معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2091
عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، أَنَّهُ قَالَ: أَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ أَنَّهُمْ فِي الجَنَّةِ، وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى العَاشِرِ لَمْ آثَمْ. قِيلَ: وَكَيْفَ ذَاكَ؟ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِرَاءَ، فَقَالَ: اثْبُتْ حِرَاءُ، فَإِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلاَّ نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدٌ. قِيلَ: وَمَنْ هُمْ؟ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَسَعْدٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ. قِيلَ فَمَنِ العَاشِرُ؟ قَالَ: أَنَا. (رواه الترمذى)
حضرت سعید بن زید ؓ
حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ:میں نو حضرات کے بارے میں شہادت دیتا ہوں کہ وہ "جنتی" ہیں اور اگر ایک دسویں آدمی کے بارے میں یہی شہادت دوں کہ وہ جنتی ہیں تو گنہگار نہ ہون گا، آپ سے کہا گیا: "یہ بات کس طرح ہے؟" یعنی آپ کس بنیاد پر یہ بات فرما رہے ہیں؟ تو اس کے جواب میں) حضرت سعیدؓ نے بیان کیا: کہ ہم لوگ ایک دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حراء پہاڑ پر تھے، (پہاڑ میں جنبش پیدا ہوئی، اور وہ حرکت کرنے لگا تو) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اے حراء ساکن ہو جا اس وقت تیرے اوپر یا تو اللہ کے نبی ہیں یا صدیق یا شہید ..... (اس کے بعد حضرت سعیدؓ سے دریافت کیا گیا "وہ کون حضرات تھے؟" تو انہوں نے بتایا۔ ایک خود رسول اللہ ﷺ (آپ کے علاوہ) ۲۔ ابو بکر، اور ۳۔ عمر اور ۴۔ عثمان اور ۵۔ علی اور ۶۔ طلحہ اور۷۔ زبیر اور۸۔ سعد (یعنی ابن ابی وقاصؓ) اور ۹۔ عبدالرحمٰن بن عوفؓ " لوگوں نے آپ سے کہا: بتلائیے کہ دسواں آدمی کون ہے؟ تو فرمایا: "خود یہ بندہ" ..... (جامع ترمذی)

تشریح
عشرہ مبشرہ سے متعلق جامع ترمذی ہی کے حوالہ سے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی وہ روایت پہلے گذر چکی ہے، جس میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے دس اصحاب کرام کو نام لے کر ان سب کے بارے میں جنت کی بشارت دی ہے، ان میں نو حضرات تو وہی ہیں جن کے اسماء گرامی حضرت سعید بن زیدؓ کی زیر تشریح حدیث میں ذکر کئے گئے ہین اور دسواں نام حضرت ابو عبیدہ بن جراح کا ہے، اس عاجز (راقم سطور) کا خیال ہے کہ جبل حراء کا جو واقعہ حضرت سعید بن زیدؓ نے بیان فرمایا ہے، اس میں ابو عبیدہ بن جراح حضور ﷺ کے ساتھ نہیں تھے۔ ایک دوسرا فرق ان دونوں روایتوں میں یہ ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ والی روایت میں آنحضرت ﷺ نے دس صحابہ کا نام لے کر ان کے "جنتی" ہونے کی بشارت دی ہے ..... اور حضرت سعید بن زیدؓ کی اس روایت میں رسول اللہ ﷺ نے کسی کا نام لے کر کچھ نہیں فرمایا، بلکہ صرف یہ فرمایا: "اے حراء ساکن ہو جا اس وقت تیرے اوپر یا تو اللہ کے ایک نبی ہیں، یا صدیق یا شہید ..... آگے حضرت سعیدؓ کا بیان ہے کہ اس وقت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کے نو صحابی اور تھے، جن کے اسماء گرامی حدیث میں ذکر کئے گئے ہیں۔ حضرت سعید بن زیدؓ نے حضور ﷺ کے ارشاد کی بنیاد پر یقین کر لیا کہ یہ سب حضرات بلابشہ "جنتی" ہیں اور اسی بنیاد پر ان کے "جنتی" ہونے کی شہادت دی ہے، کیوں کہ اللہ کے نبی و رسول اور صدیق اور شہید کے "جنتی" ہونے میں کوئی شبہ نہیں ..... جن حضرات کے اسماء گرامی کا ذکر حضرت سعید بن زیدؓ نے کیا ہے، ان میں خود رسول اللہ ﷺ اللہ کے نبی ہیں اور حضرت ابو بکر صدیق بلکہ "صدیق اکبر" ہیں اور حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، یہ پانچوں شہید ہوئے، باقی حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت سعید بن زیدؓ یہ تینوں بھی بلاشبہ "صدیقین" میں ہیں۔ حضرت سعید بن زیدؓ کا عنداللہ کیا مقام و مرتبہ تھا، وہ اس حدیث سے بھی معلوم ہو جاتا ہے جو اسی سلسلہ "معارف الحدیث" کتاب المعاملات، غصب کے بیان میں ذکر کی جا چکی ہے، جس کے ایک راوی خود یہ حضرت سعید بن زیدؓ بھی ہیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کو یہاں بھی نقل کر دیا جائے۔ اور وہ یہ ہے۔ "ایک عورت نے (جس کا نام ارویٰ تھا) حضرت معاویہؓ کے دور خلافت میں انہی حضرت سعید بن زید ؓ کے خلاف مدینہ کے اس وقت کے حاکم مروان کی عدالت میں دعویٰ کیا کہ "انہوں نے میری فلاں زمین دبا لی ہے۔ حضرت سعید ؓ کو اس جھوٹے الزام سے بڑا صدمہ پہنچا، انہوں نے مروان سے کہا: "قَالَ: أَنَا أَنْتَقِصُ مِنْ حَقِّهَا شَيْئًا أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنَ الأَرْضِ ظُلْمًا، فَإِنَّهُ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ»" ترجمہ: کہا کیا میں اس عورت کی زمین دباؤں گا اور غصب کروں گا؟ میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ فرماتے تھے کہ "جس شخص نے ظالمانہ طور پر کسی کی ایک بالشت بھر زمین بھی غصب کر لی تو قیامت کے دن زمین کا وہ غصب کیا ہوا ٹکڑا سالوں زمین تک طوق بنا کر اس ظالم کے گلے میں ڈالا جائے گا"۔ یہ روایت حضرت سعیدؓ نے دل کے کچھ ایسے تاثر کے ساتھ اور ایسے انداز سے کہی کہ خود مروان بہت متاثر ہوا اور اس نے آپ سے کہا کہ "اب میں آپ سے کوئی دلیل اور ثبوت نہیں مانگتا ..... اس کے بعد حضرت سعید ؓ نے (دکھے ہوئے دل سے) بددعا کی کہ اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ اس عورت نے مجھ پر یہ جھوٹا الزام لگایا ہے تو اس کو آنکھوں کی روشنی سے محروم کر دے، اور اس کی زمین ہی کو اس کی قبر بنا دے"۔ (واقعہ کے راوی حضرت عروہ کہتے ہیں کہ) "پھر ایسا ہی ہوا، میں نے خود اس عورت کو دیکھا ہے وہ آخر عمر میں نابینا ہو گئی، اور خود کہا کرتی تھی کہ "سعید بن زیدؓ کی بددعا سے میرا یہ حال ہوا ہے، اور پھر ایسا ہوا کہ وہ ایک دن اپنی زمین ہی میں چلی جا رہی تھی کہ ایک گڑھے میں گر پڑی اور بس وہ گڑھا ہی اس کی قبر بن گیا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اللہ تعالیٰ اس واقعہ سے سبق لینے کی توفیق دے۔
Top