معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2080
عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يَأْتِينِي بِخَبَرِ القَوْمِ يَوْمَ الأَحْزَابِ؟» قَالَ الزُّبَيْرُ: أَنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيًّا وَحَوَارِيَّ الزُّبَيْرُ» (رواه البخارى ومسلم)
حضرت زبیر ؓ
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ غزوہ احزاب کے دن حضور ﷺ نے فرمایا: کون ہے جو دشمن قوم (کے لشکر) کی خبر لائے، حضرت زبیرؓ نے عرض کیا۔ میں (خبر لاؤں گا) اس پر (ان کے اس عرض کرنے پر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر نبی کے لئے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری زبیر ہیں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
غزوہ احزاب جس کو غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے، راجح قول کے مطابق ۵؁ھ کے اواخر میں ہوا بعض حیثیتوں سے اس غزوہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے قرآن مجید میں غیر معمولی انداز میں پورے دو رکوع میں اس غزوہ کے حالات کا ذکر فرمایا گیا ہے، اسی وجہ سے اس سورۃ کا نام الاحزاب ہے، س کے بارے میں تفصیلات حدیث اور سیرت کی کتابوں مین دیکھی جا سکتی ہیں، ہاں عام ناظرین کی واقفیت کے لئے کسی قدر اختصار کے ساتھ اس کا واقعہ لکھا جاتا ہے۔ معلوم ہے کہ قریش مکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے لائے ہوئے دین کے شدید ترین دشمن تھے۔ بدر اور احد کے تجربوں اور حالات کی رفتار دیکھنے کے بعد انہوں نے گویا طے کر لیا تھا کہ آئندہ وہ اپنی طرف سے مسلمانوں کے خلاف کوئی جنگی اقدام نہیں کریں گے ..... مدینہ طیبہ کے جوار میں جو یہودی قبائل آباد تھے، ان میں سے بنو نضیر کو ان کی شرارتوں اور فتنہ انگیزیون کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے جلا وطن کرا دیا تھا اور وہ خیبر جا کر آباد ہو گئے تھے .... سازش اور فتنہ پردازی یہودیوں کی گویا فطرت ہے، انہوں نے خیبر میں آباد ہو جانے کے بعد یہ اسکیم بنائی کہ عرب کے تمام بڑے قبائل کو اس پرا ٓمادہ کیا جائے کہ وہ اپنی پوری اجتماعی طاقت کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے مرکز مدینہ پر حملہ کریں اور ان کو نیست و نابود کر دیں گے اس مقصد کے لئے بنو نضیر کا ایک وفد پہلے مکہ معظمہ پہنچا اور قریش کے سرداروں کی سامنے جو اسلام اور مسلمانوں کے شدید ترین دشمن تھے اپنی یہ اسکیم رکھی، اور ساتھ ہی بتلایا کہ ہم اس کی پوری کوشش کریں گے کہ دوسرے قبیلے بھی اس جنگ میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ شریک ہوں اور مدینہ کے قریب میں جو یہودی آبادیاں ہیں (بنو قریظہ وغیرہ) وہ بھی اس جنگ میں آپ کا پورا ساتھ دیں گے اور اس صورت میں مسلمان آپ لوگوں کا مقابلہ نہ کر سکیں گے اور ان کا نام و نشان تک مٹ جائے گا ..... قریش مکہ کے ان سرداروں کو راضی کرنے کے بعد اس وفد نے قبیلہ غطفان اور بنو اسد وغیرہ قبائل میں پہنچ کر ان کو بھی اس جنگ میں شرکت پر آمادہ کیا اور بتلایا کہ اس جنگ کے نتیجہ میں مدینہ اور اس کے قرب و جوار کے پورے علاقے پر جو بہت سرسبز و شاداب اور بہت زرخیز تھا، آپ لوگوں کا قبضہ ہو جائے گا، چنانچہ یہ قبیلے بھی آمادہ ہو گئے، اس طرح قریش مکہ، غطفان، بنو اسد وغیرہ عرب قبائل پر مشتمل دس ہزار اور ایک روایت کے مطابق بارہ ہزار کا لشکر مدینہ پر حملہ کے لئے تیار ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ کو دشمنانِ اسلام کے اس ناپاک منصوبہ کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے معمول کے مطابق اپنے خواص اصحاب سے مشورہ کیا .... صورت حال یہ تھی کہ مدینہ میں ان مسلمانوں کی کل تعداد جن سے جنگ میں حصہ لینے کی توقع کی جا سکتی تھی، تین ہزار سے زیادہ نہ تھی وہی اس وقت کی اسلامی فوج تھی، اس کے پاس زندگی کی ضروریات اور جنگ کا سامان اس کا عشر عشیر بھی نہ تھا، جو دشمن لشکر کے پاس تھا، اس لئے مشورہ ہی سے جنگی حکمت عملی یہ طے کی گئی کہ باہر نکل کر کھلے میدان جنگ نہ کی جائے بلکہ مدینہ میں رہ کر ہی مدافعانہ جنگ کی جائے۔ سلمان فارسیؓ جو ایرانی النسل تھے انہوں نے بتلایا کہ ایسے موقعوں پر ہمارے ملک ایران میں کثیر التعداد اور طاقت ور دشمن لشکر کے مقابلے اور اس سے بچاؤ کے طریقہ یہ ہے کہ ایسی خندق کھودی جاتی ہے کہ آدمی نہ خود ہی چھلانگ لگا کر اس کو پار کر سکے اور نہ گھوڑے کا سوار۔ مدینہ منورہ تین طرف سے قدرتی طور پر پہاڑوں وغیرہ سے اس طرح گھرا ہوا تھا کہ ان سمتوں سے کسی بڑے لشکر کے حملہ آور ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا، ایک سمت شمال مشرق کھلی ہوئی تھی کہ دشمن لشکر اس طرف سے حملہ کر سکتا تھا .... رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب کرام نے سلمان فارسیؓ کے مشورہ کو قبول کرنا مناسب سمجھا اور اس سمت میں خندق کھودے جانے کا فیصلہ کر لیا گیا اس خندق کی گہرائی اور چوڑائی قریباً دس ہاتھ تھی، دس (۱۰) دس (۱۰) مسلمانوں کی جماعت بنا کر ان پر خندق کا کام تقسیم کر دیا گیا اور صحابہ کرامؓ نے انتہائی مشقت کے ساتھ سخت سردی کے موسم میں دن کے علاوہ سرد راتوں میں بھی کھدائی کا کام کیا، اس خندق کا طول آثار مدینہ کے بعض ماہرین کے لکھنے کے مطابق تقریباً پانچ ہزار ذراع یعنی ڈھائی ہزار گز تھا (گویا قریباً ڈیڑھ میل)۔ دشمن لشکر ابو سفیان کی سربراہی میں آیا اور خندق کے مقابل میدان میں پڑاؤ ڈالا ان لوگوں کے ساتھ خیمے وغیرہ بھی تھے اور کھانے پینے کا سامان بھی وافر، قریباً ایک مہینے تک یہ لشکر پڑاؤ ڈالے رہا لیکن خندق کو پار کر کے مدینہ پر حملہ کرنا اس لشکر کے لئے ممکن نہ تھا بس دونوں طرف سے کچھ تیر اندازی ہوئی، سیر کی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں صحابہ کرام میں سے سات شہید ہوئے اور مشرکین میں چار جہنم واصل ہوئے ..... قرآن مجید (سورۃ الاحزاب) میں اس غزوہ میں مسلمانوں کی سخت ترین آزمائش اور قربانی کا جس طرح ذکر فرمایا گیا ہے اس طرح کسی دوسرے غزوہ کے بارے میں ذکر نہیں فرمایا گیا، آگے قرآن مجید ہی میں یہ بھی بیان فرمایا گیا ہے کہ جب مسلمانوں کی مشقت و مصیبت اور قربانی انتہا کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی مدد آئی یہ ایسی تیز و تند ہوا تھی جس نے دشمن لشکر کے سارے خیمے اکھاڑ پھینکے چولہوں پر دیگیں چڑھی ہوئی تھیں وہ سب الٹ گئیں، ان کے کچھ گھوڑے اور اونٹ رسیاں تڑا کر مختلف فمتوں میں بھاگ گئے ..... (میرا خیال ہے کہ لشکر کے بہت سے لوگوں نے آندھی کی اس غیر معمولی نوعیت کی وجہ سے اس کو خداوندی عذاب سمجھا ہو گا) .... لشکر کے قائد اور سپہ سالار ابو سفیان نے بھی واپسی کا فیصلہ کر لیا اور اس طرح پورا لشکر نامراد ہو کر واپس ہو گیا۔ وَكَفَى اللَّـهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ اسی غزوہ میں کسی خاص مرحلہ پر آنحضرت ﷺ کو دشمن لشکر کا حال معلوم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو آپ نے فرمایا "مَنْ يَأْتِينِي بِخَبَرِ القَوْمِ" یعنی کون ہے جو دشمن لشکر کا حال معلوم کر کے لائے، ظاہر ہے کہ اس میں جان کا بھی خطرہ تھا ..... حضرت زبیرؓ نے سبقت کر کے عرض کیا کہ اس خدمت کو میں انجام دوں گا، اس پر حضور ﷺ نے خوش ہو کر فرمایا ہر نبی کے لئے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری زبیر ہیں۔ اردو میں کوئی لفظ نہیں ہے جو حواری کے پورے مفہوم کو ادا کر سکے (جاں نثار، رفیق کار اور مدد گار کے الفاظ سے کسی حد تک حواری کا مطلب ادا ہو جاتا ہے) ..... بلا شبہ حضرت زبیر ؓ کی یہ بڑی فضیلت ہے۔ ان کے بارے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عشرہ مبشرہ میں حضرت علی مرتضیٰؓ کی طرح ان کو بھی رسول اللہ ﷺ کی قرابت قریبیہ حاصل ہے، حضرت علی مرتضیٰؓ آپ کے چچا ابو طالب بن عبدالمطلب کے بیٹے ہونے کی وجہ سے آپ ﷺ کے چچازاد بھائی ہیں اور حضرت زبیرؓ آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب کے بیٹے ہونے کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی۔ ؓ وارضاہ۔
Top