معارف الحدیث - کتاب العلم - حدیث نمبر 1878
عن أبزى الخزاعي والد عبد الرحمن1 قال: خطب رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم، فأثنى على طوائف من المسلمين خيرا، ثم قال: ما بال أقوام لا يفقهون جيرانهم، ولا يعلمونهم ولا يعظونهم ولا يأمرونهم ولا ينهونهم؟ وما بال أقوام لا يتعلمون من جيرانهم ولا يتفقهون ولا يتفطنون، والله ليعلمن أقوام جيرانهم، ويفطنونهم ويفقهونهم، ويأمرونهم وينهونهم وليتعلمن قوم من جيرانهم، ويتفطنون ويتفقهون أو لأعاجلنهم بالعقوبة في دار الدنيا، ثم نزل فدخل بيته، فقال قوم: من تراه عنى بهؤلاء؟ فقالوا: نراه عنى الأشعريين هم قوم فقهاء، ولهم جيران جفاة من أهل المياه والأعراب، فبلغ ذلك الأشعريين، فأتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا: يا رسول الله ذكرت قوما بخير، وذكرتنا بشر، فما بالنا؟ فقال: ليعلمن قوم جيرانهم وليفقهنهم وليفطننهم وليأمرنهم، وليهينهم وليتعلمن قوم من جيرانهم، ويتفطنون ويتفقهون، أو لأعاجلنهم بالعقوبة في دار الدنيا، فقالوا: يا رسول الله أبطير غيرنا؟ فأعاد قوله عليهم، وأعادوا قولهم أبطير غيرنا؟ فقال: ذلك أيضا، قالوا فأمهلنا سنة فأمهلهم سنة ليفقهوهم ويعلموهم ويفطنوهم، ثم قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم: {لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرائيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ كَانُوا لا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ} (رواه ابن راهويه والبخارى فى الوحدان وابن السكن وابن منذة والطبرانى فى الكبير)
دین نہ جاننے والوں کا فرض ہے کہ وہ جاننے والوں سے سیکھیں اور جاننے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کو سکھلائیں
مشہور صحابی عبدالرحمان بن ابزی الخزاعی ؓ کے والد) ابزی الخزاعی سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے (مسجد میں منبر پر) خطاب فرمایا آپ ﷺ نے مسلمانوں کے بعض گروہوں کی تعریف فرمائی (کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کرتے ہیں) اس کے بعد آپ ﷺ نے (مسلمانوں کے بعض دوسرے گروہوں کو تنبیہ اور سرزنش کرتے ہوئے) ارشاد فرمایا کہ کیا حال ہے ان لوگوں کا (اور کیا عذر ہے ان کے پاس) جو اپنے پڑوس والے (ان مسلمانوں کو جو دین سے واقف نہیں ہیں) دین نہیں سمجھاتے اور دین کی تعلیم نہیں دیتے اور وعظ و نصیحت نہیں کرتے اور ان میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض انجام نہیں دیتے (اسی کے ساتھ آپ ﷺ نے فرمایا) اور کیا حال ہے ان لوگوں کا (اور کیا عذر ہے ان کے پاس جو دین اور اسکے احکام سے واقف نہیں ہیں اس کے باوجود) وہ اپنے پڑوس میں رہنے والے (ان مسلمانوں سے جو دین کی سمجھ بوجھ اور اس کا علم حاصل کر چکے ہیں) دین سیکھنے اور اس کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کی اور ان کے وعظ و نصیحت سے مستفید ہونے کی کوشش نہیں کرتے۔ (اس کے بعد آپ ﷺ نے قسم کے ساتھ تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا) کہ وہ لوگ (جو دین کا علم رکھتے ہیں، علم نہ رکھنے والے) اپنے پڑوسیوں کو لازما دین سکھانے اور دین کی سمجھ بوجھ ان میں پیدا کرنے کی کوشش کریں اور ان کو وعظ نصیحت اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا کریں۔ اور (جو لوگ دین اور اسکے احکام سے واقف نہیں ہوں ان کو)میری تاکید ہے کہ وہ (دین کی سمجھ بوجھ اور اس کا علم رکھنے والے) اپنے پڑوسیوں سے دین سیکھیں اور اس کی سمجھ بوجھ حاصل کریں، اور ان کے وعظ و نصیحت سے استفادہ کیا کریں ورنہ (یعنی ان دونوں فریقوں نے اس ہدایت پر عمل نہیں کیا تو) میں انکو اس دنیا ہی میں سزا دلواؤں گا۔ اس کے بعد (یعنی یہ تنبیہی خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد) آپ ﷺ منبر سے اتر آئے اور گھر کے اندر تشریف لے گئے۔ اس کے بعد لوگوں نے آپس میں کہا کہ کیا خیال ہے حضور ﷺ کی مراد کون لوگ ہیں؟ (یعنی آپ ﷺ نے اس خطاب میں کن لوگوں کو تنبیہ اور سرزنش فرمائی ہے؟ کچھ لوگوں نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ آپ ﷺ کی مراد اشعریین(یعنی ابوموسی اشعری کے قبیلہ کے لوگ) ہیں انہی کا یہ حال ہے کہ وہ فقہاء ہیں (دین کی سمجھ بوجھ اور اس کا علم رکھتے ہیں) اور ان کے جوار میں پانی کے چشموں کے پاس رہنے بسنے والے اور ایسے بدوی لوگ ہیں جو بالکل اجڈ (اور دین سے بالکل ناواقف) ہیں۔ یہ ساری بات اشعریین کے علم میں آئی تو وہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ (معلوم ہوا ہے کہ) آپ صلی للہ علیہ وسلم نے بعض گروہوں کا ذکر تعریف کے ساتھ فرمایا اور ہم لوگوں کی مذمت فرمائی ہمارا کیا معاملہ (اور کیا قصور) ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ (میرا کہنا بس یہی ہے کہ دین کا علم و فہم رکھنے والے) لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ (دین نہ جاننے والے) اپنے پڑوسیوں کو دین سکھائیں ان میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا کریں، ان کو وعظ و نصیحت اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کیا کریں۔ اور جو دین کو نہیں جانتے ان کا فرض ہے کہ وہ (جاننے والے) اپنے پڑوسیوں سے سیکھیں اور ان کے وعظ و نصیحت سے مستفید ہوا کریں اور دین کی سمجھ بوجھ ان سے حاصل کریں یا پھر انکو اس دنیا ہی میں سزا دلواوں گا۔ اشعریین نے عرض کیا کہ کیا دوسرے لوگوں کے جرم اور کوتاہی کی بھی سزا ہم کو بھگتنا ہوگی؟ آپ ﷺ نے اس کے جواب میں اپنی وہی بات دہرائی جو فرمائی تھی، اشعریوں نے پھر وہی عرض کیا جو پہلے عرض کیا تھا کہ کیا دوسروں کی غفلت و کوتاہی کی سزا بھی ہم پائینگے؟ آپ ﷺ نے فرمایا، ہاں وہ بھی (یعنی دین کے جاننے والے اگر نہ جاننے والے اپنے پڑوسیوں کو دین سکھانے میں کوتاہی کریں گے تو وہ اس کی بھی سزا پائیں گے) اشعریوں نے عرض کیا کہ پھر ہم کو ایک سال کی مہلت دی جائے! تو آپ ﷺ نے ان کو ایک سال کی مہلت اس کام کے لیے دے دی کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو دین سکھائیں، ان میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا کریں اور وعظ و نصیحت سے ان کی اصلاح کی کوشش کریں، اس کے بعد آپ ﷺ نے سورہ مائدہ کی یہ آیت تلاوت فرمائی۔ لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ ﴿٧٨﴾كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (مسند ابن راهويه كتاب الوحدان للبخارى، صحيح ابن السكن مسند ابن منذة معجم كبير للطبرانى) ترجمہ: لعنت ہوئی ہے بنی اسرائیل میں سے ان لوگوں پر جنہوں نے کفر کا ارتکاب کیا داودؑ اور عیسی بن مریم کی زبان سے یہ اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے نافرمانی کی راہ اختیار کی اور وہ حد سے تجاوز کرتے تھے، وہ ایک دوسرے کو ان برائیوں اور گناہوں سے نہیں روکتے تھے گورا تھا ان کا یہ فعل۔

تشریح
