معارف الحدیث - کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ - حدیث نمبر 1896
عَنْ أَنَسٍ قَالَ جَاءَ ثَلاَثَةُ رَهْطٍ إِلَى أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوهَا فَقَالُوا وَأَيْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ. فَقَالَ أَحَدُهُمْ أَمَّا أَنَا فَأُصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا. وَقَالَ لْآخَرُ أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلاَ أُفْطِرُ. وَقَالَ لْآخَرُ أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلاَ أَتَزَوَّجُ أَبَدًا. فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا؟ أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ، لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي. (رواه البخارى ومسلم)
امت کے لئے رسول اللہ ﷺ کا طرز عمل ہی اسوہ حسنہ ہے
حضرت انس ؓٗ سے روایت ہے کہ (صحابہ کرامؓ میں سے) تین آدمی رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات کے پاس آئے اور آپ کی عبادت کے بارے میں دریافت کرنے لگے (یعنی انہوں نے دریافت کیا کہ نماز روزہ وغیرہ عبادات کے بارے میں حضور ﷺ کا معمول کیا ہے؟) جب ان کو وہ بتلایا گیا تو (محسوس ہوا کہ) گویا انہوں نے اس کو بہت کم سمجھا اور آپس میں کہا کہ ہم کو رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا نسبت! ان کے تو اگلے پچھلے سارے قصور اللہ تعالی نے معاف فرما دیے ہیں (اور قرآن میں اس کی خبر بھی دے دی گئی ہے لہٰذا آپ کو زیادہ عبادت ریاضت کی ضرورت ہی نہیں، ہاں ہم گناہگاروں کو ضرورت ہے کہ جہاں تک بن پڑے زیادہ سے زیادہ عبادت کریں) چنانچہ ایک نے کہا کہ اب میں تو ہمیشہ پوری رات نماز پڑھا کروں گا دوسرے صاحب نے کہا میں طے کرتا ہوں کہ ہمیشہ بلا ناغہ دن کو روزہ رکھا کرو گا تیسرے صاحب نے کہا میں عہد کرتا ہوں کہ ہمیشہ عورتوں سے بے تعلق اور دور رہوں گا، نکاح شادی کبھی نہیں کروں گا۔ (رسول اللہ ﷺ کو جب یہ خبر پہنچی) تو آپ ان تینوں صاحبوں کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تم ہی لوگوں نے یہ بات کہی ہے (اور اپنے بارے میں ایسے ایسے فیصلے کیے ہیں) سن لو! خدا کی قسم میں تم سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا اور اس کی نافرمانی اور ناراضی کی باتوں سے تم سب سے زیادہ پرہیز کرنے والا ہوں لیکن (اس کے باوجود) میرا حال یہ ہے کہ میں (ہمیشہ روزے نہیں رکھتا بلکہ) روزے سے بھی رہتا ہوں اور بلا روزے کے بھی رہتا ہوں اور (ساری رات نماز نہیں پڑھتا بلکہ) نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں (اور میں نے تجرد کی زندگی اختیار نہیں کی ہے) میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں اور ان کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارتا ہوں (یہ میرا طریقہ ہے) اب جو کوئی میرے اس طریقہ سے ہٹ کر چلے وہ میرا نہیں ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
