معارف الحدیث - کتاب الفتن - حدیث نمبر 1939
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكَ فِي زَمَانٍ مَنْ تَرَكَ مِنْكُمْ عُشْرَ مَا أُمِرَ بِهِ هَلَكَ ثُمَّ يَأْتِي زَمَانٌ مَنْ عَمِلَ مِنْهُمْ بِعُشْرِ مَا أُمِرَ بِهِ نَجَا. (رواه الترمذى)
امت میں پیدا ہونے والے دینی انحطاط و زوال اور فتنوں کا بیان
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم اس وقت ایسے زمانے میں ہو کہ جو کوئی اس زمانے میں احکام الہی کے (بڑے حصہ پر) عمل کرے صرف دسویں حصہ پر عمل ترک کردیں تو وہ ہلاک ہوجائے گا۔ (اس کی خیریت نہیں) اور بعد میں ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ جو کوئی اس زمانہ میں احکام الہی کے صرف دسویں حصہ پر عمل کر لے گا وہ نجات کا مستحق ہوگا۔ (جامع ترمذی)

تشریح
رسول اللہ ﷺ کے مبارک زمانہ میں آپ کی صحبت اور براہ راست تعلیم و تربیت اور معجزات و خوارق کے مشاہدہ کے نتیجہ میں ایسا ماحول بن گیا تھا کہ احکام الہی ذوق و شوق سے تعمیل کرنا نہ صرف آسان بلکہ مرغوب و محبوب بن گیا تھا اور اللہ و رسول کی اطاعت و فرماں برداری طبیعت ثانیہ بن گئی تھی اس ماحول اور اس ایمانی فضا میں جو شخص احکام الہی کی پیروی میں تھوڑی بھی کوتاہی کرے اس کے بارے میں اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ قصور وار اور قابل معاوضہ ہے۔ "قریبا نرا بیش بود حیرانی" اسی کے ساتھ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب ماحول دین کے سخت ناسازگار ہو گا (اور جیسا کہ حضرت انس ؓٗ کی مندرجہ بالا حدیث میں فرمایا گیا ہے دین پر چلنا ایسا صبر آزما ہوگا جیسا ہاتھ میں انگارہ تھام لینا) ایسے زمانے کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا اس وقت میں اللہ کے جو بندے دین کے تقاضوں اور شریعت کے احکام پر تھوڑا بھی عمل کرلیں گے ان کی نجات ہو جائے گی۔(عاجز کا خیال ہے کہ "اس حدیث" میں "عشر " کے لفظ سے متعین طور پر دسواں حصہ (10/1) مراد نہیں ہیں بلکہ کثیر کے مقابلہ میں قلیل مراد ہے اور حضور ﷺ کے ارشاد کا مدعا وہی ہے جو عاجز نے ان سطروں میں عرض کیا ہے) ..... واللہ اعلم۔
Top