معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2075
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: لَا يَجْتَمِعُ حُبُّ هَؤُلَاءِ الْأَرْبَعَةِ أَبِيْ بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِىٍّ فِيْ قَلْبِ مُنَافِقٍ. (رواه الطبرانى فى الاوسط وابن عساكر)
فضائل خلفاء اربعہ
حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ان چاروں (میرے ساتھیوں اور رفیقوں ابو بکر و عمر اور عثمان و علی) کی محبت کسی منافق کے دل میں جمع نہ ہو گی۔ (معجم اوسط طبرانی، ابن عساکر)

تشریح
یہ حدیث بھی کسی تشریح کی محتاج نہیں بفضلہٖ تعالیٰ اہل السنۃ والجماعۃ کا حال یہی ہے کہ وہ ان چاروں حضرات سے محبت کو گویا جزو ایمان یقین کرتے ہیں اور جو بدنصیب ان میں سے کسی ایک سے بھی بغض رکھے اس کو فاسد العقیدہ اور حقیقی ایمان سے محروم جانتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر لکھا گیا تھا کتب حدیث میں اور بھی ایسی روایات ہیں جن میں آنحضرت ﷺ نے ان خلفاء اربعہ کی فضیلت اور ان کے امتیاز کا ذکر اسی ترتیب سے فرمایا ہے، ان سب روایات سے ان حضرات کی فضیلت کے ساتھ ان کے درمیان فرق مراتب اور خلافت کے بارے میں ترتیب کا بھی اشارہ ملتا ہے۔ خلفاء اربعہ کے فضائل کے بارے میں ایک قابل لحاظ حقیقت حدیث کی اکثر کتابوں میں شیخین (حضرت ابو بکرؓ و عمر ؓ) کے فضائل کے بارے میں حدیثوں کی تعداد کم ہے ..... حضرت عثمان ؓ کے فضائل سے متعلق حدیثوں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے اور حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے فضائل سے متعلق حدیثوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ..... اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ دور صحابہ میں شیخین کی شخصیتیں متفق علیہ تھیں اور کسی کو اس کی ضرورت نہیں تھی کہ ان کے فضائل کی روایتیں تلاش کرے اور امت کے عوام کو پہچائے، حضرت عثمان ؓ کی خلافت کے آخری سالوں میں خاص طور سے ایک گروہ کی سازش اور شرارت سے جس کا سرغنہ ایک منافق عبداللہ بن سبا تھا ان کی شخصیت متفق علیہ نہیں رہی، اس لئے اس کی ضرورت پیدا ہو گئی کہ ان کے فضائل سے متعلق روایتیں تلاش کر کے بیان کی جائیں۔ اسی وجہ سے ان کے فضائل سے متعلق حدیثوں کی تعداد حدیث کی کتابوں میں شیخین کی بہ نسبت زیادہ ہے ان کے بعد حضرت علی مرتضیٰ ؓ کی شخصیت بھی متنازعہ وہ گئی اور خوارج کا ایک مستقل ایسا گروہ بھی پیدا ہو گیا جو ان کو دین اور امت میں فتنہ جانتا اور واجب القتل سمجھتا تھا (جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے)۔ اس لئے ان کے فضائل کی حدیثیں تلاش کرنے کی بھی ضرورت پیدا ہو گئی اور اللہ کے مخلص بندوں نے محنت و تلاش سے ان کے فضائل کی حدیثیں جمع کیں۔ علاوہ ازیں ان کے بارے میں غلو کرنے والوں میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے جو ان کے فضائل میں حدیثیں وضع کرنا کار ثواب سمجھتے تھے، ان میں سے بہت سے بظاہر صالحین کی سی زندگی گذارتے تھے۔ ہمارے محدثین بشر ہی تھے ان کا زمانہ بھی ان راویوں کے بہت بعد کا تھا، وہ ان کے اندرونی حال سے واقف نہ ہو سکے اور ان کی روایتیں بھی ہماری کتب حدیث میں شامل ہو گئیں، اس لئے بھی حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے فضائل کی روایات ہماری کتب حدیث میں خلفاء ثلثہ کی بہ نسبت بہت زیادہ تعداد میں نظر آتی ہیں۔ اس بات کی ضرورت واقعۃً موجود ہے کہ ان احادیث کا محدثانہ اور محققانہ اصول و قواعد کی روشنی میں جائزہ لیا جائے ..... یہ عاجز اب عمر کے اس مرحلہ اور ضعف و معذوری کے اس حال میں ہے کہ خود اس طرح کے کسی کام کی ہمت نہیں کر سکتا، دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کام کا داعیہ اس کے اہل لوگوں کے قلب میں ڈال دے اور یہ کام بھی انجام پا جائے۔
Top