حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت محمد بن حنفیہ سے روایت ہے بیان فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ماجد (حضرت علی مرتضیٰ ؓ) سے دریافت کیا کہ امت میں رسول اللہ ﷺ .... کے بعد سب سے بہتر و افضل کون ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ابو بکر۔ میں نے کہا ان کے بعد کون؟ تو انہوں نے فرمایا کہ عمرؓ..... (محمد بن الحنفیہ کہتے ہیں) پھر مجھے خطرہ پیدا ہوا کہ (اگر میں اسی طرح دریافت کروں کہ عمر کے بعد کون؟) تو یہ نہ کہہ دیں کہ عمرؓ کی بعد عثمان (اس لئے میں نے سوال اس طرح کیا) پھر عمر کے بعد آپ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ابو بکر۔ کہ میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلمانوں میں کا ایک آدمی ہوں۔ (صحیح بخاری)
تشریح
محمد بن الحنفیہ حضرت علیؓ کے صاحبزادے ہیں حضرت فاطمہ زہرا ؓ کے بطن سے نہیں بلکہ حضرت علیؓ کے حرم میں داخل ایک دوسری خاتون حنفیہ سے جن کا اصل نام خولہ تھا اپنے قبیلہ کی نسبت سے حنفیہ کے نام سے معروف ہیں حضرت صدیق اکبرؓ کے زمانہ خلافت میں نبوت کے جھوٹے مدعی مسیلمہ کذاب اور اس کے ساتھیوں سے جو کہاد ہوا تو فتح کے بعد جنگی قانون کے مطابق جو مرد اور عورتیں گرفتار ہو کر آئے ان میں یہ خولہ بھی تھیں، یہ حضرت علیؓ کے حوالہ کر دی گئیں اور ان کے حرم میں داخؒ ہو گئیں۔ محمد بن الحنفیہ انہی کے بطن سے حضرت علیؓ کے صاحبزادے ہیں۔ علم اور صلاح و تقویٰ اور دوسری صفات کمال کے لحاظ سے بلند مقام تابعین میں سے ہیں۔ انہی کا یہ بیان ہے کہ میں نے والد ماجد حضرت علی مرتضیٰؓ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد امت میں کون افضل ہے؟ تو انہوں نے پہلے نمبر پر حضرت ابو بکر صدیقؓ کا اور دوسرے نمبر پر حضرت عمرؓ کا نام لیا اور اپنے بارے میں فرمایا کہ میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلمانوں میں کا ایک آدمی ہوں۔ ظاہر ہے کہ حضرت علیؓ نے یہ بطور تواضع و انکسار، فرمایا، ورنہ امت میں اس وقت سب سے افضل خود حضرت علی مرتضیٰؓ ہی تھے، حضرت عثمانؓ اس سے پہلے شہید کئے جا چکے تھے ..... یہ روایت تو محمد بن الحنفیہ کی ہے۔ محدثین کے نزدیک حضرت علی مرتضیٰ ؓ سے یہ روایت تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد امت میں سب سے افضل اور بلند مرتبہ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ ہیں اور یہ کہ جو کوئی مجھے ان دونوں سے افضل قرار دے گا میں اس پر حد (شرعی سزا) جاری کروں گا۔