معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1873
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فِي مَرَضِهِ " ادْعِي لِي أَبَا بَكْرٍ، أَبَاكِ، وَأَخَاكِ، حَتَّى أَكْتُبَ كِتَابًا، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَمَنَّى مُتَمَنٍّ وَيَقُولُ قَائِلٌ: أَنَا أَوْلَى، وَيَأْبَى اللهُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَكْرٍ " (رواه مسلم)
خلیفہ اپنا جانشین نامزد بھی کرسکتا ہے اور اہل حل و عقد کے انتخاب پر بھی چھوڑ سکتا ہے
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے مرض وفات میں مجھ سے فرمایا کہ (اے عائشہ!) اپنے والد ابو بکر اور اپنے بھائی (عبد الرحمن بن ابی بکر) کو میرے پاس بلوا دو تاکہ میں (خلافت کے بارے میں) تحریر لکھوا دوں مجھے اندیشہ ہے کہ (خلافت کی) تمنا رکھنے والا کوئی آدمی اس کی تمنا کرے اور کوئی کہنے والا کہے کہ میں ہوں اس کا مستحق اور وہ نہیں ہوگا مستحق" اور اللہ تعالی کو اور مومنین کو ابوبکر کے سوا کوئی منظور نہ ہوگا۔ (صحیح مسلم)

تشریح
دور حاضر کے مغربی نظام جمہوریت سے مرعوبیت کے نتیجہ میں جو کچھ لوگوں نے کہنا شروع کیا ہے کہ "اسلامی نظام" میں استخلاف (یعنی سربراہ حکومت کی طرف سے اپنے جانشین کی نامزدگی) کی گنجائش نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ نظریہ صرف مرعوبیت کی پیداوار ہے۔ استخلاف اور نامزدگی کے صحیح یا غیر صحیح ہونے کا انحصار حالات اور اشخاص پر ہے اگر خلیفہ وقت (موجودہ سربراہ حکومت) کسی شخص کے بارے میں پوری دیانتداری کے ساتھ سو فیصدی مطمئن ہے کہ اس منصب کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی اس میں زیادہ صلاحیت ہے اور عوام بھی اس کی سربراہی کو بخوشی قبول کرلیں گے تو اس صورت میں خلافت کےلئے اس کی نامزدگی نہ صرف جائز بلکہ بہتر ہوگی۔ صدیق اکبر ؓٗ نے اپنے بعد کے لئے حضرت عمر ؓ کو ایسی ہی صورت حال میں خلیفہ نامزد کیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں صدیق اکبر کی نامزدگی کا ارادہ فرمایا تھا لیکن پھر آپ ﷺ پر انکشاف و یقین ہوگیا کہ آپ ﷺ کے بعد آپ صلی اللہ وسلم کے خلیفہ اور جانشین صدیق اکبر ہی ہوں گے یہی اللہ تعالی کی مشیت ہے اور یہی مسلمانوں کا فیصلہ ہوگا تو آپ ﷺ نے ان کو باضابطہ نامزد نہیں کیا۔ اگرچہ اپنے مرض وفات میں اپنی جگہ انہیں کو امام نماز بنا کر اس طرف کھلا اشارہ فرمادیا۔ الغرض اگر خلیفہ برحق دین اور امت کے حق میں کسی اہل کی نامزدگی کو بہتر سمجھے تو اس کو اس کا حق ہے اور اس طرح وہ نامزد شخص خلیفہ برحق ہوگا۔ اور اگر خود نامزد کرنے کے بجائے ارباب حل و عقد کی ایک مجلس کو انتخاب کا اختیار دینا مناسب سمجھے اور ایسا کرے تو یہ بھی صحیح ہوگا جس طرح حضرت عمر ؓ نے کیا تھا۔ اور اگر کسی وقت انتخاب کے دائرہ کو امت کے عام اہل دین و فہم کی حد تک وسیع کرنا مناسب سمجھا جائے تو ایسا کرنا بھی درست ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے بعد خلفائے راشدین کے طرز عمل سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اصل قابل لحاظ چیز مقصد ہے استخلاف اور انتخاب ‏امیر کا کوئی خاص طریقہ اور ضابطہ متعین نہیں ہے اور وہ دینی مقاصد اور شرعی حدود و احکام کا لحاظ رکھتے ہوئے حالات کے مطابق تجویز کیا جاسکتا ہے۔ تشریح .....اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں یہ ارادہ فرمایا تھا کہ اپنے بعد خلیفہ کی حیثیت سے ابوبکر صدیق کو نامزد فرمادیں اور "خلافت نامہ" تحریر کرادیں اور اس کی تکمیل کے لئے حضرت ابوبکرؓ اور انکے صاحبزادے عبد الرحمن بن ابی بکر کو بلوانا بھی چاہا تھا لیکن پھر آپ ﷺ کو یہ انکشاف و یقین ہوگیا کہ مشیت الہی میں یہی طے ہو چکا ہے اور میرے بعد اہل ایمان ابو بکر کے سوا کسی کو خلیفہ منتخب نہیں کریں گے تو آپ ﷺ نے اپنی اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت نہیں سمجھی اور یہی مناسب سمجھا کہ میری نامزدگی کے بغیر ہی اہل ایمان کے انتخاب سے وہ خلیفہ ہوں۔ چناچہ ایسا ہوا۔ بہرحال اس حدیث سے یہ معلوم ہو گیا کہ استخلاف اور نامزدگی بھی ایک طریقہ ہے جس کے بارے میں آپ ﷺ نے سوچا تھا اور اس کا اظہار فرما دیا تھا۔ صدیق اکبر ؓٗ نے جب اپنے بعد کے لئے حضرت عمر ؓٗ کو خلیفہ نامزد کیا تو غالبا ان کے سامنے دلیل کے طور پر رسول اللہ ﷺ کا یہی ارادہ تھا۔ اور حضرت عمر ؓ نے اپنے بعد کے لیے خلیفہ نامزد کرنے کے بجائے مسئلہ کو ایک مجلس شوریٰ کے سپرد کیا تو انہوں نے حضور ﷺ کے عمل سے روشنی حاصل کی۔ الغرض اسی ایک حدیث سے معلوم ہوا کہ استخلاف و نامزدگی بھی درست ہے اور انتخاب بھی۔
Top