معارف الحدیث - کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ - حدیث نمبر 1902
عَنْ بِلاَلِ بْنِ الْحَارِثِ الْمُزْنِيْ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي قَدْ أُمِيتَتْ بَعْدِي فَإِنَّ لَهُ مِنَ الأَجْرِ مِثْلَ أُجُورِ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا. (رواه الترمذى)
احیاء سنت اور امت کی دینی اصلاح کی جدو جہد
حضرت بلال بن الحارث المزنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے میری کوئی سنت زند کی جو میرے بات ختم کر دی گئی تھی (متروک ہو گئی تھی) تو اس شخص کو اجر و ثواب ملے گا ان تمام بندگان خدا کے اجروثواب کے برابر جو اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان عمل کرنے والوں کے اجروثواب میں سے کچھ کمی کی جائے۔ (جامع ترمذی)

تشریح
اس حدیث کے مضمون کو اس مثال سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ فرض کیجئے کسی علاقے کے مسلمانوں میں زکوۃ ادا کرنے کا یا مثلا باپ کے ترکہ میں بیٹیوں کو حصہ لینے کا رواج نہیں رہا پھر کسی بندہ خدا کی محنت اور جدوجہد سے اس گمراہی اور بددینی کی اصلاح ہوئی اور لوگ زکوة ادا کرنے لگے اور بیٹیوں کو شرعی حصہ دیا جانے لگا تو اس کے بعد علاقہ کے جتنے لوگ بھی زکوة ادا کریں گے اور بہنوں کو انکا شرعی حق دینگے ان کو اللہ تعالی کی طرف سے اس عمل کا جتنا اجر و ثواب ملے گا اس سب کے مجموعہ کے برابر اس بندے کو عطا ہو گا جس نے ان دینی احکام و اعمال کو پھر سے زندہ کرنے اور رواج دینے کی جدوجہد کی تھی اور یہ اجر عظیم اللہ تعالی ہی کی طرف سے خصوصی انعام کے طور پر عطا ہوگا ایسا نہیں کہ عمل کرنے والوں کے اجر سے کاٹ کر اور کچھ کم کرکے دیا جائے۔ اسکی ہمارے ہی زمانے کی ایک واقعاتی مثال یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے امت کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے یہ نظام قائم فرمایا تھا کہ ہر مسلمان جوان ہو یا بوڑھا امیر ہو یا غریب پڑھا لکھا ہو یا بے پڑھا لکھا دین کی ضروری واقفیت حاصل کریں اور دین پر چلے اور اپنے خیالات اور استطاعت کے مطابق دوسروں میں بھی اس کے لئے محنت اور کوشش کرے۔ لیکن کچھ تاریخی اسباب کی وجہ سے مرور زمان کے ساتھ یہ نظام کمزور پڑتا رہا اور صدیوں سے یہ حال ہوگیا کہ علماء مخلصین اور خواص اہل دین کے بہت ہی محدود حلقہ میں دین کی فکر باقی رہے گئی ہے۔ پھر ہمارے زمانے میں اللہ کے ایک مخلص بندے اور رسول اللہ ﷺ کے ایک وفادار امتی نے دین کی فکر و محنت کہ اس عمومی اور عوامی نظام کو پھر سے چالو کرنے اور رواج میں لانے کے لیے جدوجہد کی اور اپنی زندگی اسی کے لیے وقف کردی جس کا یہ نتیجہ آنکھوں کے سامنے ہیں کہ اس وقت (جبکہ چودھویں صدی ہجری ختم ہوکر پندرہویں صدی شروع ہوئی ہے) دنیا کے مختلف ملکوں میں مسلمانوں کے مختلف طبقات کے وہ لاکھوں افراد جن کا دین سے نہ علمی تعلق تھا نہ عملی اور انکے دل آخرت کی فکر سے بالکل خالی تھے۔ اب وہ آخرت ہی کو سامنے رکھ کر خود اپنی زندگی کو بھی اللہ و رسول ﷺ کے احکام کے مطابق بنانے اور دوسروں میں بھی اس کی فکر پیدا کرنے کے لیے محنت و کوشش کر رہے ہیں اس راہ میں قربانیاں دے رہے ہیں اور تکلیفیں اٹھا رہے ہیں۔ بلاشبہ احیاء سنت کی عظیم مثال ہے اللہ تعالی اس کو قبول فرمائے اور اس کے ذریعہ امت میں اور پھر پورے عالم انسانی میں ہدایت کو عام فرمائے۔ "وَمَا ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ بِعَزِيزٍ"
Top