معارف الحدیث - کتاب الفتن - حدیث نمبر 1936
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍوقَالَ: «شَبَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَابِعَهُ» وَقَالَ كَيْفَ أَنْتَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو إِذَا بَقِيتَ حُثَالَةٌ قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ، وَأَمَانَاتُهُمْ، وَاخْتَلَفُوا، فَصَارُوْا هَكَذَا قَالَ: فَكَيْفَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: تَأْخُذُ مَا تَعْرِفُ وَتَدَعُ مَا تُنْكِرُ وَتُقْبِلُ عَلَى خَاصَّتِكَ، وَتَدَعُهُمْ وَعَوَامَهُمْ. (رواه البخارى)
امت میں پیدا ہونے والے دینی انحطاط و زوال اور فتنوں کا بیان
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال دیں اور (مجھ سے مخاطب ہوکر) فرمایا کہ اے عبداللہ بن عمرو! تمہارا اس وقت کیا حال اور کیا رویہ ہوگا جب صرف ناکارہ لوگ باقی رہ جائیں گے ان کے معاہدات اور معاملات میں دغا فریب ہوگا اور ان میں (سخت) اختلاف (اور ٹکراؤ) ہوگا اور وہ باہم اس طرح گتھ جائیں گے (جیسے میرے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سے گھتی ہوئی ہیں) عبداللہ بن عمرو ؓ نے عرض کیا کہ پھر مجھے کیسا ہونا چاہیے یا رسول اللہ؟ (یعنی اس فساد عام کے زمانہ میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس بات اور جس عمل کو تم اچھا اور معروف جانو اس کو اختیار کرو اور جس کو منکر اور برا سمجھو اس کو چھوڑ دو اور اپنی پوری توجہ خاص اپنی ذات پر رکھو (اور اپنی فکر کرو) اور ان ناکارہ و بےصلاحیت اور آپس میں لڑنے بھڑنے والوں سے اوران عوام سے تعرض نہ کرو۔ (صحیح بخاری)

تشریح
"حثالہ" کےمعنی بھوسی کے ہیں یہاں اس سے مراد ایسے لوگ ہیں جو بظاہر آدمی ہونے کے باوجود آدمیت کے جوہر سے بالکل خالی ہوں ان میں کوئی صلاحیت نہ ہو جس ترا بھوسی میں صلاحیت نہیں ہوتی۔ آگے رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے ان کا یہ حال بھی بیان فرمایا کہ ان کے معاہدات اور معاملات میں مکر و فریب اور دغا بازی ہو اور باہم جنگ و پیکار ان کا مشغلہ ہو۔ نوعمر صحابہ کرام میں عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ و فطری طور پر بڑے خیرپسند، پرہیزگار اور عبادت گزار تھے، رسول اللہ ﷺ نے ایک دن ان سے فرمایا کہ جب کبھی ایسا وقت آ جائے کہ ایسے ہی ناکارہ اور بدکردار اور باہم لڑنے بھڑنے والے لوگ باقی رہ جائے تو تمہارا رویہ اس وقت کیا ہوگا؟ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے یہ سوال ان سے اسی لیے کیا تھا کہ وہ اس بارے میں آپ سے ہدایت کے طالب ہوں تو آپ ہدایت فرمائیں۔ یہ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ تعلیم تھا چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا اور آپ نے جواب دیا جس کا حاصل یہ ہے کہ جب واسطہ ایسے ہی لوگوں سے ہو جو آدمیت کے جوہر سے محروم ہوں اور نیکی کو قبول کرنے کی ان میں صلاحیت ہی نہ رہی ہو تو اہل ایمان کو چاہیے کے ایسے لوگوں سے صرف نظر کرکے بس اپنی فکر کریں۔ یہاں یہ بات خاص طور سے قابل لحاظ ہے کہ رسول اللہ ﷺ قیامت تک کے مسلمانوں کو جو ہدایت دینا چاہتے تھے اس کا مخاطب صحابہ کرامؓ ہی کو بناتے تھے اللہ تعالی ان اصحاب کرام اور ان کے بعد والے راویان حدیث کو جزاء خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی یہ ہدایات بعد والوں تک پہنچائیں اور ائمہ حدیث نے ان کو کتابوں میں محفوظ کر دیا۔
Top