معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2059
عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلِيٌّ مِنِّي وَأَنَا مِنْ عَلِيٍّ، وَلاَ يُؤَدِّي عَنِّي إِلاَّ أَنَا أَوْ عَلِيٌّ. (رواه الترمذى)
فضائل حضرت علی مرتضیٰ ؓ
حضرت حبشی بن جنادہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: علی مجھ میں سے ہیں اور میں علی میں سے ہوں اور میری طرف سے (یہ اہم پیغام) خود میں پہنچا سکتا ہوں یا علی۔ (جامع ترمذی)

تشریح
حدیث کا مطلب سمجھنے کے لئے وہ صورت حال پیش نظر رکھنی ضروری ہے جس میں حضور ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا ..... ۸؁ھ میں فتح مکہ اور وہاں اسلامی اقتدار قائم ہو جانے کے بعد اگلے سال سورہ براءۃ نازل ہوئی، جس میں مشرکین و کفار کے بارے میں خاص اور اہم احکام ہیں مثلاً یہ کہ جو معاہدہ ان کے ساتھ کیا گیا تھا ان کی شرارتوں کی وجہ سے وہ فسخ کر دیا گیا اور یہ کہ اس سال کے بعد کسی مشرک و کافر کو مسجد حرام میں داخلہ کی اجازت نہیں ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو امیر حج بنا کر بھیجا اور یہ ذمہ داری بھی ان کے سپرد ہوئی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے حج کے موقع پر مختلف علاقوں سے آنے والے تمام کفار و مشرکین کو اللہ تعالیٰ کے وہ احکام پہنچا دیں جو سورہ براءۃ میں ان کے بارے میں نازل کئے گئے ہیں اور سورہ براءۃ کی وہ سب آیتیں بھی ان کو سنا دیں ..... صدیق اکبر ؓ حضور ﷺ کے حکم کی تعمیل میں حج کے لئے ساتھ جانے والوں کی جمیعت کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ بعد میں حضور ﷺ کو خیال آیا کہ عربوں کا یہ قانون اور ان کی یہ روایت رہی ہے کہ اگر کوئی معاہدہ کیا جائے یا کسی معاہدہ کو فسخ کیا جائے یا اس طرح کا کوئی بھی اہم معاملہ ہو تو وہ قبیلہ کا سردار یا سربراہ بذات خود کرے یا اس کے نائب اور قائم مقام کی حیثیت سے نسبی رشتے سے اس کا کوئی قریب ترین عزیز۔ اس کے بغیر وہ قابل قبول نہ ہو گا ..... تو آپ ﷺ نے ضروری سمجھا کہ آپ کی طرف سے ان اہم اعلانات کے لئے علی مرتضیٰؓ کو بھیجا جائے جو آپ ﷺ کے حقیقی چچا زاد بھائی اور داماد بھی تھے چنانچہ آپ ﷺ نے ان کو اس کام کے لئے بعد میں مکہ معظمہ کے لئے روانہ فرمایا ..... اس موقعہ پر آپ ﷺ نے فرمایا تھا: "عَلِيٌّ مِنِّي وَأَنَا مِنْ عَلِيٍّ، وَلاَ يُؤَدِّي عَنِّي إِلاَّ أَنَا أَوْ عَلِيٌّ" الغرض اس ارشاد کے ذریعہ آپ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کے بعد حضرت علی مرتضیٰؓ کو اس کام کے لئے بھیجنے کی غرض و غایت بیان فرمائی۔ پھر جب حضرت علی مرتضیٰ جا کر صدیق اکبرؓ سے مل گئے تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ آپؓ امیر کی حیثیت سے بھیجے گئے ہیں یا مامور کی حیثیت سے، تو حضرت علی مرتضیٰؓ نے فرمایا، میں امیر کی حیثیت سے نہیں مامور کی حیثیت سے آیا ہوں، امیر آپ ہی ہیں اور میں خاص طور سے اس غرض سے بھیجا گیا ہوں۔ یہ جو کچھ ہوا من جانب اللہ ہوا، اگر آنحضرت ﷺ شروع ہی میں حضرت علی مرتضیٰؓ کو امیر حج کی حیثیت سے روانہ فرماتے تو اس سے غلط فہمی ہو سکتی تھی کہ آنحضرت کے بعد آپ ﷺ کی خلافت کے اولین حق دار حضرت علی مرتضیٰؓ ہیں، امت کو اس غلط فہمی سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت ﷺ کے قلب مبارک میں ڈالا گیا کہ امیر حج بنا کر ابو بکر صدیق ؓ کو روانہ کریں، بعد میں حضور کے قلب میں وہ بات ڈالی گئی جس کی وجہ سے حضور ﷺ نے حضرت علی مرتضیٰؓ کو بھیجنا ضروری سمجھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح امت میں رہنمائی فرمائی کہ حضور ﷺ کے بعد مسلمانوں کے امیر اور آپ کے خلیفہ حضرت ابو بکر صدیقؓ ہوں گے یہ بالکل اسی طرح ہوا جس طرح کہ آنحضرت ﷺ کے مرض وفات میں جب آپ ﷺ خود مسجد جا کر امامت کرنے سے معذور ہو گئے تو آپ ﷺ کے قلب مبارک میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈالا گیا کہ اپنی جگہ ابو بکر صدیقؓ کو نماز کا امام مقرر فرما دیں۔ ان ربنا لطيف لما يشاء .
Top