معارف الحدیث - دعوت الی الخیر امربالمعروف نہی عن المنکر - حدیث نمبر 1930
عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: جَاهِدُوا الْمُشْرِكِينَ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَأَلْسِنَتِكُمْ. (رواه ابوداؤد والنسائى والدارمى)
فی سبیل اللہ جہاد و قتال اور شہادت
حضرت انس ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ جہاد کرو مشرکوں سے اپنے جان و مال اور اپنی زبانوں سے (سنن ابی داؤد سنن نسائی سنن دارمی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ کفار و مشرکین کو توحید اور دین حق کے راستہ پر لانے اور ان کا زور توڑ کے دعوت حق کا راستہ صاف کرنے کے لئے جیسا موقع اور وقت کا تقاضہ ہو اپنے جان و مال سے جدوجہد کرو اور ان کی قربانی دو اور زبان و بیان سے بھی کام لو۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دعوت حق کے راستہ میں پیسے خرچ کرنا اور زبان و بیان (اور اسی طرح قلم) سے کام لینا بھی جہاد کے وسیع مفہوم میں شامل ہیں۔ جہاد کے بارے میں ضروری وضاحت ہماری اردو زبان میں جہاد اس مسلح جنگ ہی کو کہتے ہیں جو اللہ و رسول کے حکم کے مطابق دین کے حفاظت و نصرت کے لئے دشمنان حق سے کی جائے لیکن اصل عربی زبان اور قرآن و حدیث کی اصطلاح میں جہاد کے معنیٰ حریف کے مقابلہ میں کسی مقصد کے لئے پوری جدوجہد اور امکانی طاقت صرف کرنے کے ہیں جو احوال و ظروف کے لحاظ سے جنگ و قتال کی شکل میں بھی ہوسکتی ہے اور دوسرے طریقوں سے بھی۔ (قرآن مجید میں جہاد کا لفظ جابجا اسی وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے) رسول اللہ ﷺ منصب نبوت پر سرفراز ہونے کے بعد قریبا 13 برس مکہ معظمہ میں رہے اس پوری مدت میں دین کے دشمنوں، کافروں، مشرکوں سے نہ صرف یہ کہ جہاد بالسیف اور جنگ و قتال کی اجازت نہیں تھی بلکہ اس کی ممانعت تھی اور حکم تھا "كُفُّوْا اَيْدِيَكُمْ" (یعنی جنگ اور قتال سے اپنے ہاتھ روکے رکھو) سورۃالفرقان اسی مکی دور میں نازل ہوئی ہے اس میں رسول اللہ ﷺ کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا ہے " فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا " (آیت نمبر 52) مطلب یہ ہے کہ اے ہمارے نبی و رسول آپ ان منکروں کی بات نہ مانئے اور ہمارے نازل کئے ہوئے قرآن کے ذریعہ ان سے بڑا جہاد کرتے رہیے! ظاہر ہے کہ اس آیت میں جس جہاد کا حکم ہے اس سے مراد جہاد بالسیف اور جنگ و قتال نہیں ہے بلکہ قرآن کے ذریعہ دعوت و تبلیغ کی جدوجہد ہی مراد ہے اور اسی کو اس آیت میں صرف "جہاد" نہیں بلکہ "جہاد کبیر" اور "جہاد عظیم" فرمایا گیا ہے۔ اسی طرح سورۃ "عنکبوت" بھی ہجرت سے پہلے مکہ معظمہ ہی کے زمانہ قیام میں نازل ہوئی ہے اس میں فرمایا گیا ہے "وَمَن جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ" (آیت نمبر 6) مطلب یہ ہے کہ جو بندہ (راہ خدا میں) جہاد کرے گا وہ اپنے ہی نفع کے لئے کرے گا (خدا کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا) خدا سب سے بے نیاز ہے۔ اور اسی سورہ عنکبوت کی آخری آیت ہے "وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ " یعنی جو بندہ ہماری راہ میں یعنی ہماری رضا حاصل کرنے کے لیے جہاد و مجاہدہ کریں گے اور مشقتیں جھیلیں گے ان کو ہم اپنے راستوں (یعنی اپنے قرب و رضا کے راستوں) کی ہدایت کی نعمت سے نوازیں گے۔ ظاہر ہے کہ سورۃ عنکبوت کی ان دونوں آیتوں میں بھی جہاد سے جہاد باسیف مراد نہیں لیا جاسکتا بلکہ راہ خدا میں اور اس کے قرب و رضا کے لیے جدوجہد اور محنت و مشقت ہی مراد ہے جس صورت میں بھی ہو۔ بہرحال دین کی راہ میں اور اللہ کے لئے ہر مخلصانہ جدوجہد اور جان و مال اور عیش و آرام کی قربانی اور اللہ تعالی کی عطا فرمائی ہوئی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال، یہ سب بھی اپنے اپنے درجہ میں جہاد فی سبیل اللہ کی شکلیں ہیں اور ان کا راستہ ہر وقت اور دنیا کے ہر حصے میں آج بھی کھلا ہوا ہے۔ ہاں جہاد بالسیف اور قتال فی سبیل اللہ بعض پہلوؤں سے اعلی درجہ کا جہاد ہے اور اس راہ میں جان کی قربانی اور شہادت مومن کی سب سے بڑی سعادت ہے جس کے لیے خود رسول اللہ ﷺ نے اپنے دلی شوق اور تمنا کا اظہار فرمایا ہے جیسا کہ گزر چکا ہے۔ آگے درج ہونے والی حضرت فضالہ بن عبیدؓ کی حدیث بھی جہاد کے مفہوم کی اس وسعت کی ایک مثال ہے۔
Top