معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2057
عَنْ سَعْدِ بن أَبِىْ وَقَاصٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى تَبُوكَ، فَاسْتَخْلَفَ عَلِيًّا، قَالَ: أَتُخَلِّفُنِي عَلَى الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ؟ قَالَ: «أَلاَ تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ، مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ» (رواه البخارى ومسلم)
فضائل حضرت علی مرتضیٰ ؓ
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب غزوہ تبوک کے لئے روانہ ہوئے تو آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو اپنا خلیفہ بنا کر مدینہ میں چھوڑ دیا تو انہوں نے عرض کیا، کیا آپ ﷺ مجھ کو بچوں اور عورتوں پر خلیفہ (اور نگراں) بنا کر چھوڑ رہے ہیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا کیا تم اس بات پر راضی اور خوش نہیں ہو کہ تمہارا مرتبہ اور درجہ میری نسبت سے وہ ہو جو ہارون کا مرتبہ و درجہ موسیٰ کی نسبت سے تھا، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی مبعوث نہ ہو گا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
غزوہ تبوک اور اس کی غیر معمولی اہمیت کا ذکر حضرت عثمانؓ کے فضائل کے سلسلہ میں کیا جا چکا ہے، یہ حضور ﷺ کا آخری غزوہ تھا اور بعض پہلوؤں سے سب سے اہم غزوہ تھا جس میں روایات کے مطابق تیس ہزار صحابہ کرامؓ کا لشکر آپ ﷺ کے ساتھ تھا، مدینہ منورہ کے سب ہی اہل ایمان جو آپ ﷺ کے ساتھ جا سکتے تھے، لشکر میں شامل تھے، پس وہ منافقین جن کو ایمان کی حقیقت نصیب نہیں تھی جھوٹے بہانے کر کے لشکر میں شامل نہیں ہوئے تھے (مومنین صادقین میں سے بھی دو چار ایسے تھے ..... جو ساتھ چلنے کی نیت رکھنے کے باوجود ..... کسی وجہ سے ساتھ نہیں نہیں جا سکے تھے) ..... رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات، اور صاحبزادی سیدہ فاطمہ طاہرہؓ اور ان کے صاحبزادے اور صاحبزادیاں اور لشکر میں جانے والے سب ہی صحابہ کرامؓ کے اہل و عیال مدینہ ہی میں چھوڑ دئیے گئے تھے ..... چونکہ سفر دور دراز کا تھا، اندازہ تھا کہ واپسی طویل مدت میں ہو سکے گی، اس لئے آپ ﷺ نے ضروری سمجھا کہ اس مدت کے لئے کسی کو اپنا نائب اور قائم مقام بنا کر مدینہ میں چھوڑ دیا جائے تا کہ خدا نہ کردہ اگر کوئی خارجی یا داخلی فتنہ برپا ہو تو اس کی قیادت میں اس سے مدینہ میں رہ جانے والوں کی اور دین کی حفاظت کی کاروائی کی جا سکے ..... اس کے لئے آپؓ نے حضرت علیؓ کو زیادہ مناسب سمجھا اور ان کو حکم دیا کہ وہ آپؓ کے ساتھ نہ چلیں بلکہ مدینہ میں رہیں۔ روایات میں ہے کہ بعض بد باطن منافقین نے کہنا شروع کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے علیؓ کو اس لئے ساتھ نہیں لیا کہ ان کو اس کا اہل نہیں سمجھا، بس بچوں اور عورتوں کی نگرانی اور دیکھ بھال کے لئے مدینہ میں چھوڑ دیا ..... حضرت علی مرتضیٰ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا "أَتُخَلِّفُنِي عَلَى الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ"؟ (کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں پر خلیفہ اور نگراں بنا کر چھوڑے جا رہے ہیں؟) حضور ﷺ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا "کیا تم اس پر راضی اور خوش نہیں ہو کہ تمہارا مرتبہ مجھ سے وہ ہو جو ہارون کا موسیٰ سے تھا" بجز اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہو گا۔ سورہ اعراف کی آیت نمبر ۱۴۲ میں یہ واقعہ بیان فرمایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو تورات عطا فرمانے کے لئے طور سینا پر طلب فرمایا (تا کہ وہاں چالیس دن تک گویا اعتکاف کریں اور عبادت و دعا و مناجات میں مشغول رہیں۔ جس طرح رسول اللہ ﷺ نزول قرآن سے پہلے غار حرا میں رہے تھے) تو موسیٰ علیہ السلام نے جاتے وقت اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو اپنا نائب اور خلیفہ بنا کر اپنی قوم بنی اسرائیل کی اصلاح و تربیت اور فتنوں سے حفاظت کا ذمہ دار بنا کر قوم کے ساتھ چھوڑ دیا تھا ..... تو رسول اللہ ﷺ نے اس واقعہ کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے حضرت علیؓ کو جواب دیا کہ میں تم کو اپنا نائب اور خلیفہ بنا کر اسی طرح مدینہ میں چھوڑ رہا ہوں جس طرح اللہ کے پیغمبر موسیٰ علیہ السلام طور سینا جاتے وقت اپنی عدم موجودگی کے زمانے تک کے لئے ہارون کو اپنا نائب اور خلیفہ بنا کر قوم میں چھوڑ گئے تھے ..... بلا شبہ حضرت علیؓ کی یہ بڑی فضیلت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے زمانہ سفر کے لئے انہیں کو اپنا نائب اور خلیفہ بنا کر مدینہ منورہ میں چھوڑا ..... اور واقعہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی قرابت قریبہ اور بعض دوسرے وجوہ سے بھی جن کی تفصیل کی ضرورت نہیں اس کام کے لئے حضرت علیؓ ہی زیادہ موزوں تھے (یہ بھی ملحوظ رہے کہ شیخین اور دوسرے تمام ہی اکابر صحابہؓ لشکر میں حضور ﷺ کے ساتھ جانے والوں میں تھے اور حضور ﷺ اہم معاملات میں مشورہ کے لئے بھی ان کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے تھے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شیعہ علماء و مصنفین غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے اس عمل اور اس ارشاد کو اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خلافت کے سب سے زیادہ حق دار حضرت علیؓ ہی تھے اور آپ ﷺ نے ان کو اپنی زندگی میں خلیفہ بنا کر اپنے بعد کے لئے خلافت کا مسئلہ بھی طے فرما دیا تھا .... ظاہر ہے کہ اس دلیل کی رکاکت اور غیر معقولیت سمجھنے کے لئے کسی خاص درجہ کی عقل و فہم کی ضرورت نہیں ..... سفر وغیرہ کی محدود مدت کے لئے عارضی طور پر کسی کو اپنا نائب اور قائم مقام بنانے میں اور رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کے مستقل خلیفہ اور امت کی امامت عامہ میں جو فرق ہے اس کو ہر شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے۔ پھر اگر ایسا ہوا ہوتا کہ حضرت موسیٰؑ کے بعد ان کے خلیفہ اور ان کی جگہ امت کے امام عام حضرت ہارونؑ ہوئے ہوتے تب تو یہ واقعہ کسی درجہ میں دلیل ہو سکتا تھا ..... لیکن معلوم و مسلم ہے کہ حضرت ہارونؑ حضرت موسیٰؑ کی زندگی ہی میں روایات کے مطابق حضرت موسیٰ کی وفات سے چالیس سال پہلے وفات پا گئے تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے خلیفہ یوشع ہوئے۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی خاص طور سے قابل لحاظ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے غزوہ تبوک کو جاتے وقت حضرت علی مرتضیٰؑ کو تو اپنی جگہ گویا مدینہ کا امیر و حاکم اور خلیفہ بنایا تھا لیکن مسجد نبوی میں اپنی جگہ نماز کی امامت کے لئے عبداللہ ابن مکتومؓ کو مقرر فرمایا تھا ..... حالانکہ حضرت علیؓ ہر حیثیت سے ان سے افضل تھے ..... راقم سطور کے نزدیک حضور ﷺ نے یہ اسی لئے کیا تھا کہ غزوہ تبوک کے زمانہ کی حضرت علیؓ کی اس خلافت و نیابت کو حضور ﷺ کی مستقل خلافت اور امامت عامہ کی دلیل نہ بنایا جا سکے۔ واللہ اعلم۔
Top