معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2019
عَنْ عُمَرَ قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَتَصَدَّقَ، وَوَافَقَ ذَلِكَ مَالًا عِنْدِي، فَقُلْتُ: الْيَوْمَ أَسْبِقُ أَبَا بَكْرٍ إِنْ سَبَقْتُهُ يَوْمًا. قال: فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ؟» قُلْتُ: مِثْلَهُ، قَالَ: فَأَتَى أَبُو بَكْرٍ بِكُلِّ مَا عِنْدَهُ. فَقَالَ: «يَا أَبَا بَكْرٍ مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ؟» فَقَالَ: أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ. قُلْتُ: لَا أُسَابِقُكَ إِلَى شَيْءٍ أَبَدًا. (رواه الترمذى وابوداؤد)
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم لوگوں کو صدقہ کرنے (یعنی راہ خدا میں مال پیش کرنے) کا حکم فرمایا اور یہ حکم ایسے وقت فرمایا جب کہ (حسن اتفاق سے) میرے پاس مال بڑی مقدار میں تھا تو میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ اگر میں کبھی ابو بکر سے آگے نکل سکتا ہوں تو آج آگے نکل جاؤں گا (حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ) میں گھر آیا اور گھر میں جو کچھ مال تھا میں نے اس میں سے پورا آدھا لا کر حضو ر ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ تم نے اپنے اہل و عیال کے لئے کیا باقی چھوڑا ہے۔ میں نے عرض کیا (جتنا یہ لے کر آیا ہوں اتنا ہی گھر والوں کے لئے باقی چھوڑا ہے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں اور ابو بکرؓ وہ سب کچھ لے آئے جو ان کے پاس تھا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ ابو بکر اپنے اہل و عیال کے لئے کیا باقی چھوڑا۔ انہوں نے عرض کیا کہ گھر والوں کے لئے میں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو باقی چھوڑا ہے(حضرت عمرؓ کہتے ہیں) میں نے (اپنے دل سے) کہا کہ میں کبھی بھی کسی چیز میں ابو بکرؓ سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ (جامع ترمذی و سنن ابی داؤد)

تشریح
ہو سکتا ہے کہ حضرت عمرؓ جو اپنی کل دولت کا نصف لائے تھے، وہ مقدار میں حضرت ابو بکر کے لائے ہوئے سے زیادہ ہو مگر حضرت ابو بکرؓ کا یہ عمل اور حال کہ انہوں نے گھر والوں کے لئے کچھ بھی نہ چھوڑا بس اللہ و رسول پر ایمان اور ان کی رضا جوئی کو سب کچھ سمجھ کر اس پر قناعت کر لی بلاشبہ یہ مقام بہت بلند ہے۔
Top