معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2101
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ يَبْتَغُونَ بِذَلِكَ مَرْضَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَتْ إِنَّ نِسَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنَّ حِزْبَيْنِ فَحِزْبٌ فِيهِ عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ وَصَفِيَّةُ وَسَوْدَةُ، وَالْحِزْبُ الآخَرُ أُمُّ سَلَمَةَ وَسَائِرُ نِسَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَلَّمَ حِزْبُ أُمِّ سَلَمَةَ، فَقُلْنَ لَهَا كَلِّمِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِّمُ النَّاسَ، فَيَقُولُ مَنْ أَرَادَ أَنْ يُهْدِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدِيَّةً فَلْيُهْدِهِ إِلَيْهِ حَيْثُ كَانَ، فَكَلَّمَتْهُ فَقَالَ لَهَا: لاَ تُؤْذِينِي فِي عَائِشَةَ، فَإِنَّ الْوَحْيَ لَمْ يَأْتِنِي، وَأَنَا فِي ثَوْبِ امْرَأَةٍ إِلاَّ عَائِشَةَ. قَالَتْ أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مِنْ أَذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. ثُمَّ إِنَّهُنَّ دَعَوْنَ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَرْسَلْنَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمَتْهُ. فَقَالَ: يَا بُنَيَّةُ، أَلاَ تُحِبِّينَ مَا أُحِبُّ. قَالَتْ بَلَى قَالَ فَأَحُبِّيْ هَذِهِ. (رواه البخارى ومسلم)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب خصوصیت سے میری باری ہی کے دن ہدیے بھیجنے کا اہتمام کرتے تھے، وہ اپنے اس عمل سے رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی چاہتے تھے، (اور صورت حال یہ تھی کہ) آپ ﷺ کی ازواج کے دو گروہ تھے، ایک گروہ میں عائشہ، حفصہ، صفیہ، اور سودہ تھیں، اور دوسرے گروہ میں ام سلمہ اور باقی ازواج، ام سلمہ کی گروہ والیوں نے ام سلمہ سے بات کی، اور ان سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے تم کہو کہ آپ اپنے اصحاب سے فرما دیں کہ اگر کوئی آپ کے لئے ہدیہ بھیجنا چاہے تو آپ جہاں بھی ہوں (یعنی ازواج میں سے کسی کے یہاں بھی مقیم ہوں) تو وہ وہیں آپ کو ہدیہ بھیجے، چنانچہ ام سلمہؓ نے آپ سے یہی عرض کیا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم مجھے عائشہؓ کے بارے میں اذیت نہ دو، عائشہؓ ہی کی خصوصیت ہے کہ انہیں کے لحاف میں مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے، ام سلمہؓ نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول! میں اللہ کے حضور میں آپ کو اذیت دینے سے توبہ کرتی ہوں۔ پھر ام سلمہؓ کی گروہ والی ازواج مطہرات نے (آپ کی صاحبزادی) حضرت فاطمہؓ کو اسی غرض سے آپ کے پاس بھیجا، چنانچہ انہوں نے حضور ﷺ سے وہی عرض کیا تو آپ نے فرمایا: اے بیٹا! کیا تم اس سے محبت نہیں کرو گی جس سے مجھے محبت ہو، عرض کیا: کیوں نہیں! (یعنی آپ جس سے محبت کرتے ہیں میں ضرور اس سے محبت کروں گی) آپ نے فرمایا: "فَأَحُبِّيْ هَذِهِ" تو تم اس (عائشہ) سے محبت کرو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں چند باتیں وضاحت طلب ہیں ..... ایک یہ کہ اس میں حضور ﷺ کی ازواج مطہرات کے دو گروہ میں تقسیم ہونے کی بات کہی گئی ہے، دو گروہوں میں یہ تقسیم کسی باہمی اختلاف کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ یوں سمجھنا چاہئے کہ کچھ ازواج مطہرات کو مزاجی مناسبت حضرت عائشہ صدیقہؓ سے زیادہ تھی، اور کچھ کو حضرت ام سلمہؓ سے (واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ عقل و دانش کے لحاظ سے یہ دونوں تمام ازواج مطہرات میں ممتاز تھیں، اور حضور کو قلبی تعلق بھی ان دونوں کے ساتھ بہ نسبت دوسری ازواج کے زیادہ تھا ..... دوسری بات قابل وضاحت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کھانے پینے، پہننے اور شب باشی جیسے اختیاری معاملات میں اپنی تمام ازواج کے ساتھ امکانی حد تک یکساں برتاؤ کا خاص اہتمام فرماتے تھے ..... لیکن قلبی محبت کا تعلق انسان کے اختیار میں نہیں ہے، اسی بنا پر آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے کہ «اللَّهُمَّ هَذِا قَسْمِي فِيمَا أَمْلِكُ، فَلَا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ، وَلَا أَمْلِكُ» (1) (اے اللہ میں تقسیم میں برابری کرتا ہوں ان چیزوں میں جو میرے اختیار میں ہیں، اے میرے مالک مجھ سے درگذر فرما اس چیز کے بارے میں جو صرف تیرے اختیار میں ہے اور میرے اختیار میں نہیں ہے یعنی دل کا لگاؤ) بہرحال یہ واقعہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اپنی بعض ازواج کے ساتھ زیادہ محبت تھی، اور سب سے زیادہ محبت حضرت عائشہ صدیقہؓ سے تھی، اور آنحضرت ﷺ کے قریبی تعلق رکھنے والے اصحاب کرام اس حقیقت سے باخبر اور واقف تھے، اس لئے وہ جب کوئی کھانے وغیرہ کی قسم کی کوئی چیز ہدیہ کے طور پر بھیجنا چاہتے تو اس کا اہتمام کرتے کہ اس دن بھیجیں جس دن آپ ﷺ کا قیام حضرت عائشہؓ کے یہاں ہو ..... یہاں یہ بات خاص طور سے قابل لحاظ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس کے لئے کبھی کسی کو کوئی اشارہ بھی نہیں فرمایا، تاہم یہ بات ان ازواج کے لئے گرانی کا باعث تھی جو حضرت ام سلمہؓ سے خصوصی تعلق رکھتی تھیں، انہوں نے ان سے کہا کہ تم حضور ﷺ سے اس بارے میں بات کرو اور یہ عرض کرو، پھر ام سلمہؓ کا حضور ﷺ سے عرض کرنا، اور آپ ﷺ کا جواب اور اس پر ام سلمہؓ کی گذارش یہ سب حدیث کے ترجمہ میں آپ پڑھ چکے ہیں۔ آگے حدیث میں یہ ہے کہ اس کے بعد انہوں نے حضور کی صاحبزادی، حضرت فاطمہؓ سے بات کی اور ان کو اسی غرض سے حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجا انہوں نے جا کر آپ کی ان ازواج کی طرف سے وہی عرض کیا جو حضرت ام سلمہؓ نے کیا تھا پھر حضور ﷺ نے جو کچھ فرمایا اور حضرت فاطمہؓ نے جو عرض کیا وہ بھی ترجمہ میں آپ پڑھ چکے ہیں ..... البتہ یہ بات خاص طور سے قابل لحاظ ہے کہ حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے، کہ حضرت فاطمہؓ کو اس کا علم تھا کہ حضرت ام سلمہؓ اس بارے میں حضور ﷺ سے عرض کر چکی ہیں یقین ہے کہ اگر انہیں اس کا علم ہوتا تو وہ ہرگز اس کے لئے تیار نہ ہوتیں۔ واللہ اعلم۔
Top