معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2007
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا مِنْ نَبِيٍّ يَمْرَضُ إِلَّا خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ»، وَكَانَ فِي شَكْوَاهُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ، أَخَذَتْهُ بُحَّةٌ شَدِيدَةٌ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: {مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ} فَعَلِمْتُ أَنَّهُ خُيِّرَ. (رواه البخارى ومسلم)
وفات اور مرض وفات
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے بیان کرتی ہیں کہ میں نے سنا تھا رسول اللہ ﷺ سے آپ فرماتے تھے (تندرستی کی حالت میں) کہ ہر نبی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ ہے کہ جب وہ مریض ہوتے ہیں (یعنی جب وہ مرض وفات میں مبتلا کئے جاتے ہیں) تو ان کو اختیار دیا جاتا ہے کہ اگر دنیا میں ابھی کچھ مدت اور رہنا چاہیں تو رہیں اور اگر اب عالم آخرت کا قیام پسند کریں تو اس کو اختیار کر لیں۔ آگے حضرت صدیقہؓ بیان فرماتیں ہیں کہ) رسول اللہ ﷺ کو آپ کے مرض وفات میں سانس کی سخت تکلیف ہوئی تو میں نے حضور ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا "مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ" تو میں نے سمجھ لیا کہ آپ ﷺ کو وہ اختیار دے دیا گیا (اور آپ ﷺ نے عالم آخرت کو اختیار فرما لیا)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حدیث کے مضمون کی ضروری وضاحت اور تشریح ترجمہ کے ضمن میں کر دی گئی ہے۔ اس حدیث میں حضرت صدیقہ ؓ نے حضور ﷺ کے مرض وفات کی آخری مرحلہ کا یہ واقعہ بیان فرمایا کہ جب سانس کی شدید تکلیف شروع ہوئی۔ (جو گویا قرب وفات کی علامت ہوتی ہے) تو آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر عرض کیا کہ "مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ..... الخ" (اے اللہ اب اپنے ان مقبول بندوں کے پاص پہنچا دے جن پر تیرا خصوصی انعام ہوا ہے، انبیاء علیہم السلام، صدیقین، شہداء اور صالحین) سورہ نساء کی آیت نمبر ۶۹ میں ان چاروں طبقات پر اللہ تعالیٰ کے خصوصی انعام کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ آگے درج ہونے والی حدیث سے اس آخری وقت اور آخری گھڑی کی کچھ مزید تفصیلات معلوم ہوں گی۔
Top