جن تین صحابیوں کا اس حدیث میں ذکر ہے بظاہر ان کو یہ غلط فہمی تھی کہ اللہ تعالی کی رضا اور آخرت میں مغفرت و جنت حاصل کرنے کا راستہ یہ ہے کہ آدمی دنیا اور اس کی لذتوں سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرلے اور بس اللہ کی عبادت میں لگا رہے اپنی اسی غلط فہمی کی بناء پر وہ سمجھتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہی حال ہوگا۔ لیکن جب ان کو ازواج مطہرات سے عبادت (نماز روزہ وغیرہ) کے بارے میں حضور ﷺ کا معمول معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے خیال کے لحاظ سے اس کو بہت کم سمجھا لیکن ازراہ عقیدت و ادب اس کی توجیہ یہ کی کہ آپ ﷺ کے لئے تو اللہ تعالی کی طرف سے مغفرت اور جنت میں درجات عالیہ کا پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے۔ اس لئے آپ کو عبادت میں زیادہ مشغول رہنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ہمارا معاملہ دوسرا ہے ہم کو اس کی ضرورت ہے اور اس بنا پر انہوں نے اپنے لیے وہ فیصلے کیے جن کا حدیث میں ذکر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی مثال پیش کرکے ان کی غلط فہمی کی اصلاح اور تنبیہ فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے تم سب سے زیادہ خدا کا خوف اور آخرت کی فکر ہے اس کے باوجود میرا حال یہ ہے کہ میں راتوں کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں دنوں میں روزے سے بھی رہتا ہوں اور بلا روزے کے بھی رہتا ہوں میری بیویاں ہیں ان کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارتا ہو زندگی کا یہی وہ طریقہ ہے جو میں بحیثیت نبی اور رسول کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آیا ہوں اب جو کوئی اس طریقہ سے ہٹ کر چلے اور اس سے منہ موڑے وہ میرا نہیں ہے۔ صرف عبادت اور ذکر و تسبیح میں مشغول رہنا فرشتوں کا حال ہے اللہ تعالی نے ان کو ایسا ہی پیدا کیا ہے کہ ان کے ساتھ نفس کا کوئی تقاضا نہیں ہے ان کے لیے ذکر و عبادت قریب قریب ایسے ہی ہے جیسے ہمارے لئے سانس کی آمد و رفت۔ لیکن ہم بنی آدم کھانےپینےکی جیسی بہت سی ضرورتیں اور نفس کے بہت سے تقاضے لے کر پیدا کیے گئے ہیں اور انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ ہم کو تعلیم دی گئی ہے کہ ہم اللہ تعالی کی عبادت بھی کریں اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود و احکام کی پابندی کرتے ہوئے اپنی دنیوی ضرورتیں اور نفسانی تقاضے پورے کریں اور باہمی حقوق کو صحیح طور پر ادا کریں۔ یہ بڑا سخت امتحان ہے۔ انبیاء علیہ سلام کا طریقہ یہی ہے اور اسی میں کمال ہے اسی لیے وہ فرشتوں سے افضل ہیں اور ان میں بہترین نمونہ خاتم النبیین سیدنا حضرت محمد مصطفی ﷺ کا اسوہ حسنہ ہے۔ حدیث کا مقصد یہ نہیں ہے کہ کثرت عبادت کوئی غلط چیز ہے بلکہ اس کا مدعا اور پیغام یہ ہے کہ وہ ذہنیت اور وہ نقطہ نظر غلط اور طریقہ محمدی کے خلاف ہے جس بنیاد پر ان تین صاحبوں نے اپنے بارے میں وہ فیصلے کئے تھے۔ غالبا انہوں نے یہ بھی نہیں سمجھا کہ رسول اللہ ﷺ کا راتوں میں آرام فرمانا اور ہمیشہ روزہ نہ رکھنا اور ازدواجی زندگی اختیار کرنا اور اس طرح کے دوسرے مشاغل میں مشغول ہونا اپنے طرز عمل سے امت کی تعلیم کے لئے تھا اور یہ کار نبوت کا جز تھا اور یقینا آپ کے حق میں یہ نفلی عبادات سے افضل تھا۔ اس کے باوجود آپ کبھی کبھی اتنی عبادت فرماتے کہ پائے مبارک پر ورم آجاتا اور جب آپ سے عرض کیا جاتا کہ آپ کو اس قدر عبادت کی کیا ضرورت ہے؟ تو آپ فرماتے "اَفَلَا اَكُوْنُ عَبْدًا شَكُوْرًا" اسی طرح کبھی کبھی آپ مسلسل کئی کئی دن بلا افطار اور بلا سحری کے روزے رکھتے جس کو صوم وصال کہا جاتا ہے الغرض حضرت انس ؓ کی اس حدیث یا اسی مضمون کی دوسری حدیثوں سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہوگا کہ عبادت کی کثرت کوئی ناپسندیدہ چیز ہے۔ ہاں رہبانیت اور رہبانیت والی ذہنیت بلاشبہ ناپسندیدہ اور طریق محمدی اور تعلیم محمدی کے خلاف ہے۔
Top