معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 1994
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَتْلَى أُحُدٍ بَعْدَ ثَمَانِي سِنِينَ، كَالْمُوَدِّعِ لِلْأَحْيَاءِ وَالأَمْوَاتِ، ثُمَّ طَلَعَ المِنْبَرَ فَقَالَ: «إِنِّي بَيْنَ أَيْدِيكُمْ فَرَطٌ، وَأَنَا عَلَيْكُمْ شَهِيدٌ، وَإِنَّ مَوْعِدَكُمُ الحَوْضُ، وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَيْهِ مِنْ مَقَامِي هَذَا، وَإِنِّي لَسْتُ أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا، وَلَكِنِّي أَخْشَى عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا أَنْ تَنَافَسُوهَا فِيْهَ» (رواه البخارى ومسلم)
وفات اور مرض وفات
حضرت عقبہ بن عامر جہنی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شہدائے احد پر آٹھ سال کے بعد نماز پڑھی، اس شخص کی طرح جو الوداع کہنے والا ہو زندوں کو اور مردوں کو، پھر آپ (مسجد شریف آ کر) منبر پر رونق افروز ہوئے اور آپ نے صحابہ کرامؓ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تمہارے آگے فرط (میر منزل) کی طرح جانے والا ہوں اور میں تمہارے بارے میں شہادت دینے والا ہوں اور تم سے ملاقات کی جگہ حوض کوثر ہے، اور میں اپنی اسی جگہ سے اس حوض کوثر کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا فرما دی گئی ہیں، زمین کے خزانوں کی کنجیاں، اور مجھے تمہارے بارے میں اس کا خطرہ نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے، لیکن مجھے اس کا ڈر ہے کہ میرے بعد تمہاری رغبت اور چاہت کا رخ دنیا کی طرح ہو جائے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
صاحب مشکوٰۃ المصابیح نے رسول اللہ ﷺ کے فضائل اور ولادت باسعادت اور بعثت و آغاز اور آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ کے ابواب کے سلسلہ کو باب وفات پر ختم کیا ہے جس میں حضور ﷺ کی وفات اور مرض وفات سے متعلق احادیث ذکر کی ہیں، اسی کی پیروی کرتے ہوئے یہاں بھی آپ ﷺ کی وفات اور مرض وفات سے متعلق چند حدیثوں کے ذکر پر اس سلسلہ کو ختم کیا جاتا ہے۔ پہلے یہ ذکر کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے وفات کے بارے میں اس پر تو محدثین اور اہل سیر و تاریخ کا اتفاق ہے کہ ۱۱ ہجری ربیع الاول کا مہینہ اور دو شنبہ کا دن تھا، لیکن تاریخ کے بارے میں، تاریخ ولادت ہی کی طرح روایات اور اقوال مختلف ہیں، جہاں تک اپنا مطالعہ ہے حدیث کی کسی کتاب میں کوئی روایت نہیں ہے جس میں حضور کی تاریخ وفات کا ذکر کیا گیا ہو، تاریخ اور سیر کی کتابوں میں تین تاریخوں کی روایات ذخر کی گئی ہیں، ربیع الاول کی پہلی، دوسری اور بارہویں اور تاریخ ولادت کی طرح وفات کی تاریخ بھی بارہویں ہی زیادہ مشہور ہے لیکن بعض محققین نے لکھاہے کہ تاریخ وفات ۱۲۔ ربیع الاول کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتی کیوں کہ یہ بات مسلم اور صحیح ترین روایات سے ثابت ہے کہ وفات سے قریبا پونے تین مہینے پہلے آپ ﷺ نے جو حج کیا (حجۃ الوداع) تو ۹۔ ذی الحجہ کو جمعہ ہونے کی صورت میں ۱۲۔ ربیع الاول کو دو شنبہ کا دن کسی طرح نہیں ہو سکتا ذی الحجہ، محرم، صفر تینوں مہینوں کو خواہ ۳۰۔ ۳۰ دن کا فرض کیا جائے یا ۲۹۔ ۲۹ دن کا یا بعض کو ۲۹ اور بعض کو ۳۰ دن کا کسی صورت میں بھی ۱۲۔ ربیع الاول کو دو شنبہ کا دن نہیں ہو سکتا ..... ہاں اگر تینوں مہینوں کو ۲۹ دن کا مانا جائے (جو بہت مستبعد ہے اور جس کا امکان بہت کم ہے) تو ربیع الاول کو پہلے دو شنبہ کو ۲ تاریخ ہو گی اور اگر ایک مہینہ کو ۲۰ کا مانا جائے (جو بہت مستبعد ہے اور جس کا امکان ۳۰۔ ۳۰ دن کا مانا جائے (جو بکثرت ہوتا ہے) تو ربیع الاول کے پہلے دو شنبہ کو یکم تاریخ ہو گی۔ ان سب حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے زیادہ قرین قیاس یکم ربیع الاول والی روایت ہے۔ واللہ اعلم۔ اب پہلے آنحضرت ﷺ کے بعض وہ ارشادات ذکر کئے جائیں گے جن میں آپ ﷺ نے اشارۃ یا صراحۃً صحابہ کرام کو اپنی وفات کے قریب ہونے کی اطلاع دی تھی نیز بعض وہ حدیثیں جن میں مرض وفات کے بعض اہم واقعات بیان فرمائے گئے ہیں، آخر میں وہ حدیثیں جن میں سانحہ وفات کا بیان ہے، اللہ تعالیٰ ان احادیث مبارکہ کو اس عاجز راقم سطور کے لئے اور ناظرین کرام کے لئے ہدایت و سعادت کا وسیلہ بنائے اور ان کی برکت سے حسن خاتمہ نصیب فرمائے۔ اَللَّهُمَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِيْنَ وَاَلْحِقْنَا بِالصَّالِحِيْنَ. تشریح ..... واقعہ یہ ہے کہ غزوہ احد میں جو صحابہ کرامؓ شہید ہوئے تھے (جن میں حضور ﷺ کے محبوب و محترم چچا حمزہ ؓ بھی تھے) ان پر نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی تھی (بغیر نماز جنازہ ہی دفن کئے گئے تھے) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت ﷺ پر منکشف کیا گیا کہ آپ کا سفر آخرت قریب ہے تو آپ ایک دن مشہد احد تشریف لے گئے (جہاں شہدائے احد مدفون ہیں) اور آپ نے ان پر جنازہ کی نماز پڑھی ..... صحیح البخاری کتاب الجنائز کی اسی حدیث کی اس روایت میں ہے "صَلَّى عَلَى اَهْلِ اُحُد صَلاتهُ عَلَى الْمَيِّتِ" اس میں صراحت ہے کہ آپ نے آٹھ سال پہلے شہید ہو کر دفن ہونے والوں پر اسی طرح نماز پڑھی جس طرح میت کی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے ..... آگے حدیث کے راوی عقبہ بن عامر کے الفاظ ہیں "كَالْمُوَدِّعِ لِلْأَحْيَاءِ وَالأَمْوَاتِ" مطلب یہ ہے کہ اس نماز میں حضور ﷺ کا حال وہ تھا جو زندوں اور مردوں سب کو الوداع کہنے والے اور رخصت کرنے والے کسی شخص کا ہوتا ہے۔آگے حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ پھر وہاں سے آپ مسجد تشریف لائے (غالباً نماز کا وقت ہو گا اور مسجد میں لوگ جماعت سے نماز ادا کرنے کے لئے جمع ہوں گے) آپ منبر پر رونق افروز ہوئے اور خاص اہتمام کے ساتھ یہ چند باتیں ارشاد فرمائیں ..... اول یہ کہ میں تم سے پہلے اور تم سے آگے عالم آخرت کی طرف "فرط" کی طرح جانے والا ہوں ..... عرب میں دستور تھا کہ جب قافہ کسی طرف جانے والا ہوتا تو ایک سمجھدار اور تجربہ کار آدمی، آگے کی منزل کی طرف پہلے روانہ ہو جاتا، جو قافہ سے پہلے منزل پہ پہنچ کر قافلہ کے لئے ضروری انتظامات کر لیتا اس کو فرط کہا جاتا تھا (صاحب مظاہر حق نے فرط کا ترجمہ میر منزل کیا ہے) ..... اس ارشاد میں حضور ﷺ نے اپنے سفر آخرت کے قریب ہونے کا اشارہ دینے کے ساتھ صحابہ کرام کو تسلی دی کہ میرا تم سے پہلے چلا جانا تمہارے لئے باعث خیر ہو گا، میں آگے جا کر تمہارے لئے وہ کروں گا جو فرط کرتا ہے اور جس طرح قافلہ روانہ ہونے کے بعد منزل پر پہنچ کر پھر فرط سے مل جاتا ہے اسی طرح تم بھی مجھ سے آ ملو گے ..... آگے آپ نے فرمایا اور میں تمہارے بارے میں شہادت دوں گا کہ تم ایمان لائے تھے اور تم نے میرا اتباع کیا اور راہ حق میں ساتھ دیا تھا ..... آگے حضور ﷺ نے فرمایا کہ وہاں ملاقات حوض کوثر پر ہو گی۔ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اس حوض کوثر کو میں اس وقت اپنی اسی جگہ سے دیکھ رہا ہوں (یعنی اللہ تعالیٰ نے سارے پردے اٹھا کر آخرت کے حوض کوثر کو میرے سامنے کر دیا ہے) اس کے ساتھ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس زمین اور اس دنیا کے خزانوں کی کنجیاں مجھے عطا فرما دی گئی ہیں یہ بشارت تھی کہ دنیا کے خزانوں کی کنجیاں میری امت کو عطا فرمائے جانے کا خداوندی فیصلہ ہو چکا (واقعہ یہ ہے کہ اس کا ظہار عہد صحابہ ہی میں ہو گیا)۔ اس خطاب کے آخر میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس کا اندیشہ نہیں ہے کہ تم پھر مشرک ہو جاؤ گے اس طرف سے مجھے اطمینان ہے، ہاں یہ خطرہ ضرور ہے کہ تمہاری رغبت اور طلب کا رخ دنیا کی زینتوں، لذتوں کی طرف ہو جائے، حالانکہ مومن کے لئے رغبت اور چاہت کی چیز صرف جنت و نعمہائے آخرت ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے "وَفِي ذَٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ"
Top