حدیث کا مطلب سمجھنے کے لئے جتنی تشریح کی ضرورت تھی وہ ترجمہ کے ساتھ کردی گئی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے دین کی عمومی تعلیم و تربیت کا یہ نظام قائم فرمایا تھا کہ کسی آبادی یا علاقے کے جو لوگ دین کا علم اور اس کی سمجھ بوجھ رکھتے ہوں ان کی یہ ذمہ داری اور ڈیوٹی ہے کہ وہ اپنے قرب و جوار کے ان لوگوں کو جو دین سے ناواقف ہوں للہ فی اللہ دین سکھائیں اور وعظ و نصیحت کے ذریعہ ان کی دینی اصلاح وتربیت کی کوشش کرتے رہیں۔ اور اس تعلیمی خدمت کو اپنی زندگی کا کے پروگرام کا خاص جز بنائیں۔ اور دین کی واقفیت نہ رکھنے والے مسلمان اس کو اپنا فرض اور زندگی کی ضرورت سمجھیں کہ دین کے جاننے والوں سے رابطہ قائم کرکے دین سیکھیں اور ان کے وعظ و نصیحت سے استفادہ کیا کریں۔ آنحضرت ﷺ نے اس بارے میں غفلت اور کوتاہی کو قابل تعزیر جرم قرار دیا تھا۔ دینی تعلیم و تربیت کا یہ ایسا عمومی نظام تھا کہ اس کے ذریعہ ہر شخص بغیر مکتب یا مدرسہ کے اور بغیر کتاب اور کاغذ قلم کے اور بغیر کچھ لکھے پڑھے بھی دین کا ضروری علم حاصل کرسکتا تھا۔ بلکہ اپنی محنت وصلاحیت کے مطابق اس میں کمال بھی حاصل کرسکتا تھا۔ صحابہ کرامؓ نے اور اسی طرح تابعین کی غالب اکثریت نے بھی علم دین اسی طرح حاصل کیا تھا ان کا علم یقینا ہمارے کتابی علم سے زیادہ گہرا اور قابل اعتماد تھا ان کے بعد امت میں جو کچھ علم دین رہا ہے اور آج ہی وہ سب انہی کا ترکہ ہے۔ افسوس ہے کہ بعد میں امت میں یہ نظام قائم نہیں رہا۔ اگر قائم رہتا تو امت کا کوئی طبقہ اور کوئی عنصر بلکہ کوئی فرد بھی دین سے ناواقف اور بےبہرہ نہ ہوتا۔ اس نظام تعلیم کی یہ خاص برکت تھی کہ زندگی علم کے سانچہ میں ڈھلتی چلی جاتی تھی۔ حدیث کے آخر میں ہے کہ اشعریین کے وفد نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ ہم کو ایک سال کی مہلت دے دی جائے، ہم اس مدت میں ان شاء اللہ یہ تعلیمی مہم انجام دے لیں گے، آپ ﷺ نے ان کی یہ بات منظور فرمالی، یہ گویا اس علاقہ کی پوری آبادی کے لیے ایک سالہ تعلیمی منصوبہ تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر آج بھی ہر ملک اور ہر علاقے کے لوگ مسلمان خواص و عوام اس طریق کار کو اپنا لیں اور منصوبہ بندی کے ساتھ اس مقصد کے لیے جدوجہد کریں تو امت کے تمام طبقوں میں ایمانی زندگی اور ضروری درجہ کی دینی واقفیت عام ہو سکتی ہے۔ سلسلہ کلام کے آخر میں رسول اللہ ﷺ نے سورہ مائدہ کی جودو آیتیں تلاوت فرمائیں ان میں بیان فرمایا گیا کہ بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں پر اللہ کے جلیل القدر پیغمبروں داودؑ اور عیسی علیہما السلام کی زبان سے لعنت ہوئی اور انکی ملعونیت کا اعلان ہوا ان کا ایک خاص جرم جو لعنت کا موجب ہوا یہ تھا کہ وہ باہم ایک دوسرے کو گناہوں اور برائیوں سے روکنے کی اور ان کی دینی واخلاقی اصلاح کی کوئی فکر اور کوشش نہیں کرتے تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ جرم ایسا سنگین ہے کہ اس کی وجہ سے آدمی اللہ کی اور اس کے پیغمبروں کی لعنت کا مستحق ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ میں جو تنبیہ اور سرزنش فرمائی تھی یہ آیتیں اس کی قرآنی سند ہیں۔ آپ ﷺ نے یہ آیات تلاوت فرما کر گویا بتلایا کہ جو کچھ میں نے خطبہ میں کہا ہے اور جس پر مجھے اصرار ہے یہ وہی ہے جس کی ہدایت اللہ تعالی نے اپنے کلام پاک کی ان آیتوں میں فرمائی ہے۔
Top