معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2031
عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: وُضِعَ عُمَرُ عَلَى سَرِيرِهِ فَتَكَنَّفَهُ النَّاسُ، يَدْعُونَ وَيُصَلُّونَ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ وَأَنَا فِيهِمْ، فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا رَجُلٌ آخِذٌ مَنْكِبِي، فَإِذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَتَرَحَّمَ عَلَى عُمَرَ، وَقَالَ: مَا خَلَّفْتَ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَلْقَى اللَّهَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ مِنْكَ، وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأَظُنُّ أَنْ يَجْعَلَكَ اللَّهُ مَعَ صَاحِبَيْكَ، وَحَسِبْتُ إِنِّي كُنْتُ كَثِيرًا أَسْمَعُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «ذَهَبْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَدَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَخَرَجْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ» (رواه البخارى ومسلم)
فضائل شیخین
ابن ملیکہ (تابعی) سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن عباس ؓ سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ حضرت عمرؓ کو (وفات کے بعد) جب (غسل دینے کے لئے) تخت پر رکھا گیا تو لوگ ان کے ارد گرد کھڑے تھے اور ان کے لئے دعائیں اور اللہ تعالیٰ سے رحمت کی استدعا کر رہے تھے، قبل اس کے کہ ان کو تخت سے اٹھایا جائے اور میں بھی ان لوگوں میں کھڑا تھا، تو اچانک میں نے محسوس کیا کہ کوئی آدمی میرا کندھا پکڑے کھڑا ہے (میں نے دیکھا) کہ وہ حضرت علی ابن ابی طالبؓ ہیں، وہ حضرت عمرؓ کے لئے رحمت کی دعائیں کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تم نے اپنے بعد کوئی ایسا شخص نہیں چھوڑا کہ مجھے اس کی خواہش ہو کہ میں اس شخص کے سے عمل لے کر اللہ کے حضور میں حاضر ہوں، اور خدا کی قسم! میں یہی گمان کرتا تھا کہ تم کو اللہ تعالیٰ تمہارے دونوں (پیش رو) ساتھیوں (رسول اللہ ﷺ و ابو بکر صدیقؓ) کے ساتھ کر دے گا، میں (یہ اس لئے) سمجھتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ سے بہت موقعوں پر سنتا تھا آپ ﷺ فرماتے تھے (فلاں کام کے لئے) میں گیا اور ابو بکر و عمر بھی گئے اور (مسجد میں فلاں مکان میں) میں داخل ہوا اور میرے ساتھ ابو بکر و عمر بھی داخل ہوئے اور میں نکلا اور ابو بکرؓ و عمرؓ بھی نکلے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
گزشتہ صفحات میں پہلے حضرت صدیق اکبرؓ کے فضائل و مناقب سے متعلق حدیثیں نذر ناظرین کی گئی تھیں، اس کے بعد حضرت فاروق اعظمؓ کے فضائل و مناقب سے متعلق ..... اب آنحضرت ﷺ کے چند وہ ارشادات پیش کئے جا رہے ہیں، جن میں آپ ﷺ نے اپنے ان دونوں خاص رفیقوں کا ایک ساتھ اس طرح ذکر فرمایا ہے، جس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کی نظر مبارک میں ان دونوں کا خاص الخاص مقام تھا اور بہت سے موقعوں پر آپ نے ان دونوں کا اپنے ساتھ اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ گویا یہ دونوں آپ ﷺ کے شریک حال اور خاص رفیق کار ہیں ..... اس سلسلہ میں سب سے پہلے حضرت ابن عباسؓ کی روایت سے حضرت علی مرتضیٰ کا ایک بیان نذر ناظرین کیا جا رہا ہے۔ تشریح ..... حضرت علی مرتضیٰ ؓ کا یہ بیان کسی وضاحت اور تشریح کا محتاج نہیں ہے، اس میں انہوں نے یہ جو فرمایا کہ "اللہ کی قسم! میں یہی گمان کرتا تھا کہ تہ تم کو تمہارے دونوں ساتھیوں (رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر صدیقؓ) کے ساتھ کر دے گا"۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مجھے یہی امید تھی کہ تم انہیں کے ساتھ دفن کئے جاؤ گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آخرت میں جنت میں تم ان کے ساتھ کر دئیے جاؤ گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں ہی مراد ہوں .... اور اس عاجز کے نزدیک یہی راجح ہے۔ حضرت علی مرتضیٰؓ نے اپنے اس بیان میں اس واقعی حقیقت کا واضح طور پر اظہار فرما دیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا اپنے ان دونوں صاحبوں رفیقوں کے ساتھ خاص الخاص تعلق تھا جو صرف انہی کا حصہ تھا۔ حضرت علی مرتضیٰ ؓ نے اپنے اس کلام کے شروع میں یہ جو فرمایا "مَا خَلَّفْتَ أَحَدًا الخ" (یعنی تم نے اپنے بعد اللہ کا کوئی ایسا بندہ نہیں چھوڑا جس کے اعمال کے مثل اعمال لے کر اللہ کے حضور میں حاضر ہونے کی مجھے تمنا اور خواہش ہو) اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی مرتضیٰؓ کی تمنا اور خواہش تھی کہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں حضرت عمرؓ کے جیسے اعمال لے کر حاضر ہوں اور حضرت عمرؓ کے بعد کوئی کے بعد کوئی آدمی ایسا نہیں رہا۔ حافظ ابن حجرؒ نے اسی حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے: وَقد اخْرُج بن أَبِي شَيْبَةَ وَمُسَدَّدٌ مِنْ طَرِيقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيٍّ نَحْوَ هَذَا الْكَلَامِ وَسَنَدُهُ صَحِيحٌ وَهُوَ شَاهِدٌ جَيِّدٌ لِحَدِيثِ ابن عباس لكون مخرجه من ال على رضى الله عنهم .(فتح البارى جزء 14 صفحه 374 طبع انصارى دهلى) ترجمہ .... اور ابن ابی شیبہ اور مسدد نے جعفر صادق کے طریقے سے روایت کیا ہے انہوں نے اپنے والد محمد (باقر) سے خود حضرت علیؓ سے اس قسم کا کلام روایت کیا ہے اور اس کی اسناد صحیح ہے اور یہ روایت ابن عباس کی اس حدیث کے لئے بہت اچھا شاہد ہے کیوں کہ یہ خود حضرت علیؓ کی اولاد کی روایت ہے۔
Top