معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2048
عَنْ مُسْلِمٍ بْنِ سَعِيدٍ، مَوْلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، إِنَّ عُثْمَانَ أَعْتَقَ عِشْرِينَ عَبْدًا وَدَعَا بِسَرَاوِيلَ فَشَدَّهَا عَلَيْهِ، وَلَمْ يَلْبَسْهَا فِي جَاهِلِيَّةٍ، وَلا إِسْلامٍ وَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، الْبَارِحَةَ فِي الْمَنَامِ، وَرَأَيْتُ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ، وَإِنَّهُمْ قَالُوا لِي: «اصْبِرْ فَإِنَّكَ تُفْطِرُ عِنْدَنَا الْقَابِلَةَ، فَدَعَا بِمُصْحَفٍ فَنَشَرَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَقُتِلَ، وَهُوَ بَيْنَ يَدَيْهِ» (رواه ابن احمد والموصلى)
فضائل حضرت عثمان ذو النورین
حضرت عثمانؓ کے آزاد کردہ غلام مسلم ابن سعید سے روایت ہے کہ (جس دن حضرت عثمانؓ شہید کئے گئے اس دن) انہوں نے بیس غلام آزاد کئے اور سراویل (پاجامہ) منگوایا (اور پہنا) اور اس کو بہت مضبوط باندھا اور اس سے پہلے کبھی نہ زمانہ جاہلیت میں (یعنی اسلام لانے سے پہلے) پہنا تھا اور نہ اسلام لانے کے بعد کبھی پہنا تھا اور فرمایا کہ میں نے گذشتہ رات خواب میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اور آپ ﷺ کے ساتھ ابو بکرؓ و عمرؓ کو بھی، ان حضرات نے مجھ سے فرمایا کہ عثمان! صبر پر قائم رہو تم کل ہمارے پاس روزہ افطار کرو گے۔ اس کے بعد آپؓ نے مصحف (قرآن مجید) منگوایا اور اس کو سامنے رکھ کر کھولا (اور تلاوت شروع کر دی) پھر آپؓ اسی حال میں شہید کئے گئے کہ مصحف آپ کے سامنے تھا۔ (مسند احمد، مسند ابو یعلیٰ، موصلی)

تشریح
جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت عثمان ؓ کو نور قلب یعنی ایمانی فراست سے اور بعض غیبی اشارات سے یقین ہو گیا تھا کہ باغیوں بلوائیوں کا یہ فتنہ میری شہادت کا تکوینی انتظام ہے، جس کی پیشن گوئی رسول اللہ ﷺ نے مختلف مواقع پر فرمائی تھی اور اس حدیث میں گذری ہوئی رات کے جس خواب کا ذکر ہے، جس میں ان کو رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے صاحبین حضرت ابو بکرؓ و حضرت عمرؓ کی زیارت ہوئی اور انہوں نے فرمایا کہ عثمان! صبر اور تسلیم و رضا کے راستے پر قائم رہو، کل تم ہمارے پاس آ کر روزہ افطار کرو گے، یہ آخری غیبی تلقین تھی جس کے بعد حضرت عثمان ؓ نے اس شہادت کی تیاری شروع فرمائی۔ جس رات کو یہ خواب دیکھا پنجشنبہ اور جمعہ کی درمیانی رات تھی، اگلے دن جمعہ کو آپؓ نے روزہ رکھا مختلف انواع کے اعمال صالحہ کا خاص طور سے اہتمام فرمایا، بیس غلام اس دن آزاد کئے، اور جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے آپؓ نے پاجامہ منگوایا جو اس سے پہلے کبھی آپؓ نے نہیں پہنا تھا، عرب میں عام طور سے تہبند پہننے کا رواج تھا، آپؓ بھی ہمیشہ تہبند ہی پہنتے تھے، لیکن چونکہ آپؓ پر شرم و حیا کا غلبہ تھا، اس لئے آپؓ نے اس دن بجائے تہبند کے پاجامہ منگوا کر پہنا اور اس کو بہت مضبوط باندھا تا کہ شہادت اور موت کے بعد بھی جسم کا وہ حصہ نہ کھلے جس کا کھلنا شرم و حیا کے خلاف ہے پھر آپؓ نے قرآن شریف منگوایا اور اس کی تلاوت شروع فرما دی اسی حال میں بدبخت ظالم باغیوں نے آپ کو شہید کیا، روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ شہادت کے وقت سورہ بقرہ کا وہ حصہ تلاوت فرما رہے تھے جہاں پاروں کی تقسیم کے لحاظ سے پہلا پارہ الم ختم ہوتا ہے آپؓ کے خون کے قطرے اس آیت پر گرے: فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّـهُ ۚوَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (1) یہ منجانب اللہ اس کا اعلان ہے کہ ان بدبخت ظالموں سے اللہ تعالیٰ پورا انتقام لے گا۔ (یہاں اپنے معمول کے مطابق حضرت عثمان ؓ سے متعلق فضائل و مناقب کی چند حدیثوں کا عام فہم ترجمہ اور صرف بقدر ضرورت تشریح و توضیح کی گئی ہے جیسا کہ پہلے بھی لکھا جا چکا ہے، واقعات کی تفصیل حضرت شاہ ولی اللہ کی "ازالة الخفا" اور سیر و تاریخ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے)۔ حضرت عثمان ؓ کے فضائل کے سلسلہ میں جو حدیثیں یہاں تک درج کی گئیں ان میں ان کی ان دو اہم فضیلتوں کا ذخر نہیں آیا جن میں وہ تمام صحابہ کرام اور خلفائے راشدین میں بھی ممتاز و منفرد ہیں۔ ایک یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے یکے بعد دیگرے اپنے دو صاحبزادیوں کا ان کے ساتھ نکاح کیا اسی وجہ سے ان کو ذو النورین کہا جاتا ہے اور دوسری یہ کہ انہوں نے حضور ﷺ کی صاحبزادی اپنی زوجہ محترمہ حضرت رقیہ کے ساتھ دو دفعہ ہجرت فرمائی، پہلی ہجرت مکہ مکرمہ سے حبشہ کی طرف اور دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی طرف۔ اب چند وہ حدیثیں نذر ناظرین کی جا رہی ہیں جن میں ان دونوں فضیلتوں کا ذکر ہے۔
Top