معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1876
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا، مَالِكُ الْمُلُوكِ وَمَلِكُ الْمُلُوكِ، قُلُوبُ الْمُلُوكِ فِي يَدِي، وَإِنَّ الْعِبَادَ إِذَا أَطَاعُونِي حَوَّلْتُ قُلُوبَ مُلُوكِهِمْ عَلَيْهِمْ بِاالرَّحْمَةِ وَالرَّأْفَةِ، وَإِنَّ الْعِبَادَ إِذَا عَصَوْنِي حَوَّلْتُ قُلُوبَهُمْ عَلَيْهِمْ بِالسَّخْطَةِ وَالنِّقْمَةِ فَسَامُوهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ، فَلَا تَشْغَلُوا أَنْفُسَكُمْ بِالدُّعَاءِ عَلَى الْمُلُوكِ، وَلَكِنِ اشْتَغِلُوا اَنْفُسَكُمْ بِالذِّكْرِ وَالتَّضَرُّعِ كَىْ أَكْفِيْكُمْ مُلُوكَكُمْ» (رواه ابو نعيم فى الحلية)
حکمرانوں کا ظلم و تشدد ہماری بد اعمالیوں کا نتیجہ اور خدا کا عذاب ہوتا ہے لہذا ارباب حکومت کو کوسنے کے بجائے خدا کی طرف رجوع ہو اور اس سے دعا کرو!
حضرت ابو الدرداء ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ میں ہی ہوں میرے سواکوئی معبود مالک نہیں میں حکمرانوں کا مالک اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں بادشاہان عالم کے دل میرے ہاتھ میں ہیں (اور میرا قانون ہے کہ) جب میرے بندے میری اطاعت و فرماں برداری کرتے ہیں تو میں ان کے حکمرانوں کے دلوں کو رحمت و شفقت کے ساتھ ان بندوں پر متوجہ کر دیتا ہوں اور جب بندے میری نافرمانی کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں تو میں ان کے حکمرانوں کے قلوب کو خفگی اور عذاب کے ساتھ ان بندوں کی طرف موڑ دیتا ہوں پھر وہ ان کو سخت تکلیفیں پہنچاتے ہیں پس تم اپنے کو حکمرانوں کے لئے بد دعا میں مشغول نہ کرو بلکہ اپنے کو میری یاد میں اور میری بارگاہ میں الحاح و زاری میں" تاکہ تمھارے لیے کافی ہو جاؤں حکمرانوں کے عذاب سے نجات دینے کے لیے۔ (حلیہ الاولیاء لابی نعیم)

تشریح
اس دنیا میں جو اچھے برے حالات آتے ہیں تو ان کے کچھ تو ظاہری اسباب ہوتے ہیں جن کو دنیا کی عام سمجھ رکھنے والے سمجھ لیتے ہیں اور کچھ غیبی اور باطنی اسباب ہوتے ہیں۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے خود خداوند تعالیٰ کی طرف سے بیان فرمایا ہے کہ بندوں پر دنیا میں جو اچھے برے حالات ان کے حکمرانوں کی طرف سے آتے ہیں وہ دراصل ان کے اعمال کے نتائج ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے میں بادشاہوں کا بادشاہ اور سب حاکموں کا حاکم ہوں۔ سب حکمرانوں کے قلوب میرے قبضہ میں ہیں اور میرا یہ قانون و دستور ہے کہ جب بندوں کی عام زندگی اطاعت و فرماں برداری کی ہوتی ہے تو میں ان کے حاکموں کے قلوب میں ان کے لئے رحمت و شفقت ڈال دیتا ہوں تو ان کا برتاؤ رحمت و شفقت کا ہوتا ہے اور اگر ان کی زندگی نافرمانی و بدکرداری کی ہوتی ہے اور معصیت کا غلبہ ہوتا ہے تو میں ان کے حکاموں کے قلوب میں ان کے لئے غصہ اور تکلیفیں دینے کا جذبہ ڈال دیتا ہوں پھر وہ ان کو طرح طرح کی تکلیفیں دیتے ہیں اور ستاتے ہیں تو دراصل یہ میرا عذاب ہوتا ہے تمہارے حکام صرف اعلی کار ہوتے ہیں آخر میں فرمایا گیا کہ جب حاکموں سے تم کو تکلیفیں پہنچیں تو ان کے لئے بد دعائیں نہ کرو ان کو نہ کوسو اس سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ مجھے یاد کرو معصیتوں کی زندگی سے توبہ کرکے میری فرمابرداری والی زندگی اختیار کرو آہ و زاری کے ساتھ میری طرف رجوع ہو اس طرح تم حاکموں کے مظالم سے نجات پا سکو گے۔ جب نادر شاہ نے دلی کو تاراج کیا اور دلی والوں پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے تو اس وقت کہ عارف حضرت مرزا مظہر جان جاناں نے فرمایا تھا: "شامت اعمال ما صورت نادر گرفت"
Top