معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2032
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " بَيْنَمَا رَجُلٌ يَسُوقُ بَقَرَةً إِذْ أَعْيَى فَرَكِبَهَا، فَقَالَتْ: إِنَّا لَمْ نُخْلَقْ لِهَذَا، إِنَّمَا خُلِقْنَا لِحَرَاثَةِ الْاَرْضِ" فَقَالَ النَّاسُ: سُبْحَانَ اللَّهِ بَقَرَةٌ تَتَكَلَّمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِنِّي أُومِنُ بِهِ، أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، - وَمَا هُمَا ثَمَّ – وَقَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ فِي غَنَمِهِ إِذْ عَدَا الذِّئْبُ، عَلَى شَاةٍ مِنْهَا فَاَخَذَهَا، فَاَدْرَكَهَا صَاحِبُهَا فَاسْتَنْقَذَهَا، فَقَالَ لَهُ الذِّئْبُ فَمَنْ لَهَا يَوْمَ السَّبُعِ، يَوْمَ لاَ رَاعِيَ لَهَا غَيْرِي " فَقَالَ النَّاسُ: سُبْحَانَ اللَّهِ ذِئْبٌ يَتَكَلَّمُ، فَقَالَ: «أُومِنُ بِهِ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، وَمَا هُمَا ثَمَّ» (رواه البخارى)
فضائل شیخین
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ (ایک مجلس میں) رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ: ایک آدمی ایک بیل کو ہانکے لئے جا رہا تھا وہ (چلتے چلتے) تھک گیا، تو وہ بیل پر سوار ہو گیا، بیل نے کہا کہ ہم اس لئے پیدا نہیں کئے گئے تھے ہم تو زمین کی کاشت کے کام (جتائی وغیرہ) کے لئے پیدا کئے گئے تھے تو (حاضرین مجلس میں سے بعض) آدمیوں نے کہا، سبحان اللہ بیل بھی بات کرتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرا ایمان ہے، اس پر کہ (ایسا ہی ہوا) اور ابو بکر و عمر کا بھی ایمان ہے (راوی کا بیان ہے کہ) اس مجلس میں (اس وقت) وہ دونوں موجود نہیں تھے۔ اور حضور ﷺ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ ایک آدمی اپنی بکریوں کے ریوڑ میں تھا ایک بھیڑئیے نے ریوڑ کی ایک بکری پر حملہ کر کے اس کو اٹھا لیا، بکریوں والے نے اس کو جا پکڑا اور بھیڑئیے سے بکری کو چھڑا لیا تو بھیڑئیے نے اس سے کہا کہ ان بکریوں کے لئے کون (محافظ اور رکھوالا) ہو گا "یوم السبع" میں، وہ دن وہ ہو گا جس دن میرے سوا ان بکریوں کے اور کوئی چرواہا اور محافظ نہ ہو گا تو (حاضرین میں سے بعض) لوگوں نے کہا سبحان اللہ! بھیڑیا بھی باتیں کرتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرا ایمان ہے کہ یہ بات حق ہے اور ابو بکر و عمر کا بھی ایمان ہے، اور وہ دونوں (اس وقت) وہاں موجود نہ تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے پیغمبر ﷺ وحی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر جو کچھ بیان فرمائیں اس پر یقین کیا جائے اور اس کو بغیر شک و شبہ کے حق مانا جائے اگرچہ دنیا کے عام حالات کے لحاظ سے وہ بات ناقابل فہم ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے بیل اور بھیڑئیے کے کلام کرنے کی جو بات بیان فرمائی وہ اسی طرح کی بات تھی، اسی وجہ سے بعض حاضرین نے تعجب کا اظہار کیا، تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ میرا ایمان ہے کہ یہ حق ہے اور اپنے ساتھ ابو بکرؓ و عمرؓ کا بھی نام لے کر فرمایا کہ ان دونوں کا بھی ایمان ہے کہ یہ حق ہے۔ راوی کا بیان ہے کہ یہ بات آپ ﷺ نے ایسے وقت فرمائی جب کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی وہاں موجود نہ تھا اس لئے یہ شبہ بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ان دونوں کا لحاظ کرتے ہوئے اور ان کو خوش کرنے کے لئے یہ بات فرمائی ہو ..... یہ رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے شیخین (ابو بکرؓ و عمرؓ) کے کمال ایمان اور ایمانی کیفیت میں حضور ﷺ کے قریب تر ہونے اور اس بارے میں ان کے اختصاص و امتیاز کی دلیل اور شہادت ہے اور ان دونوں حضرات کے بارے میں حضور ﷺ کے اس رویہ کی یہ ایک اہم مثال ہے جس کا ذکر حضرت علی مرتضیٰؓ نے اپنے مندرجہ بالا بیان میں کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بہت سے موقعوں پر اپنے ساتھ ان دونوں کا ذکر بھی نام لے کر فرمایا کرتے تھے۔ ؓ وارضاھما۔ حدیث کے آخری حصہ میں "یوم السبع" کا لفظ ہے، اس کا ترجمہ نہیں کیا گیا ہے شارحین نے اس کی تشریح میں متعدد اقوال نقل کئے ہیں، اس عاجز کے نزدیک راجح یہ قول ہے کہ اس سے مراد قیامت کے قریب کے وہ دن ہیں جب قیامت کے آثار ظاہر ہو جائیں گے اس وقت لوگ بھیڑ بکری وغیرہ اپنے مویشیوں کی حفاظت اور دیکھ بھال کو بالکل بھول جائیں گے وہ لاوارث ہو کر جنگلوں میں پھریں گے اور گویا بھیڑئیے وغیرہ درندے ہی ان کے وارث و مالک ہوں گے۔ اسی لحاظ سے اس کو "یوم السبع" (درندوں کا دن) کہا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
Top