معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2072
عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: رَحِمَ اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ زَوَّجَنِيَ ابْنَتَهُ، وَحَمَلَنِي إِلَى دَارِ الهِجْرَةِ، وَأَعْتَقَ بِلاَلاً مِنْ مَالِهِ، رَحِمَ اللَّهُ عُمَرَ، يَقُولُ الحَقَّ وَإِنْ كَانَ مُرًّا، تَرَكَهُ الحَقُّ وَمَا لَهُ صَدِيقٌ، رَحِمَ اللَّهُ عُثْمَانَ، تَسْتَحْيِيهِ الْمَلاَئِكَةُ، رَحِمَ اللَّهُ عَلِيًّا، اللَّهُمَّ أَدِرِ الحَقَّ مَعَهُ حَيْثُ دَارَ. (رواه الترمذى)
فضائل خلفاء اربعہ
حضرت علی مرتضیٰ ؓ سے روایت ہے آپ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:"اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو ابو بکر پر، انہوں نے اپنی بیٹی (عائشہ) کا میرے ساتھ نکاح کر دیا، اور دارالہجرۃ مدینہ منورہ تک پہنچنے کے لئے میرے واسطے (سواری وغیرہ) سفر کے انتظامات کئے، اور بلال کو اپنے مال سے خرید کر آزاد کیا، ..... اللہ کی رحمت ہو عمر پر، وہ حق بات کہتا ہے اگرچہ کڑوی ہو، اس کی اس (بےلاگ) حق گوئی نے اس حال میں کر چھوڑا ہے کہ کوئی اس کا سچا اور پورا دوست نہیں .... اللہ کی رحمت ہو عثمان پر جس کا حال یہ ہے کہ فرشتے بھی اس سے شرماتے ہیں .... اور اللہ کی رحمت ہو علی پر، اے اللہ! تو حق اور سچائی کو اس کے ساتھ دائر اور سائر کر دے، وہ حق کے ساتھ رہے اور حق اس کے ساتھ "۔ (جامع ترمذی)

تشریح
رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعض ارشادات میں جس طرح ایک ساتھ شیخین حضرت ابو بکر و عمر ؓ کے فضائل بیان فرمائے اور جس طرح بعض ارشادات میں حضرت عثمان ؓ کو بھی شامل فرما کر ایک ساتھ تینوں حضرات کے فضائل بیان فرمائے (جو اپنے موقعہ پر پہلے ذکر کئے جا چکے ہیں) اسی طرح آپ نے اپنے بعض ارشادات میں حضرت علی مرتضیٰ ؓ کو بھی شامل فرما کر چاروں خلفاء کے فضائل ایک ساتھ بیان فرمائے ہیں ذیل میں آپ ﷺ کے ایسے ہی چند ارشادات پیش کئے جا رہے ہیں۔ تشریح .....رسول اللہ ﷺ نے اپنے اس ارشاد میں چاروں خلفاء راشدین کے لئے رحمت کی دعا فرمائی، سب سے پہلے خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے حق میں دعاءرحمت فرمائی اور خصوصیت کے ساتھ ان کے تین اعمال خیر کا ذکر فرمایا، سب سے پہلے ان کے اس عمل کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا آپ ﷺ سے نکاح کر دیا .... اس عاجز کا خیال ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے علاوہ اگرچہ کم از کم آٹھ ازواج مطہرات آپ ﷺ کی اور بھی ہوئیں، لیکن حضرت عائشہؓ کے نکاح کی خاص اہمیت یہ تھی کہ آپ ﷺ کی سب سے پہلی رفیقہ حیات حضرت خدیجہ الکبریٰ ؓ جن کا وجود ان کے کمال ایمان، ان کی فراست و دانشمندی اور بالخصوص ان کی وجہ سے خانگی ضروریات کی فکروں سے بے فکر اور آزادی حاصل ہو جانے کی وجہ سے حضور ﷺ کے لئے باعث سکون کاطر تھا ..... ان کی وفات سے فطری طور پر آپ ﷺ کو غیر معمولی رنج اور صدمہ تھا، اس وقت عالم غیب کی طرف سے آپ ﷺ کو اشارہ ملا کہ ابو بکر کی بیٹی عائشہ تمہاری رفیقہ حیات ہوں گی۔ اگرچہ وہ اس وقت بہت کمسن تھیں لیکن آنحضرت ﷺ نے غیبی اشارہ کی بنا پر یقین فرما لیا کہ یہ منجانب اللہ مقدر ہو چکا ہے اور ان کی رفاقت حضرت خدیجہؓ ہی کی طرح میرے لئے خیر اور باعث سکون خاطر ہو گی، چنانچہ ایک نیک خاتون خولہ بنت حکیم نے حضرت ابو بکرؓ کو حضور ﷺ کی طرف سے رشتہ کا پیغام پہنچایا ..... جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا حضرت عائشہؓ اس وقت بہت کمسن تھیں نیز ان کی نسبت جبیر ابن مطعم کے بیٹے سے ہو چکی تھی جو ابو بکر ہی کی طرح مکہ کے خوشحال اور دولت مند لوگوں میں تھے .... اور مالی حیثیت سے حضور ﷺ کا جو حال تھا وہ ابو بکرؓ کے سامنے تھا اس کے باوجود انہوں نے حضور ﷺ کی اس حالت کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے اس امید پر کہ یہ نکاح رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک کے سکون کا ذریعہ بنے گا اپنی اور بیٹی کی سعادت سمجھ کو اسے قبول کر لیا اور حضرت عائشہؓ کا آپ ﷺ سے نکاح کر دیا ..... بہرحال آنحضرت ﷺ نے اپنے مندرج بالا ارشاد میں حضرت ابو بکرؓ کے حق میں رحمت کی دعا کرنے کے ساتھ پہلے ان کے اس احسان کا ذکر فرمایا اس کے بعد ان کے اس دوسرے احسان کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کے لئے میرے واسطے انتظامات کئے اور پورے سفر میں میرے ساتھ رہے، آخر میں حضور ﷺ نے ابو بکر صدیقؓ کے اس تیسرے عمل خیر کا ذکر فرمایا کہ حضرت بلال حبشی ؓ کو جو مکہ کی ایک انتہائی سنگدل کافر و مشرک کے غلام تھے وہ صرف حضور ﷺ پر ایمان لانے اور شرک چھوڑ کر توحید کو قبول کر لینے کی وجہ سے ان کو سخت لرزہ خیز تکلیفیں دیتا تھا، حضرت ابو بکرؓ نے حضرت بلالؓ کے علاوہ بھی ایسے متعدد غلاموں اور باندیوں کو خرید کر آزاد کیا تھا جن کو ان کے کافر و مشرک مالک صرف ایمان لانے کے جرم میں تکلیفیں دیتے تھے لیکن حضرت بلالؓ حبشی کی خصوصیات کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے اس ارشاد میں صرف انہیں کو خرید کر آزاد کرنے کا ذکر فرمایا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے بعد آپ ﷺ نے دوسرے خلیفہ حضرت عمرؓ کے حق میں رحمت کی دعا فرمائی اور ان کے اس خاص وصف کا ذکر فرمایا کہ وہ مخلوق کی رضا مندی و ناراضی سے بےپرواہ ہو کر ہر معاملے میں حق بات کہتے ہیں اگرچہ وہ لوگوں کو کڑوی معلوم ہو اور اس کی وجہ سے ان سے دور اور ناراض ہو جائیں ..... معلوم ہوا کہ کسی بندہ کا یہ حال بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پاک ﷺ کے نزدیک بہت پسندیدہ ہے اور ایسا بندہ اللہ کی رحمت کا خاص طور پر مستحق ہے ..... حضرت عمرؓ کے بعد آپ ﷺ نے تیسرے خلیفہ حضرت عثمانؓ کے حق میں رحمت کی دعا فرمائی اور ان کے اس وصف کا ذکر فرمایا کہ اللہ کے فرشتے بھی ان سے شرماتے ہیں (اسی سلسلہ معارف الحدیث میں حضرت عثمان ؓ کے فضائل میں ان کے اس وصف کا ذکر گذر چکا ہے) ..... حضرت عثمانؓ کے بعد آپ ﷺ نے چوتھے خلیفہ حضرت علی مرتضیٰؓ کے حق میں رحمت کی دعا فرمائی اور ساتھ ہی یہ دعا بھی فرمائی کہ اے اللہ! تو علی کے ساتھ حق کو دائر و سائر کر دے یعنی ہمیشہ وہ حق پر رہیں اور حق ان کے ساتھ رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اس ارشاد میں جس ترتیب کے ساتھ ان چاروں کا ذکر کیا اور ان کے حق میں رحمت کی دعا فرمائی اس سے مفہوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی امت میں یہ چاروں حضرات سب سے افضل اور بلند مرتبہ ہیں اور ان کے درمیان اسی ترتیب کے مطابق درجات کا فرق ہے، نیز اس ترتیب سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد یہ چاروں حضرات اسی ترتیب کے مطابق یکے بعد دیگرے آپ ﷺ کے خلیفہ اور جانشین ہوں گے ..... اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت سے ارشادات میں اسی ترتیب سے ان چاروں حضرات کا ذکر فرمایا گیا ہے اور ان سب احادیث سے یہی اشارہ ملتا ہے ..... ان میں سے چند حدیثیں ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں۔
Top