معارف الحدیث - علاماتِ قیامت - حدیث نمبر 1952
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا اتُّخِذَ الْفَيْءُ دُوَلاً وَالأَمَانَةُ مَغْنَمًا وَالزَّكَاةُ مَغْرَمًا وَتُعُلِّمَ لِغَيْرِ الدِّينِ وَأَطَاعَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ وَعَقَّ أُمَّهُ وَأَدْنَى صَدِيقَهُ وَأَقْصَى أَبَاهُ وَظَهَرَتِ الأَصْوَاتُ فِي الْمَسَاجِدِ وَسَادَ الْقَبِيلَةَ فَاسِقُهُمْ وَكَانَ زَعِيمُ الْقَوْمِ أَرْذَلَهُمْ وَأُكْرِمَ الرَّجُلُ مَخَافَةَ شَرِّهِ وَظَهَرَتِ الْقَيْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ وَشُرِبَتِ الْخُمُورُ وَلَعَنَ آخِرُ هَذِهِ الأُمَّةِ أَوَّلَهَا فَلْيَرْتَقِبُوا عِنْدَ ذَلِكَ رِيحًا حَمْرَاءَ وَزَلْزَلَةً وَخَسْفًا وَمَسْخًا وَقَذْفًا وَآيَاتٍ تَتَابَعُ كَنِظَامٍ بَالٍ قُطِعَ سِلْكُهُ فَتَتَابَعَ. (رواه الترمذى)
قیامت کی عمومی نشانیاں
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب غنیمت کو بنایا جانے لگے ذاتی دولت اور امانت کو مال غنیمت اور زکوٰۃ کو تاوان اور علم حاصل کیا جانے لگے دین کے علاوہ (دنیوی) دوسری اغراض کیلئے اور لوگ فرمابرداری کریں اپنی بیوی کی اور نافرمانی کریں اپنی ماں کی اور اپنے سے لگائیں دوستوں کو اور دور کریں باپ کو اور بلند ہو آوازیں مسجدوں میں اور قبیلہ کی سرداری کرے ان میں کا فسق اور قوم کا لیڈر ایسا شخص ہو جو ان میں سب سے کمینہ ہوں اور جب کسی آدمی کا اکرام کیا جائے اس کے شر کے ڈر سے اور (پیشہ ور) گانے والیاں اور باجے گاجے عام ہوں اور شرابیں پی جائیں اور امت کے بعد والے اس کے اگلوں پر لعنت کریں تو اس وقت انتظار کرو سرخ آندھیوں کا اور زلزلوں کا اور زمین میں دھنسائے جانے کا اور صورتیں مسخ کئے جانے کا اور پتھر برسنے کا اور (ان کے علاوہ اس طرح کی) اور نشانیوں کا جو پے در پے اس طرح آئینگی جس طرح ایک ہار ہو کاٹ دیا گیا ہو اس کا دھاگا تو پے در پے گریں اس کے دانے۔ (جامع ترمذی)

تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی قیامت سے پہلے پیدا ہونے والی پندرہ خرابیوں کا ذکر فرمایا ہے پہلی یہ کہ مال غنیمت جو دراصل مجاہدین اور غازیوں کا حق ہے اور جس میں فقراء و مساکین کا بھی حصہ ہے ارباب اختیار اس میں ذاتی دولت کی طرح تصرف کرنے لگیں گے دوسری یہ کہ لوگ حکومت کو زکوة خوش دلی سے ادا نہیں کریں گے بلکہ اس کو ایک طرح کا تاوان سمجھیں گے (1) تیسری یہ کہ علم دین جو دین ہی کے لئے اور اپنی آخرت ہی کے لیے حاصل کیا جانا چاہئے وہ غیر دینی اغراض کے لئے یعنی دنیوی منافع اور مقاصد کے لئے حاصل کیا جانے لگے گا چوتھی اور پانچویں یہ کہ لوگ اپنی بیویوں کی تابعداری اور نازبرداری کریں گے اور ماؤں کے ساتھ ان کا رویہ نافرمانی اور ایذارسانی کا ہوگا اور چھٹی اور ساتویں یہ کہ یار دوستوں کو گلے لگایا جائے گا اور باب دھتکارہ جائے گا اور اس کے ساتھ بدسلوکی کی جائے گی آٹھویں یہ کہ مسجد جو خانہ خدا ہیں اور از راہ ادب ان میں بلا ضرورت زور سے بولنا منع ہے ان کا ادب و احترام نہیں رہے گا ان میں آوازیں بلند ہوں گی اور شوروہنگامہ ہوگا نویں یہ کہ قبیلوں کی سیادت و قیادت فاسقوں فاجروں کے ہاتھ میں آجائے گی دسویں یہ کہ قوم کے ذمہ دار وہ ہوں گے جو ان میں سب سے زیادہ کمینے ہوں گے گیارہویں یہ کہ شریر آدمیوں کی شرارت اور اور شیطنت کے خوف سے ان کا اکرام و اعزاز کیا جائے گا بارہویں اور تیرہویں یہ کہ پیشہ ور گانے والیوں کی اور معازف و مزامیر یعنی باجوں گاجوں کی (اور ان سے دل بہلانے والوں کی) کثرت ہوگی چودھویں یہ کہ شرابیں خوب پی جائیں گی۔ اورپندرہویں یہ کہ امت میں بعد میں آنے والے لوگ امت کے پہلے طبقہ کو اپنی لعنت و بدگوئی کا نشانہ بنائیں گے آخر میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب امت میں یہ خرابیاں پیدا ہو جائیں تو انتظار کرو گے خداوندی قہر ان شکلوں میں آئے سرخ آندھیاں اور شدید زلزلے اور آدمیوں کا زمین میں دھنسایا جانا اور ان کی صورتوں کا مسخ ہوجانا اور اوپر سے پتھروں کا برسنا اور ان کے علاوہ بھی خداوندی قہر وجلال کی نشانیاں جو اس طرح لگاتار اور پے در پے ظاہر ہوں گی جس طرح ہار کا دھاگا ٹوٹ جانے کی وجہ سے اس کے دانے لگاتار گرتے ہیں۔ بظاہر حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ خرابیاں امت میں اور مسلم معاشرے میں بہت عام ہوجائیں گی تو خداوندی قہر و جلال ان شکلوں میں ظاہر ہوگا۔
Top