معارف الحدیث - دعوت الی الخیر امربالمعروف نہی عن المنکر - حدیث نمبر 1908
عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِذَابًا مِنْ عِنْدِهِ ثُمَّ لَتَدْعُنَّهُ وَلاَ يُسْتَجَابُ لَكُمْ. (رواه الترمذى)
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تاکید اور اس میں کوتاہی پر سخت تہدید
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (اے اہل ایمان) قسم اس پاک ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم پر لازم ہیں اور تم کو تاکید ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے رہو (یعنی اچھی باتوں اور نیکیوں کی لوگوں کو ہدایت و تاکید کرتے رہو اور بری باتوں اور برے کاموں سے ان کو روکتے رہو) یا پھر ایسا ہوگا کہ (اس معاملہ میں تمہاری کوتاہی کی وجہ سے) اللہ تم پر اپنا کوئی عذاب بھیج دے گا پھر تم اس سے دعائیں کرو گے اور وہ تمہاری دعائیں قبول نہیں کی جائیں گے۔ (جامع ترمذی)

تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے امت کو واضح الفاظ میں آگاہی دی ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میری امت کا ایسا اہم فریضہ ہے کہ جب اس کی ادائیگی میں غفلت اور کوتاہی ہوگی تو اللہ تعالی کی طرف سے وہ کسی فتنہ اور عذاب میں مبتلا کر دی جائے گی۔ اور پھر جب دعا کرنے والے اس عذاب اور فتنہ سے نجات کے لئے دعائیں کریں گے تو ان کی دعائیں بھی قبول نہ ہوں گی۔ اس عاجز کے نزدیک اس میں قطعا شبہ کی گنجائش نہیں کہ صدیوں سے یہ امت طرح طرح کے جن فتنوں اور عذابوں میں مبتلا ہے اور امت کے اخیار اور صلحاء کی دعاؤں اور التجاؤں کے باوجود ان عذابوں سے نجات نہیں مل رہی ہے تو اس کا بہت بڑا سبب یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے اللہ تعالی کے حکم سے امت کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی جو ذمہ داری سپرد کی تھی اور اس سلسلہ میں جو تاکیدی احکام دیئے تھے اور اس کا جو عمومی نظام قائم فرمایا تھا وہ صدیوں سے تقریبا معطل ہے امت کی مجموعی تعداد میں اس فریضہ کے ادا کرنے والے فی ہزار ایک کے تناسب سے بھی نہیں ہیں الغرض یہ وہی صورتحال ہے جس کی رسول اللہ ﷺ نے اپنے اس ارشاد میں واضح آگاہی دی تھی۔
Top