیا یہی ولیمہ ہو گیا۔ (3) راستہ میں ام المومنین حضرت صفیہؓ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے آپ کے اونٹ پر ہی سوار رہیں، مدینہ منورہ تک اسی طرح سفر ہوا۔ فضائل ام المومنین حضرت صفیہ ؓ بہت زیادہ عقل مند اور سمجھ دار تھیں۔ جیسا کہ ابھی گزرا انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے اختیار دینے کے باوجود اپنے گھر جانا پسند نہیں کیا بلکہ اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کر لیا۔ وہ بہت زیادہ حلیم اور بردبار تھیں، ایک دفعہ ان کی ایک باندی نے حضرت عمر ؓ سے جا کر حضرت صفیہ ؓ کی شکایت کی کہ وہ یہود کی طرح اب تک یوم السبت یعنی ہفتہ کے دن کی تعظیم کرتی ہیں اور یہودیوں کے ساتھ صلہ رحمی کرتی ہیں۔ حضرت عمرؓ نے حقیقت معلوم کرنے کے لئے کسی کو بھیجا تو ام المومنین حضرت صفیہؓ نے فرمایا کہ جب سے اللہ نے مجھے یوم السبت سے بہتر یوم الجمعہ عطا فرما دیا ہے میں یوم السبت کی تعظیم نہیں کرتی۔ رہی یہودیوں کے ساتھ صلہ رحمی کی بات تو ان سے میری قرابت داری ہے اس لئے میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتی ہوں (اور ظاہر ہے کہ اسلام اس سے منع نہیں کرتا) پھر انہوں نے اپنی باندی سے پوچھا کہ تم نے یہ شکایت کیوں کی، باندی نے کہا کہ مجھے شیطان نے بہکا دیا تھا۔ ام المومنین حضرت صفیہؓ نے یہی نہیں کہ اس کو کچھ سزا نہیں دی بلکہ فرمایا اچھا جاؤ تم آزاد ہو۔ (4) ان کے سلسلہ نسب کے سلسلہ میں پہلے ہی گزر چھا ہے کہ وہ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے تھیں رسول اللہ ﷺ کو اس کا خاص خیال رہتا تھا اور آپ ان کی بہت دلداری فرماتے تھے۔ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ ان کے گھر تشریف لائے دیکھا کہ حضرت صفیہؓ رو رہی ہیں وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے عرض کیا کہ حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی ازواج تو ہیں ہی آپ کے خاندانی ہونے کا بھی شرف رکھتی ہیں اور تم تو یہودی خاندان سے تعلق رکھتی ہو لہذا ہم تم سے بہتر ہیں۔ آپ(ﷺ) نے ان کو تسلی دی اور فرمایا تم نے یہ کیوں نہیں کہا کہ تم لوگ مجھ سے افضل کیسے ہو سکتی ہو، میں اللہ کے نبی حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں ہوں۔ میرے چچا حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی نبی ہیں اور میرے شوہر حضرت محمد ﷺ بھی نبی ہیں۔ (1) ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے ان کے بارے میں کوئی نامناسب کلمہ کہہ دیا۔ آپ ﷺ نے بہت ناگواری کا اظہار کیا۔ (2) اسی طرھ ایک بار حضرت زینب بنت جحشؓ نے انہیں یہودیہ کہہ دیا تھا تو آپ نے فرمایا کہ انها اسلمت وحسن اسلامها یعنی وہ پکی مومنہ ہیں اور آپ کئی ہفتہ حضرت زینبؓ کے یہاں تشریف نہیں لے گئے تھے۔ (3) انہیں رسول اللہ ﷺ سے بہت غیر معمولی محبت اور تعلق تھا۔ آپ کے مرض وفات مین جب مرض کی تکلیف بہت زیادہ ہوئی تو ام المومنین حضرت صفیہؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! واللہ میرا دل چاہتا ہے کہ یہ تکلیف بجائے آپ کے مجھے ہو جاتی بعض ازواج مطہرات کو ان کے اس کلام کی صداقت میں کچھ شبہ ہوا جس کا اظہار ان کے چہروں سے بھی ہو گیا۔ آپ نے اس کو محسوس کر کے فرمایا واللہ یہ اپنی بات میں سچی ہیں۔ (4) آپ بہت سخی تھیں۔ جب پہلی بار مدینہ طیبہ آئی ہیں تو حضرت فاطمہؓ اور بعض ازواج مطہرات کو اپنے زیور عنایت فرمائے۔ (5) جس وقت باغیوں نے حضرت عثمان ؓ کے مکان کا محاصرہ کیا تھا اور حضرت عثمان کے مکان میں کھانا پانی تک جانے کی اجازت نہ دیتے تھے ایسے وقت میں حضرت صفیہؓ ان کی مدد کرنے کے ارادہ سے ان کے گھر تشریف لے جانے کے لیے نکلیں لیکن جب گھر کے قریب پہنچیں تو باغیوں نے آگے نہ جانے دیا واپس تشریف لے آئیں اور پھر حضرت حسن ؓ کے ذریعہ ان کے گھر کھانے پینے کا سامان بھیجنے کا انتظام کیا۔ (6) رسول اللہ ﷺ کی متعدد روایات ان کے واسطے سے محدثین نے نقل کی ہیں، ان کے تلامذہ میں حضرت زین العابدین، حضرت اسحٰق بن عبداللہ، حضرت مسلم بن صفوان، حضرت کنانہ اور حضرت یزید بن معتب وغیرہم تابعین کے نام ذکر کئے جاتے ہیں۔ وفات ام المومنین حضرت صفیہ ؓ کی وفات رمضان ۵۰؁ھ میں ہوئی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔ بعض حضرات نے سنہ وفات ۵۲؁ھ ذکر کی ہے مشہور قول ۵۰ھ ہی کا ہے۔ ام المومنین حضرت میمونہ ؓ ام المومنین حضرت میمونہ ؓ کے والد حارث بن حزن کا تعلق قبیلہ قریش سے تھا اور ان کی والدہ ہند بنت عوف یا خولہ بنت عوف قبیلہ حمیر سے تعلق رکھتی ہیں۔ (1) یہی ام المومنین حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کی بھی والدہ ہیں۔ حضرت زینبؓ کے تذکرہ میں گزر چکا ہے کہ ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہؓ اور ام المومنین حضرت میمونہ بنت حارث دونوں کی والدہ ایک ہیں اور والد الگ الگ۔ حضرت میمونہ ؓ، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت خالد بن الولید ؓ اور مشہور تابعی حضرت یزید ابن الاصم کی خالہ ہیں۔ ان کی بہن حضرت ام الفضل حضرت عباس ؓ کی اہلیہ ہیں۔ ایک دوسری بہن حضرت اسماء ؓ حضرت جعفر بن ابی طالب کی اہلیہ تھیں ان کی شہادت کے بعد حضرت ابو بکرؓ کے نکاح میں رہیں اور ان کی وفات کے بعد حضرت علیؓ کے نکاح میں آئیں۔ حضرت میمونہ ؓرسول اللہ ﷺ کے نکاح میں آنے سے پہلے ابو رہم بن عبدالعزیٰ کے نکاح میں تھیں، ان کے انتقال کے بعد حضرت میمونہ کے بہنوئی اور رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت عباس ؓنے آپ ﷺ سے ان کی بیوی کا تذکرہ کیا اور یہ چاہا کہ آپ ﷺ ان سے نکاح فرما لیں، آپ ﷺ نے یہ مشورہ قبول فرما لیا اور حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ کو حضرت میمونہؓ کے پاس اپنے نکاح کا پیغام لے کر بھیجا۔ حضرت میمونہؓ نے رشتہ منظور کر لیا اور اپنے بہنوئی حضرت عباس ؓ کو اپنے نکاح کا وکیل بنا دیا۔ یہ واقعہ صلح حدیبیہ کے ایک سال بعد کا ہے، ابھی نکاح نہیں ہو سکا تھا کہ رسول اللہ ﷺ عمرۃ القضاء، (۷ھ) کی نیت سے مکہ کے لئے تشریف لے گئے اس سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آپ کی ازواج مطہرات اور حضرت میمونہؓ بھی تھیں۔ اثنائے سفر ہی میں آپ کا نکاح حضرت میمونہؓ سے ہوا ہے۔ اس نکاح کے بارے میں روایات مختلف ہیں کہ آیا یہ نکاح احرام باندھنے سے پہلے ہوا ہے یا احرام باندھنے کے بعد ہوا۔ رسول اللہ ﷺ کے نکاح میں آنے والی یہ سب سے آخری زوجہ مطہرہ ہیں۔ آپ ﷺ نے حضرت معمونہؓ کا مہر چار سو ۴۰۰ درہم مقرر فرمایا تھا۔ عمرہ سے فارغ ہو کر مکہ ہی میں ولیمہ کرنے کا رادہ تھا لیکن اہل مکہ نمے تین دن سے زیادہ قیام کی اجازت نہ دی اس لئے رسول اللہ ﷺ نے مکہ سے واپسی میں مقام سرف میں ولیمہ فرمایا۔ یہ مقام مکہ سے دس میل دور بجانب مدینہ ہے۔ فضائل ام المومنین حضرت میمونہ ؓ تین سال رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہی ہیں۔ ذیقعدہ ۷ھ میں ان کا نکاح ہوا ہے اور ربیع الاول ۱۰؁ھ میں رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی، تین سال کی قلیل مدت میں حضرت میمونہ ؓ نے آپ ﷺ کی صحبت سے بہت علم و فضل حاصل کیا۔ بہت سی ایسے مسائل اور دینی معلومات جو اکابر صحابہ کرامؓ کو بھی معلوم نہ ہوتے تھے ان کے علم میں ہوتے تھے۔ خصوصاً عورتوں سے متعلق مسائل اور غسل وغیرہ کے بعض مسائل کی احادیث، حدیث کی کتابوں میں ان کے واسطے سے روایات کی گئی ہیں۔ کل ان سے چھیالیس (۴۶) حدیثیں مروی ہیں۔ جن میں سات متفق علیہ ہیں۔ یعنی صحیح بخاری و صحیح مسلم میں مذکور ہیں۔ اور پاند صرف صحیح مسلم میں ہیں۔ باتی حدیث کی دوسری کتابوں میں ہیں۔ ان کے شاگردوں میں ان کے بھانجے عبداللہ بن عباسؓ، عبداللہ بن شدادؓ، عبدالرحمٰن بن سائبؓ، یزید ابن الاصم اور ان کے آزاد کردہ غلام سلیمان بن یسار اور سلیمان کے بھائی عطار بن یسار وغیرہم ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے کمال ایمان کی شہادت دی ہے۔ ابن سعد نے سند صحیح کی ساتھ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے الاخوات مومنات ميمونه وام الفضل واسماء (1) یعنی میمونہ، ان کی بہن ام الفضل اور اسماء تینوں بڑے درجے کی صاحب ایمان بہنیں ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے بھی ان کی دینداری اور صلہ رحمی کی بہت تعریف کی ہے، فرماتی ہیں انها كانت من اتقانا الله واصلنا للرحم (2) جس کا مطلب یہ ہے کہ میمونہ ہم لوگوں میں خوف خدا اور صلہ رحمی میں ممتاز مقام رکھتی تھیں۔ ان کے بھانجے یزید بن الاصم ذکر کرتے ہیں کہ ہماری خالہ بہت کثرت سے نماز پڑھتی تھیں، گھر کے کام بھی خود کرتی تھیں اور مسواک کرنے کا خاص اہتما فرماتی تھیں۔ غلام آزاد کرنے کا بہت شوق تھا۔ ایک دفعہ باندی آزاد کی تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں دیا دی۔ "اللہ تم کو اس کا اجر عطا فرمائے۔" وفات ام المومنین حضرت میمونہ ؓ کی وفات ۵۱ھ میں مقام سرف میں ہوئی۔ آپ حج یا عمرہ کے سلسلہ میں مکہ معظمہ آئی ہوئی تھیں۔ وہیں طبیعت خراب ہوئی اپنے بھانجے حضرت یزید بن الاصم سے کہا کہ مجھے مکہ سے لے چلو اس لئے کہ مکہ میں میرا انتقال نہیں ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے پہلے ہی اطلاع دے دی ہے کہ تم کو مکہ میں موت نہیں آئے گی۔ یزید بن الاصم کہتے ہیں کہ ہم لوگ آپ کو بحالت مرض ہی مکہ سے لے کر چلے ابھی مقام سرف ہی میں پہنچے تھے کہ آپ کا انتقال ہو گیا۔ (3) سرف مکہ سے ۹ یا ۱۰ میل دور بجانب مدینہ ایک جگہ ہے۔ بعض اصحاب سیر نے لکھا ہے کہ آپ کا نکاح پھر ولیمہ بھی ۷ ھ میں مقام سرف مین ہوا ہے۔ اور ۵۱ھ میں انتقال بھی مقام سرف میں ہی ہوا ہے۔ (1) نماز جنازہ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ نے پڑھائی۔ جنازہ کو اٹھاتے وقت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا، یہ رسول اللہ ﷺ کی زوجہ مطہرہ کا جنازہ ہے لہذا جنازہ کو ادب و احترام کے ساتھ اٹھاؤ اور آہستہ آہستہ لے کر چلو۔ قبر میں عبداللہ بن عباسؓ، یزدی ابن الاصم اور عبیداللہ بن شداد نے اتارا۔ یہ تینوں ہی ام المومنین حضرت میمونہؓ کے بھانجے ہیں۔ عمرۃ القضاء سے واپسی میں مقام سرف میں جس جگہ رسول اللہ ﷺ نے آپ کے لئے خیمہ لگوایا تھا قبر مبارک بالکل اسی جگہ بنی۔ امہات المومنین میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے نکاح میں آئیں اور سب سے آخر میں ام المومنین حضرت میمونہ ؓ کا نکاح ہوا۔ حدیث و سیرت کی مستند کتابوں میں جن گیارہ امہات المومنین کا تذکرہ ہے الحمدللہ ان کی کسی قدر سوانح اور فضائل کا بیان ام المومنین حضرت میمونہؓ کے فضائل کے ذکر پر مکمل ہو گیا ہے۔ رضی اللہ عنھن وارضاھن۔ اب رسول اللہ ﷺ کی ذریت طیبہ کا ذکر اور ان کے فضائل کا بیان شروع ہو گا۔ ذریت طیبہ ام المومنین حضرت میمونہ ؓ کے تذکرہ پر ازواج مطہرات رضوان اللہ تعالیٰ وعلیہن کے فضائل کا بیان اختتام کو پہنچا۔ اب رسول اللہ ﷺ کی ذریت طیبہ کا تذکرہ اور ان کے فضائل کا بیان شروع ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی اولاد کی تعداد کے بارے میں سخت اختلاف ہے۔ (1) بظاہر راجح قول یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی اولاد کی تعداد سات (۷) ہے۔ جن میں صرف ابراہیم نام کے ایک صاحبزادہ تو آپ کی باندی حضرت ماریہ قبطیہ ؓ کے بطن سے پیدا ہوئے، باقی سب ام المومنین حضرت خدیجہؓ کی اولاد ہیں۔ ام المومنین حضرت خدیجہؓ الکبریٰ ؓ کے فضائل کے بیان میں عم محترم حضرت مولانا نعمانی صاحب دامت برکاتہم نے تحریر فرمایا تھا اس رشتہ ازدواج کے کچھ مدت کے بعد (ایک مشہور تاریخی روایت کے مطابق پانچ سال بعد) آپ کے پہلے صاحبزادے پیدا ہوئے جن کا نام "قاسم" رکھا گیا۔ انہیں کے نام پر رسول اللہ ﷺ نے اپنی کنیت "ابو القاسم" رکھی، ان کا صغر سنی ہی میں انتقال ہو گیا، ان کے بعد آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی "زینب" پیدا ہوئیں۔ ان دونوں کی پیدائش آغاز نبوت میں ہوئی اسی لئے ان کو طیب اور طاہر کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ان کا انتقال بھی صغر سنی ہی میں ہو گیا۔ پھر ان کے بعد مسلسل تین صاحبزادیاں پیدا ہوئیں۔ جن کے نام رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہؓ رکھے گئے۔ صاحبزادگان جتنے بھی رہے ہوں سب ہی صغر سنی میں وفات پا گئے تھے البتہ بنات طہرات یعنی صاحبزادیاں سب ہی سن رشد کو پہنچیں، سب نے زمانہ اسلام پایا، مشرف باسلام ہوئیں، مکہ سے مدینہ کو ہجرت بھی کی اور رسول اللہ ﷺ ہی نے ان سب کی شادیاں بھی کیں۔ اس لئے تذکرے صرف بنات طاہرات ہی کے کریں گے بنات طاہرات میں سب سے بڑی حضرت زینبؓ ہیں، لہذا سب سے پہلے انہیں کا تذکرہ اور ان کے فضائل کا ذکر کرتے ہیں۔ حضرت زینب ؓ حضرت زینب ؓ رسول اللہ ﷺ کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں آپ کی ولادت رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے دس سال پہلے ہوئی۔ بعض سیرت نگاروں کے نزدیک تو آپ ﷺ کی ذریت طیبہ میں سب سے بڑی ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ آپ سے پہلے آپ کے ایک بھائی قاسم نام کے پیدا ہوئے تھے جیسا کہ ابھی گذر چکا ہے۔ بہرحال صاحبزادیوں میں آپ سب سے بڑی تھیں۔ نکاح آپ کا نکاح ابو العاص بن ربیع جو آپ کی خالہ ہالہ بنت خویلد کے صاحبزادے تھے، سے ہوا تھا۔ ابو العاص بہت ہی شریف اور سلیم الطبع شخص تھے۔ حضرت زینب اور ابو العاص دونوں کو ایک دوسرے سے غیر معمولی محبت اور تعلق تھا۔ اور زندگی بھر یہ تعلق برقرار رہا۔ رسول اللہ ﷺ نے جب مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی تھی تو اپنے اہل خانہ کو اپنے ساتھ لا سکے تھے۔ حضرت زینبؓ اپنی سسرال یعنی ابو العاصؓ کے گھر پر ہی تھیں ابو العاصؓ اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے۔ یہاں تک کہ ۲ھ میں غزوہ بدر میں مشرکین مکہ کے ساتھ ابو العاصؓ بھی جنگ کرنے کے لئے بدر پہنچے تھے اور پھر بدر کے قیدیوں کے ساتھ قید کر کے مدینہ لائے گئے تھے۔ جس طرح اور قیدیوں کے رشتہ داروں نے اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لئے بطور فدیہ مال بھیجا تھا۔ حضرت زینب نے بھی ابو العاصؓ کی رہائی کے لئے مال بھیجا تھا۔ (1) رسول اللہ ﷺ نے ان کو اس شرط پر رہا کر دیا تھا کہ وہ مکہ پہنچ کر حضرت زینبؓ کو مدینہ بھیج دیں گے۔ ابو العاص نےمکہ پہنچ کر اپنے بھائی کنانہ کے ساتھ حضرت زینبؓ کو اونٹ پر بٹھا کر مدینہ کے لئے روانہ کر دیا۔ ابھی مکہ سے نکل کر مقام ذی طویٰ ہی تک پہنچے تھے کہ بعض مشرکین مکہ نے آ گھیرا کہ محمد (ﷺ) کی بیٹی کو ہم مدینہ نہیں جانے دیں گے انہیں میں سے ایک شخص نے حضرت زینبؓ کے نیزہ مارا جس کی وجہ سے وہ اونٹ سے گر گئیں اور بہت زخمی ہو گئیں ابو العاصؓ کے بھائی کنانہ نے اپنا تیر کمان سنبھالا اور کہا کہ اب اگر کوئی قریب آیا تو اس کی خیر نہیں ہے۔ سب لوگ اپنی جگہ پر ٹھہر گئے لیکن اس پورے واقعے کی خبر مکہ والوں کو پہنچ گئی ابو سفیانؓ جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اور اہل مکہ کے سرداروں میں شمار ہوتے تھے چند سربرآوردہ لوگوں کو لے کر کنانہ سے گفتگو کرنے کے لئے آئے اور یہ کہا کہ تمہیں معلوم ہی ہے کہ ہم لوگوں نے ابھی غزوہ بدر میں محمد (ﷺ) اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھوں کتنی تکلیفیں اور رسوائیاں برداشت کی ہیں اگر تم محمد (ﷺ) کی بیٹی کو اس طرح علی الاعلان لے جاؤ گے تو اس میں ہماری مزید ذلت و رسوائی ہو گی۔ ایسا کرو کہ جب معاملہ ذرا ٹھنڈا ہو جائے تو رات کی تاریکی میں نکال لے جانا۔ کنانہ نے بھی اسی کو غنیمت سمجھا اور حضرت زینبؓ کو دوبارہ ابو العاص کے گھر پہنچا دی گئیں اور حسب وعدہ چند دن کے بعد پھر کنانہ ہی کے ساتھ مدینہ کے لئے روانہ ہو گئیں۔ ادھر رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن حارثہؓ اور ایک اور انصاری صحابیؓ کو بطن یا جج نام کے ایک مقام تک حضرت زینبؓ کو لانے کے لئے بھیج دیا تھا۔ کنانہ بطن یا جج پہنچ کر حضرت زینبؓ کو ان دونوں حضراات کے حوالے کر کے مکہ واپس چلے گئے۔ اس طرح حضرت زینب ؓ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی ۶ھ میں ابو العاص پھر ایک جنگ میں قید کر کے مدینہ لائے گئے اس وقت بھی حضرت زینبؓ کام آئیں اور انہوں نے ابو العاصؓ کو اپنی پناہ میں لے لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینبؓ کی سفارش پر ابو العاصؓ کو رہا فرما دیا۔ ابو العاصؓ مکہ واپس ہوئے اور لوگوں کی امانتیں جو ان کے پاس تھیں واپس کیں اور اسلام لا کر مدینہ طیبہ حاضر ہو گئے حضرت زینبؓ اور ابو العاصؓ کے درمیان کئی سال علیحدگی رہی لیکن نہ ابو العاصؓ نے اپنی شادی کی اور نہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینبؓ کا نکاح کہیں اور کیا، اب جب کہ حضرت ابو العاصؓ مسلمان ہو کر مدینہ آ گئے تو آپ نے پھر حضرت زینبؓ کا نکاح انہیں سے کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک میں حضرت ابو العاص ؓ کا ان کی شرافت، ایفائے عہد اور حضرت زینب کے ساتھ ان کے حسن تعلق کی وجہ سے بڑا مقام تھا اور آپ اس کا اظہار بھی فرماتے تھے۔ اسی سلسلے میں صحیح بخاری و صحیح مسلم کی ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ کے بہت بلند کلمات حضرت ابو العاصؓ کی تعریف میں مذکور ہیں۔ (1) فضائل حضرت زینبؓ کے شرف کے لئے یہ کیا کم ہے کہ آپ جگر گوشہ رسول اللہ ﷺ ہیں، پھر وہ بالکل اولین ایمان لانے والوں میں ہیں، اپنی والدہ حضرت خدیجہ ؓ کے ساتھ ہی انہوں نے کلمہ شہادت پڑھا اور حلقہ بگوش اسلام ہو گئی تھیں۔ پھر شوہر سے غیر معمولی محبت اور تعلق بھی ان کے لئے ایمان پر ثابت قدم رہنے، رسول اللہ ﷺ سے محبت کرنے اور ہجرت سے مانع نہ ہو دکا اور وہ اپنے شوہر کو مکہ میں چھوڑ کر غزوہ بدر کے بعد جلدی ہی ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے آئیں۔ رسول اللہ ﷺ کو بھی ان سے بہت محبت تھی۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ان کی ہجرت کے وقت جب حضرت زینبؓ کے زخمی ہونے کی اطلاع آپ ﷺ کو ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا هى افضل بنائى اصيبت فى یہ میری بہترین بیٹی ہیں جو میری وجہ سے اس مصیبت میں مبتلا ہوئی ہیں۔ (2) وفات ۶؁ھ میں حضرت ابو العاصؓ مدینہ طیبہ آئے ہیں اور آپ نے حضرت زینبؓ کا نکاح دوبارہ ان کے ساتھ کیا ہے اور ۸؁ھ میں حضرت زینب ؓ کی وفات ہو گئی ہے، رسول اللہ ﷺ پر ان کی وفات کا بہت اثر تھا۔ ان کے غسل اور کفن کے سلسلہ میں غسل دینے والی عورتوں کو آپ ﷺ خود ہدایات دے رہے تھے اور کفن کے لئے اپنی استعمال فرمائی ہوئی لنگی عنایت فرمائی تھی۔ حضرت ام عطیہؓ جو غسل دینے والی عورتوں مین شامل تھیں ان کی روایت کے الفاظ صحیح مسلم اس طرح ہیں عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: لَمَّا مَاتَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اغْسِلْنَهَا وِتْرًا ثَلَاثًا، أَوْ خَمْسًا، وَاجْعَلْنَ فِي الْخَامِسَةِ كَافُورًا، أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ، فَإِذَا غَسَلْتُنَّهَا، فَأَعْلِمْنَنِي» قَالَتْ: فَأَعْلَمْنَاهُ، فَأَعْطَانَا حَقْوَهُ وَقَالَ أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ (1) حضرت ام عطیہؓ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ کی وفات ہوئی تو آپ نے ہم غسل دینے والی عورتوں سے فرمایا کہ طاق دفعہ غسل دینا خواہ تین بار یا پانچ بار اور پانچویں مرتبہ غسل دینے کے لئے پانی میں کافور ملا لینا یا آپ ﷺ نے فرمایا کہ تھوڑا سا کافور ملا لینا۔ اور جب غسل دے کر فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع کر دینا۔ حضرت ام عطیہؓ فرماتی ہیں کہ جب ہم عورتیں غسل سے فارغ ہو گئیں تو آپ ﷺ کو اطلاع کر دی آپ ﷺ نے کفن کے لئے اپنی مبارک لنگی عنایت فرمائی اور فرمایا اس کو کفن مین سب سے اندر کی طرف حضرت زینبؓ کے جسم سے ملا کر استعمال کرنا۔ نماز جنازہ رسول اللہ ﷺ نے پڑھائی اور آپ ﷺ نے اور حضرت ابو العاصؓ نے قبر میں اتارا۔ ہجرت کے وقت جو چوٹ لگی تھی اس کی تکلیف وفات تک باقی رہی اسی لئے بعض علماء نے لکھا ہے کہ حضرت زینبؓ کو مقام شہادت بھی نصیب ہوا۔ (2) اولاد آہ کے ایک صاحبزادے علی نام کے تھے اور ایک صاحبزادی امامہ نامی تھیں، دونوں بچوں سے رسول اللہ ﷺ کو بہت محبت تھی۔ صحیحین کی روایت کے مطابق کبھی کبھی حالت نماز میں آپ ﷺ کی یہی نواسی حضرت امامہ آپ کے کندھے پر سوار ہو جایا کرتی تھیں اور آپ کو ان کا یہ عمل ناگوار بھی نہ ہوتا تھا آپ ﷺ کے یہ نواسے حضرت علیؓ فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کی اونٹنی پر سوار تھے اور جنگ یرموک میں شہید ہوئے۔ (3) ؓ وارضاھم۔ حضرت رقیہ ؓ صاحبزادیوں میں حضرت زینب ؓ کے بعد دوسرے نمبر پر حضرت رقیہ ؓ ہیں۔ جس وقت حضرت رقیہ پیدا ہوئی ہیں آپ ﷺ کی عمر تینتیس (۳۳) سال تھی۔ (4) پچپن ہی میں آپ نے حضرت رقیہؓ کا نکاح ابو لہب کے بیٹے عتبہ سے اور دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثومؓ کا نکاح ابو لہب ہی کے دوسرے بیٹے عتیبہ سے کر دیا تھا۔ اس وقت تک رسول اللہ ﷺ کی بعثت نہیں ہوئی تھی۔ ابھی دونوں کی رخصتی کی نوبت بھی نہ آ پائی تھی۔ کہ رسول اللہ ﷺ کو نبوت مل گئی اور آپ ﷺ نے دین کی دعوت شروع کی، ابو لہب نے آپ ﷺ کی دشمنی اور مخالفت میں اپنے دونوں بیٹوں کو یہ حکم دیا کہ تم لوگ اگر مجھ سے تعلق رکھنا چاہتے ہو تو محمد (ﷺ) کی بیٹیوں سے علیحدگی اختیار کر لو، بیٹوں نے باپ کے کہنے کے مطابق عمل کیا جس کی وجہ سے دونوں صاحبزادیاں رقیہؓ اور ام کلثومؓ رشتہ نکاح سے آزاد ہو گئیں۔ پھر آپ ﷺ نے حضرت رقیہ ؓ کا نکاح ہجرت سے پہلے ہی حضرت عثمان ؓ سے کر دیا تھا۔ (5) مشرکین مکہ کی ایذار رسانی کی بنا پر جن صحابہ کرامؓ نے حبشہ کو ہجرت کی تھی ان میں اول ہجرت کرنے والوں میں حضرت عثمانؓ اور حضرت رقیہؓ بھی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کی ہجرت کے موقع پر فرمایا تھا ان عثمان اول من هاجر باهله بعد لوط۔ یعنی لوط علیہ السلام کے بعد اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہجرت کرنے والے سب سے پہلےشخص حضرت عثمانؓ ہیں۔ حضرت عثمانؓ اور حضرت رقیہؓ دونوں کو اللہ تعالیٰ نے ظاہری حسن و جمال سے بھی خوب نوازا تھا مکہ میں اتنا حسین و جمیل جوڑا اور کوئی نہ تھا۔ حضرت عثمانؓ کے خاندان کی بعض عورتوں نے ان دونوں کی شان میں قصیدہ بھی کہا تھا۔ زرقانی نے کچھ اشعار اس قصیدے کے ذکر کئے ہیں جس میں مذکور ہے کہ کسی نے بھی ایسا حسین و جمیل جوڑا نہیں دیکھا۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت عثمانؓ اور حضرت رقیہؓ حبشہ سے مکہ واپس آ گئے اور پھر رسول اللہ ﷺ کے ہجرت فرمانے کے بعد دونوں مدینہ طیبہ ہجرت کر گئے۔ حبشہ کے زمانہ قیام میں حضرت رقیہؓ کے یہاں ایک صاحبزاے پیدا ہوئے جن کا نام عبداللہ رکھا تھا چھ سال کی عمر میں اس بچہ کا انتقال ہو گیا پھر غالباً کوئی اور اولاد نہیں ہوئی۔ جب آپ ﷺ غزوہ بدر کے لئے تشریف لے گئے تھے اس وقت حضرت رقیہؓ کی طبیعت بہت خراب تھی ان کی دیکھ بھال اور تیمارداری کے لئے آپ ﷺ نے حضرت عثمانؓ کو غزوہ بدر میں شرکت سے روک دیا تھا وہ مدینہ میں ہی رہ گئے تھے بدر کی فتح کی خوشخبری تو مدینہ آ گئی تھی لیکن آپ ﷺ ابھی تشریف نہیں لائے تھے کہ حضرت رقیہؓ کی وفات ہو گئی، واپس آنے پر جب علم ہوا تو آپ کو بہت صدمہ ہوا قبر پر تشریف لے گئے اور وہاں بیٹھ کر آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور اتنا روئے کہ آنسو قبر پر گرنے لگے۔ (1) ؓ وارضاہا۔ حضرت ام کلثوم ؓ رسول اللہ ﷺ کی تیسری صاحبزادی حضرت ام کلثومؓ بھی بعثت نبوی سے پہلے ہی پیدا ہوئی تھیں اور اسلام ہی کے آغوش میں ہوش سنبھالا تھا۔ حضرت رقیہؓ کے تذکرہ میں یہ بات گذر چکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی دونوں بیٹیوں حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم ؓ کا نکاح بچپن ہی میں ابو لہب کے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے کر دیا تھا۔ اور جب آپ ﷺ نے اللہ کی توحید اور اپنی نبوت کی دعوت دی تو ابو لہب نے آپ کی سخت مخالفت کی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس نے اپنے دونوں بیٹوں کو آپ ﷺ کی دونوں صاحبزادیوں سے علیحدگی اختیار کرنے کو کہا، دونوں نے اپنے باپ کے کہنے پر رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادیوں سے علیحدگی اختیار کر لی اور دونوں صاحبزادیوں کا یہ قصہ نکاح رخصتی سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔ (2) پھر آپ ﷺ نے حضرت رقیہؓ کا نکاح حضرت عثمان ؓ سے کر دیا اور جب ۲ھ میں حضرت رقیہؓ کا انتقال ہو گیا تو کچھ دنوں کے بعد آپ نے حضرت ام کلثومؓ کا نکاح بھی حضرت عثمانؓ سے کر دیا۔ا ور یہ سعادت حضرت عثمان ؓ کے نصیب میں آئی کہ وہ یکے بعد دیگرے آپ کی دو صاحبزادیوں کے شوہر بنے اور ذو النورین کے لقب سے نوازے گئے۔ حضرت رقیہؓ کے انتقال کے بعد جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثومؓ کا نکاح حضرت عثمانؓ سے کر دیا اور حضرت عثمانؓ کی حیات ہی میں حضرت ام کلثوم ؓ کی بھی وفات ہو گئی تو آپ نے فرمایا لو كان عندى ثالثة لزوجتها یعنی میں نے یکے بعد دیگرے اپنی دو بیٹیاں عثمان سے بیاہ دیں اور اب دوسری کا بھی انتقال ہو گیا اور عثمان بے بیوی کے رہ گئے اگر میری کوئی تیسری بیٹی ہوتی جو عثمانؓ سے بیاہی جا سکتی تو ضرور میں اس کی شادی بھی عثمان سے کر دیتا۔ (1) عتیبہ نے جس وقت حضرت ام کلثومؓ سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا اسی وقت اس نے آپ ﷺ کی شام میں گستاخی بھی کی تھی دونوں باتوں سے آپ کو سخت تکلیف پہنچی تھی اور زبان مبارک سے اللهم مسلط عليه كلبا من كلابك بد دعا نکلی تھی۔ (2) کہ اے اللہ اس کے اوپر اپنے کتوں میں سے کوئی کتا مسلط فرما دے۔ اس بددعا کا علم جب ابو لہب کو ہوا تو وہ گھبرا گیا اور بیٹے کی جان کی فکر پڑ گئی، کچھ دنوں کے بعد یہ باپ نے ملک شام کے ایک سفر میں تھے ایک جگہ قافلہ نے قیام کیا وہاں کے لوگوں نے بتلایا کہ اس علاقہ میں شیر آگے جاتے رہتے ہیں۔ ابو لہب کو آپ کی بددعا یاد تھی، اس نے بیٹے کی حفاظت کی تمام تدبیریں کر ڈالیں لیکن زبان نبوت سے نکلی ہوئی بددعا خالی نہ گئی اور شیر سب تدبیروں کے باوجود (جن کی تفصیل زرقانی میں ہے) عتیبہ کو اٹھا لے گیا۔ حضرت ام کلثومؓ کا نکاح جب حضرت عثمانؓ سے ہوا اس سے پہلے ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ حضرت عمرؓ نے اپنی بیٹی حضرت حفصہؓ جو کچھ دن پہلے ہی بیوہ ہوئی تھیں کا نکاح حضرت عثمان سے کرنے کی پیش کش کی حضرت عثمان نے صاف انکار تو نہیں کیا لیکن ا ثبات میں بھی جواب نہیں دیا۔ حضرت عمرؓ نے اس کی شکایت رسول اللہ ﷺ سے کی، آپ نے فرمایا کہ کیا میں تمہاری بیٹی کے لئے عثمان سے بہتر شوہر اور عثمان کے لئے تمہاری بیٹی سے بہتر بیوی نہ بتلاؤں۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا ضرور، اس پر آپ نے فرمایا اپنی بیٹی حفصہ کا نکاح مجھ سے کر دو اور میں اپنی بیٹی ام کلثومؓ کا نکاح عثمان سے کئے دیتا ہوں۔ (3) فضائل مذکورہ واقعہ سے حضرت ام کلثومؓ کی فضیلت کا اظہار ہوتا ہے کہ ان کو آپ نے حضرت حفصہؓ سے بھی افضل قرار دیا۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی اور بالکل اول اول ایمان لانے والے صحابہ کرامؓ میں ہیں، آپ کو ان سے محبت بھی بہت تھی جس کا اظہار عتیبہ کے واقعہ سے ہوتا ہے پھر آپ نے ہی نماز جنازہ پڑھائی، خود دفن میں شرکت فرمائی جیسا کہ ابھی آئے گا۔ وفات ۳؁ھ میں آپ کا نکاح حضرت عثمانؓ کے ساتھ ہوا ہے اور تقریباً چھ سال کے بعد ۹؁ھ میں آپ کا انتقال ہو گیا۔ (1) رسول اللہ ﷺ اس وقت مدینہ طیبہ ہی میں تشریف رکھتے تھے۔ حضرت ام عطیہ ؓ اور بعض دیگر صحابیاتؓ نے غسل دیا حضرت زینبؓ کے غسل کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کی جن ہدایات کا ذکر حضرت زینبؓ کے تذکرہ میں گذر چکا ہے کہ آپ نے غسل دینے والی عورتوں سے فرمایا تھا کہ تین بار یا پانچ بار غسل دینا اور آخر میں کافور ملے ہوئے پانی کا استعمال کرنا اور جب فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا اور بعد فراغت جب اصحابیاتؓ نے آپ کو غسل سے فارغ ہونے کی اطلاع دی تو آپ نے اپنا تہبند یہ کہہ کر عنایت فرمایا کہ اس کو کفن میں اس سے اندر کی کی طرف استعمال کریں۔ بعض شارحین حدیث نے غسل و کفن کی اس روایت کو حضرت ام کلثومؓ کی وفات سے متعلق ذکر کیا ہے۔ اور بعض یہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ واقعہ دونوں بیٹیوں کے ساتھ پیش آیا ہو۔ اس لئے کہ دونوں ہی آپ کی بیٹیاں تھیں اور روایت میں نام نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بقیع میں دفن فرمایا۔ ؓ وارضاہا۔ حضرت فاطمہ زہرا ؓ رسول اللہ ﷺ کی سب سے چھوٹی اور سب سے زیادہ محبوب صاحبزادی حضرت فاطمہ زہرا ؓ کی ولادت بعض مورخین نے بعثت سے پانچ سال پہلے اور بعض نے صرف ایک سال پہلے ذکر کی ہے۔ لیکن اس پر اتفاق ہے کہ آپ بعثت سے پہلے ہی پیدا ہوئی ہیں۔ (2) پھر ہجرت تک رسول اللہ ﷺ ہی کے ساتھ رہیں۔ ہجرت کے موقع پر آپ ان کو مکہ ہی میں چھوڑ آئے تھے بعد مین ان کو بلوایا ہے اور ۲ھ میں غزوہ بدر کے کچھ بعد حضرت علی ؓ سے آپ کا نکاح ہوا۔ (3) چونکہ حضرت علیؓ بھی رسول اللہ ﷺ ہی کے تکفل میں تھے اور ان کا کوئی گھر علیحدہ نہ تھا اس لئے آپ نے ان کا گھر بسانے کے لئے کچھ ضروری گھریلو سامان اس موقع پر عنایت فرمایا تھا۔ جس میں ایک چادر، ایک مشکیزہ، چمڑے کا ایک گدا، جس میں اذخر نام کی گھاس بھری ہوئی تھی وغیرہ چند چیزیں تھیں۔ یہ سامان مروجہ جہیز کی قسم سے نہ تھا اس لئے جہیز کا ثبوت نہ ازواج مطہرات کے کسی نکاح میں ہے نہ دیگر بنات طاہرات کے نکاح کے موقع پر آپ نے کچھ دیا ہے اور نہ اہل عرب میں اس کا رواج تھا۔ حضرت علیؓ نے مہر میں اپنی درع یا اس کی قیمت دی تھی ان کے پاس مہر ادا کرنے کے لئے اس کے سوا کچھ نہ تھا۔ اولاد آپ کے تین بیٹے حسن حسین اور محسن پیدا ہوئے۔ محسن کی وفات بچپن ہی میں ہو گئی اور حضرت حسن اور حضرت حسین ؓ بہت بعد تک حیات رہے۔ ان تینوں کے علاوہ دو بیٹیاں حضرت زینبؓ اور حضرت ام کلثومؓ بھی پیدا ہوئیں جو بعد تک زندہ رہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی اولاد میں صرف حضرت فاطمہ زہرا ؓ ہی سے آپ ﷺ کی نسل چلی ہے دیگر صاحبزادیوں کے یہاں یا تو اولاد ہی پیدا نہیں ہوئی یا جلد ہی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ فضائل حضرت فاطمہ زہرا ؓ رسول اللہ ﷺ کی بہت ہی محبوب اور چہیتی بیٹی تھیں ان سے رسول اللہ ﷺ کو غیر معمولی محبت تھی۔ ایک بار آپ نے فرمایا احب اهلى الى فاطمه (1) مجھے اپنے گھر والوں میں فاطمہ سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ ان کی تکلیف آپ کے لئے ناقابل برداشت ہوتی تھی۔ حضرت علی رسول اللہ ﷺ، ابو جہل کی لڑکی سے شادی کرنا چاہی حضرت فاطمہؓ نے آپ سے اس کی شکایت کر دی، آپ کو حضرت علیؓ کے اس ارادے سے سخت تکلیف پہنچی اور آپ ﷺ نے مسجد میں خطبہ میں اپنی اس تکلیف اور ناگواری کا اظہار فرمایا اور اسی خطبہ میں یہ بھی ارشاد فرمایا فاطمة بضعة منى فمن اغضبها اغضبى فاطمہ میرا جزو بدن ہیں جس نے ان کو غصہ دلایا اس نے مجھے غصہ دلایا۔ الفاظ کے جزوی اختلاف کے ساتھ یہ روایت بخاری و مسلم، ابو داؤد، ترمذی وغیرہ حدیث کی تقریباً سب ہی کتابوں میں ہے۔ (2) حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہ ؓ اپنے انداز گفتگو میں رسول اللہ ﷺ کے سب سے زیادہ مشابہ تھیں اور ان کے چلنے کا انداز بھی بالکل آپ ﷺ ہی کی طرح تھا اور آپ کا معمول یہ تھا کہ جب فاطمہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ ان کے استقبال کے لئے کھڑے ہو جاتے اور ان کو مرحبا کہتے اور کہتی ہیں کہ حضرت فاطمہؓ کا معمول بھی آپ کے ساتھ یہی تھا۔ (3) جب آپ سفر پر تشریف لے جاتے تو جاتے وقت سب سے آخر میں حضرت فاطمہؓ سے مل کر جاتے اور واپسی میں سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ سے ملتے۔ (4) حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ مرض وفات میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہؓ کو اپنے قریب بلایا اور کان میں کچھ فرمایا حضرت فاطمہؓ رونے لگیں۔ دوبارہ آپ ﷺ نے ان کے کان میں کچھ کہا تو وہ مسکرا دیں۔ بعد میں مین نے اس کا سبب دریافت کیا تو کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے راز کو ظاہر نہیں کروں گی۔ لیکن جب آپ ﷺ کی وفات کے بعد میں نے اس واقعہ کے بارے میں معلوم کیا تو فرمایا اب بتلاتی ہوں۔ پہلی بار تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ میرا خیال ہے کہ میری وفات کا وقت قریب آ چکا ہے۔ جس پر مجھے رونا آ گیا تھا۔ دوسری بار آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میرے پاس میرے گھر کے لوگوں میں سب سے جلد آنے والی ہو۔ اس پر مجھے ہنسی آئی تھی۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے دوسری بار یہ فرمایا تھا کہ کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم جنت میں تمام عورتوں کی سردار ہو۔ بظاہر آپ ﷺ نے دونوں ہی باتیں فرمائی تھیں۔ (1) علاوہ ازیں حضرت فاطمہؓ کی فضیلت کی احادیث کتب حدیث میں بڑی کثرت سے مروی ہیں۔ وفات رسول اللہ ﷺ کی وفات کا غم تمام صحابہ کرامؓ کے لئے جان لیوا تھا۔ حضرت فاطمہؓ تو اب اکلوتی بیٹی تھین، پھر ان کو آپ ﷺ سے اور آپ ﷺ کو ان سے جو غیر معمولی محبت تھی جس کا کچھ ذکر ابھی گذرا ہے اس کی وجہ سے تو یہ غم واقعی جان لیوا ثابت ہواو اور آپ اپنی زندگی ہی مین اس کی اطلاع بھی دے چکے تھے کہ تم سب سے پہلے میرے پاس آنے والی ہو۔ ابھی آپ کی وفات کو صرف چھ مہینے ہی گذرے تھے کہ حضرت فاطمہ ؓ نے بھی رخت سفر باندھ لیا اور اپنے والد ﷺ سے جا ملیں۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر ۲۹ سال یا ۲۴ سال بتلائی جاتی ہے۔ یہ اختلاف اصل میں سن ولادت کے اختلاف کی وجہ سے ہے اگر آپ کی ولادت بعثت سے پانچ سال پہلے ہے تو عمر ۲۹ سال ہو گی اور اگر ولادت کا سال بعثت سے صرف ایک سال پہلے ہے تو عمر مبارک صرف ۲۴ سال ہو گی۔ (2) ابن کثیر نے عمر مبارک ۲۹ سال اور حافظ ذہبی (3) نے ۲۴ سال ذکر کی ہے۔واللہ اعلم۔ حضرت علی ؓ نے نماز جنازہ بڑھائی اور جنت البقیع میں دفن فرمایا۔ ؓ وارضاہا۔ حضرت فاطمہؓ کے تذکرہ پر آپ کی بنات طیبات کا ذکر بھی مکل ہوا۔ حضرت حسن بن علی ؓ آپ کا اسم شریف حسن اور کنیت ابو محمد ہے۔ حسن نام رسول اللہ ﷺ ہی نے تجویز فرمایا تھا۔ (4) آپ کے والد حضرت علی ؓ اور والدہ جگر گوشہ رسول حضرت فاطمہ زہرا ؓ ہین۔ آپ حضرت علیؓ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ حضرت علی کی کنیت ابو الحسن آپ ہی کے نام کی وجہ سے ہے۔ ولادت رمضان ۳ھ میں آپ پیدا ہوئے، رسول اللہ ﷺ ولادت کی خبر پا کر حضرت علی کے گھر تشریف لے گئے، پیارے نواسے کو گود میں لیا، خود ان کے کان میں اذان دی اور عقیقہ کرایا اور بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ (1) اور اس طرح براہ راست ان ان کے کان میں پہلی آواز رسول اللہ ﷺ کی پہنچی اور جو بات پہلی بار کان میں پہنچی وہ بھی اذان تھی جو دین کی بھرپور دعوت ہے۔ بچپن کا بڑا حصہ رسول اللہ ﷺ ہی کے سایہ عاطفت میں گذرا ہے۔ آپ کی وفات کے وقت حضرت حسن ؓ کی عمر ۸ سال کی تھی۔ خلافت حضرت علی ؓ کی شہادت کے بعد کوفہ کی جامع مسجد میں کوفہ اور قرب و جوار کے مسلمانوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ حضرت علیؓ کے زمانہ خلافت ہی میں ان کے اور حضرت معاویہؓ کے مابین شدید اختلاف تھے ابھی حضرت حسن کی بیعت خلافت کو ۶ یا ۷ ماہ ہی گذرے تھے کہ قتل و قتال سے بچنے کے لئے حضرت حسنؓ نے حضرت معاویہؓ سے صلح کر لی اور بار خلافت سے حضرت معاویہؓ کے حق مین دست بردار ہو کر مدینہ طیبہ تشریف لے آئے اور رسول اللہ ﷺ کی پیشن گوئی ابنى هذا سيد ولعل الله ان يصلح به بين الفئتين من المسلمين یعنی میرا یہ بیٹا سید (سردار) ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کراوئے گا۔ صحیح ثابت ہو گئی۔ (2) اس مصالحت کے وقت حضرت حسنؓ نے جو بھی شرائط صلح حضرت معاویہؓ کے سامنے رکھے حضرت معاویہؓ نے ان کو قبول فرما لیا اور مدت العمر ان کا لحاظ رکھا۔ (3) ان میں وافر مقدار میں مال کی شرف بھی تھی جو ان کے آرام و راحت کے ساتھ گذر اوقات کے لئے خوب کافی تھا۔ لیکن وہ اس مال کو اللہ کے راستہ میں خرچ کرتے تھےحتی کہ بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ اپنے موزے بھی اللہ کے راستہ میں خرچ کر دئیے اور صرف جوتے روک لئے۔ مدینہ پہنچ کر حضرت حسنؓ نے یکسوئی کی زندگی اختیار فرمائی اور عبادت و ریاضت اور دین کی تبلیغ کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا۔ آپ نے کئی شادیاں کیں اور ان سے دس یا اس سے بھی زیادہ بچے پیدا ہوئے۔ وفات ۵۰ھ یا ۵۱ھ میں کسی نے آپ کو زہر دے دیا اور یہی وجہ شہادت بن گیا۔ مدینہ کے امیر سعید بن العاصؓ نے نماز پڑھائی۔ ؓ وارضاہ۔ حلیہ آپ شکل و صورت میں رسول اللہ ﷺ کے بہت مشابہ تھے۔ ایک موقع پر حضرت ابو بکرؓ نے حضرت حسنؓ کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور حضرت علیؓ کے سامنے فرمایا کہ حسن تمہارے مشابہ نہیں ہیں یہ تو رسول اللہ ﷺ کے مشابہ ہیں۔ حضرت علیؓ سنتے رہے اور ہنستے رہے۔ (4) امام ترمذیؓ نے حضرت انسؓ کا یہی قول نقل کیا ہے۔ (5) فضائل حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ کے فضائل بڑی حدی تک مشترک ہیں اس لئے ان کے مناقب و فضائل بھی حضرت حسینؓ کے تذکرہ کے بعد ہی ذکر کئے جائیں گے محدثین میں امام بخاری، امام مسلمؒ اور امام ترمذیؒ وغیرہم نے بھی ایسا ہی کیا ہے کہ دونوں کے فضائل و مناقب ایک ساتھ ہی ذکر کئے ہیں۔ حضرت حسین بن علی ؓ رسول اللہ ﷺ کے دوسرے نواسے اور حضرت علی و حضرت فاطمہؓ زہرا کے چھوٹے صاحبزادے حضرت حسینؓ کی ولادت شعبان ۴؁ھ میں ہوئی، آپ ﷺ نے ہی ان کا نام حسین رکھا، ان کو شہد چٹایا، ان کے منہ میں اپنی زبان مبارک داخل کر کے لعاب مبارک عطا فرمایا اور ان کا عقیقہ کرنے اور بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ حضرت فاطمہؓ نے ان کے عقیقہ کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کی۔ (1) اپنے بڑے بھائی حضرت حسنؓ کی طرح حضرت حسین بھی رسول اللہ ﷺ کے مشابہ تھے اور آپ ﷺ کو ان سے بھی غیر معمولی محبت اور تعلق تھا جس کا کچھ تذکرہ مناقب و فضائل کے سلسلہ میں آئے گا۔ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو ان کی عمر صرف چھ یا سات سال تھی، لیکن یہ چھ سات سال آپ کی صحبت اور شفقت و محبت میں گذرے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکرؓ و حضرت عمرؓ نے خاص لطف و کرم اور محبت کا برتاؤ کیا۔ حضرت عمرؓ کے آخری زمانہ خلافت مں آپ نے جہاد میں شرکت شروع کی ہے اور پھر بہت سے معرکوں میں شریک رہے۔ حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں جب باغیوں نے ان کے گھر کا محاصرہ کر لیا تھا تو حضرت علیؓ نے اپنے دونوں بیٹوں حسنؓ اور حسینؓ کو ان کے گھر کی حفاظت کے لئے مقرر کر دیا تھا۔ حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد حضرت حسنؓ نے جب حضرت معاویہؓ سے مصالحت کر کے خلافت سے دستبرداری کے ارادہ کا اظہار کیا تو حضرت حسینؓ نے بھائی کی رائے سے اختلاف کیا لیکن بڑے بھائی کے احترام میں ان کے فیصلہ کو تسلیم کر لیا۔ البتہ جب حضرت حسنؓ کی وفات کے بعد حضرت معاویہؓ نے یزید کی خلافت کی بیعت لی تو حضرت حسینؓ اس کو کسی طرح برداشت نہ کر سکے اور یزید کے خلیفہ بن جانے کے بعد اپنے بہت سے مخلصین کی رائے و مشورہ کو نظر انداز کر کے جہاد کے ارادہ سے مدینہ طیبہ سے کوفہ کے لئے تشریف لے چلے ابھی مقام کربلا ہی تک پہنچے تھے کہ واقعہ کربلا کا پیش آیا اور آپ وہاں شہید کر دئیے گئے۔ ؓ وارضاہ۔ تارخ وفات ۱۰ محرم ۶۱ھ ہے اس وقت عمر شریف تقریباً ۵۵ سال تھی۔ جیسا کہ پہلے بھی حضرت فاطمہ زہراؓ کے تذکرہ میں گذر چکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی نسل حضرت فاطمہؓ ہی سے چلی ہے اور ان کی اولاد میں حضرات حسنین اور ان کی دو بہنیں حضرت زینب اور حضرت ام کلثوم ؓ اجمعین ہی آپ ﷺ کی بقاء نسل کا ذریعہ بنے ہیں۔ حضرات حسنینؓ کے فضائل و مناقب رسول اللہ ﷺ کے نواسے اور آپ کے صحابی ہونے کا شرف کیا کم ہے پھر آپ ﷺ کو حضرات حسنین ؓ سے بہت محبت بھی تھی۔ شفقت و محبت کا یہ عالم تھا کہ یہ دونوں بھائی بچپن میں حالت نماز میں آپ کی کمر مبارک پر چڑھ جاتے کبھی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں سے گزرتے رہتے اور آپ نماز میں بھی ان کا خیال کرتے۔ جب تک وہ کمر پر چڑھے رہتے آپ سجدہ سے سر نہ اٹھاتے۔ (1)آپ اکثر انہیں گود میں لیتے، کبھی کندھے پر سوار کرتے، ان کا بوسہ لیتے انہیں سونگتے اور فرماتے انكم لمن ريحان الله تم اللہ کی عطا کردہ خوشبو ہو۔ (2) ایسے ہی ایک موقعہ پر حضرت اقرع ابن حابس ؓ نے عرض کر دیا اے اللہ کے رسول! (ﷺ) میرے تو دس بیٹے ہیں لیکن میں نے آج تک کسی کا بوسہ نہیں لیا۔ آپ نے فرمایا انه من لا يرحم لا يرحم۔ جو رحم نہیں کرتا اس پر بھی من جانب اللہ رحم نہیں کیا جاتا۔ (3) حضرت فاطمہ زہراؓ کے تذکرہ، میں گذر چکا ہے۔ آیت تطہیر کے نزول کے بعد آپ نے حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ اور حضرات حسنینؓ کو اپنی ردائے مبارک میں داخل فرما کر اللہ سے عرض کیا اللهم هؤلاء اهل بيتى فاذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا۔ (4) اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے گندگی کو دور فرما دیجئے اور پاک و صاف کر دیجئے۔ صحیح بخاری میں حضرت عدی بن ثابتؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت حسنؓ کو اپنے کندھے پر سوار کئے ہوئے تھے اور یوں دعا کر رہے تھے اللهم ابنى احبه فاحبه، اے اللہ یہ مجھے محبوب ہے آپ بھی اسے اپنا محبوب بنا لیجئے۔ (5) امام بخاری نے ہی حضرات حسنینؓ کے مناقب مٰں حضرت ابن عمرؓ کا قول نقل کیا ہے کہ ان سے کسی عراقی نے مسئلہ دریافت کیا کہ محرم اگر مکھی مار دے تو کیا کفارہ ہے۔ حضرت ابن عمرؓ نے بڑی ناگواری سے جواب دیا کہ اہل عراق مکھی کے قتل کا مسئلہ پوچھنے آتے ہیں اور نواسہ رسول اللہ ﷺ (حضرت حسنینؓ) کو قتل کر دیا حالانکہ آپ نے اپنے دونوں نواسوں کے بارے میں فرمایا تھا ھما ریحانتای من الدنیا۔ یہ دونوں میرے لئے دنیا کی خوشبو ہیں۔ (6) امام ترمذی نے حضرت اسامہ بن زید کی حدیث ذکر کی ہے کہ میں کسی ضرورت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ گھر کے باہر اس حال میں تشریف لائے کہ آپ ﷺ دونوں کوکھوں پر (یعنی گود میں) کچھ رکھے ہوئے تھے اور چادر اوڑھے ہوئے تھے، میں جب اپنے کام سے فارغ ہو گیا تو عرض کیا یہ کیا ہے آپ ﷺ نے چادر ہٹا دی میں نے دیکھا کہ ایک جانب حسنؓ اور دسری جانب حسینؓ ہیں، اور فرمایا۔ هذان ابنى وابنا ابنتى اللهم من احبهما فاحبهما واحب من يحبهما۔ (1) اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں آپ بھی ان سے محبت فرمائیے اور جو ان سے محبت کرے اس کو بھی اپنا محبوب بنا لیجئے۔ "اللهم انى احبهما فاحبهما" اے اللہ میں ان دونوں کو محبوب رکھتا ہوں آپ بھی ان کو اپنا محبوب بنا لیجئے کہ دعائیہ کلمات صحیح سندوں سے حدیث کی متعدد کتابوں میں مروی ہیں اور اس میں کیا شک ہے کہ آپ کے یہ دونوں نواسے اللہ کے بھی محبوب اور اللہ کے رسول کے بھی محبوب اور ان دونوں سے محبت رکھنے والے بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے محبوب ہیں، ایک بار ایسا ہوا کہ آپ خطبہ دے رہے تھے، دونوں نواسے آگئے آپ نے خطبہ روک کر ان دونوں کو اٹھا لیا اور اپنے پاس بٹھایا پھر باقی خطبہ پورا کیا۔ امام ترمذی نے حضرت یعلی بن مرہؒ کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حسين منى وانا من حسين احب الله من احب حسينا حسين سبط من الاسباط۔ (2) ترجمہ: حسین میرے ہیں اور میں حسین کا، جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے حسین میرے ایک نواسے ہیں۔ حسين منى وانا من حسين کے کلمات انتہائی محبت، اپنائیت اور قلبی تعلق کے اظہار کے لئے ہیں، اس کے بعد ویہ دعائیہ کلمات ہیں جن کے متعلق عرض کیا کہ یہ الفاظ متعدد روایات میں مذکور ہیں اس مضمون کی کئی روایات امام ترمذی نے مناقب الحسن والحسین کے عنوان کے تحت ذکر کی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی والدہ کو سيدة نساء اهل الجنة اور دونوں بھائیوں کو سيدا شباب اهل الجنة فرمایا ہے۔ (3) رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام خصوصاً حضرات شیخین کا معاملہ بھی ان دونوں حضرات کے ساتھ بہت ہی لطف و کرم کا رہا، ابھی حضرت حسنؓ کے تذکرہ میں گذرا کہ حضرت ابو بکرؓ نے ان کو گود میں اٹھا لیا تھا بلکہ بعض روایات میں تو کندھے پر بٹھانے کا ذکر ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنےزمانہ خلافت میں دونوں بھائیوں کا وظیفہ اہل بدر کے وظائف کے بقدر پانچ پانچ ہزار درہم مقرر کیا اور اس کی وجہ رسول اللہ ﷺ کی قرابت بیان کی۔ (4) حالانکہ یہ دونوں حضرات ان کے دور خلافت کے آخر میں بھی بالکل نوجوان ہی تھے حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت کا واقعہ ہے کہ وہ مسجد نبوی ﷺ میں رسول اللہ ﷺ کے منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے حضرت حسینؓ آئے اور حضرت عمرؓ کو مخاطب کر کے کہا، میرے باپ (نانا جان) کے منبر سے اترو اور اپنے والد کے منبر پر جا کر خطبہ دو، حضرت عمرؓ نے کہا میرے باپ کا تو کوئی بھی منبر نہیں ہے یہ کہا اور ان کو اپنے پاس منبر پر بٹھا لیا اور بہت اکرام اور لطف و محبت کا معاملہ کیا۔ (5) انہیں حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں یمن سے کچھ حلے (چادروں کے جوڑے)آئے، آپ نے وہ صحابہ کرامؓ کے لڑکوں میں تقسیم کر دئیے اور حضرات حسینؓ کے لئے ان سے بہتر حُلے منگوائے اور ان دونوں بھائیوں کو دئیے اور فرمایا اب میرا دل خوش ہے۔ (1) یہ دونوں بھائی اگرچہ کثیر الروایت نہیں لیکن پھر بھی براہ راست رسول اللہ ﷺ اور اپنے والدین سے احادیث رسول اللہ ﷺ نقل کرتے ہیں۔ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ دونوں بھائی بہت ہی عبادت گزار تھے، دونوں نے بار بار مدینہ سے مکہ تک پیدل سفر کر کے حج کئے ہیں۔ (2) اللہ کے راستہ میں کثرت سے مال خرچ کرتے تھے۔ جو دو سخاوات، ماں باپ اور نانا جان سے وراثت میں ملی تھی۔ ؓ وارضاہما۔
Top