معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1858
عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ وَرَجُلٌ مِنْ كِنْدَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ الْحَضْرَمِيُّ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ هَذَا قَدْ غَلَبَنِي عَلَى أَرْضٍ لِي، فَقَالَ الْكِنْدِيُّ: هِيَ أَرْضِي وَفِي يَدِي لَيْسَ لَهُ فِيهَا حَقٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَضْرَمِيِّ: «أَلَكَ بَيِّنَةٌ؟» قَالَ: لَا، قَالَ: «فَلَكَ يَمِينُهُ»، قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ الرَّجُلَ فَاجِرٌ لَا يُبَالِي عَلَى مَا حَلَفَ عَلَيْهِ، وَلَيْسَ يَتَوَرَّعُ مِنْ شَيْءٍ، فَقَالَ: «لَيْسَ لَكَ مِنْهُ إِلَّا ذَلِكَ»، فَانْطَلَقَ لِيَحْلِفَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَدْبَرَ: «أَمَا لَئِنْ حَلَفَ عَلَى مَالِهِ لِيَأْكُلَهُ ظُلْمًا، لَيَلْقَيَنَّ اللهَ وَهُوَ عَنْهُ مُعْرِضٌ» (رواه مسلم)
دعوے کے لیے دلیل اور ثبوت ضروری
علقمہ بن وائل نے اپنے والد وائل کی روایت سے بیان کیا کہ ایک شخص حضرموت کے رہنے والے اور ایک قبیلہ کندہ (اپنا مقدمہ لے کر) کے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرمی نے (جو مدعی تھا) عرض کیا کہ یارسول اللہ اس کندی نے میری ایک زمین پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ کندی نے (جو مدعا علیہ تھا) جواب میں کہا کہ وہ زمین فی الواقع میری ہی ملکیت ہے اور میرے قبضہ میں ہے رسول اللہ ﷺ نے مدعی حضرمی سے فرمایا کہ کیا تمھارے پاس دعوے کی دلیل (گواہ شاہد) ہیں؟ اس نے عرض کیا کہ گواہ شاہد تو نہیں ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تو تم کو صرف یہ حق ہے کہ اپنے مدعا علیہ کندی سے قسم لے لو۔ حضرمی نے عرض کیا کہ حضرت یہ آدمی تو فاجر (بدکار و بد چلن اور بددیانت) ہے اس کو اس کی کچھ پروا نہیں کہ کس بات کی قسم کھا رہا ہے اور کسی بھی (بری) بات سے اس کو پرہیز نہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (کچھ بھی ہو جب تمہارے پاس دعوے کے گواہ شاہد نہیں ہیں تو) تم کو بس یہی حق ہے کہ اس آدمی سے قسم لے لو! تو جب وہ کندی حلف اٹھانے کے لیے دوسری طرف کوچلا تو رسول اللہ ﷺ نے (اس کو آگاہی دیتے ہوئے) ارشاد فرمایا کہ اگر اس نے حضرمی کا مال ظالمانہ اور ناجائز طور پر ہڑپ کرنے کے لئے جھوٹی قسم کھائی تو اللہ کے حضور میں یہ اس حال میں پیش ہوگا کہ اللہ تعالی کا غضب و ناراضی کی وجہ سے) اس کی طرف سے روخ پھیر لیں گے۔(صحیح مسلم)

تشریح
بلاشبہ آخرت میں کسی بندے کی یہ انتہائی بد بختی اور بدنصیبی ہوگی کہ اللہ تعالی غضب و ناراضی کی وجہ سے اس کی طرف سے رخ پھیر لیں یہ اس کے مردود بارگاہ اور ناقابل معافی ہونے کی علامت ہوگی۔ اس سے پہلے اشعث بن قیس کی حدیث میں ایسے لوگوں کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے جو آیت تلاوت فرمائی تھی۔ (أُولَـٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ ....... وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ) وائل کی اس حدیث میں وَهُوَ عَنْهُ مُعْرِضٌ اسی کی اجمالی تعبیر ہے اور آیت کا مضمون گویا اس کی تفصیل ہے۔ صحیح مسلم کی اس حدیث میں ایک جملہ یہ تھا "فَانْطَلَقَ لِيَحْلِفَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَدْبَرَ الخ" جس کا ترجمہ کیا گیا ہے کہ جب وہ کندی حلف اٹھانے کے لیے دوسری طرف چلا رسول اللہ وسلم نے فرمایا غالبا اس کندی سے کہا گیا ہوگا کہ مسجد چل کر نماز کے بعد سب کے سامنے قسم کھاؤ یا یہ کہ منبر کے پاس کھڑے ہوکر قسم کھاؤ۔ تو جب وہ قسم کھانے کے لیے ادھر کو چلا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو آگاہی دی کہ جو کوئی جھوٹی قسم کھا کر پرایا مال ناجائز طور پر حاصل کرے گا آخرت میں اس کا یہ انجام ہوگا۔ صحیح مسلم کی اس حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں کہ پھر اس شخص نے قسم کھائ یا قسم کھانے سے باز آگیا۔ لیکن سنن ابی داود میں حضرمی اور کندی کے اسی مقدمہ سے متعلق اشعث بن قیس کی ایک حدیث ہے اس کے آخر میں یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے آخرت کے برے انجام کی وعید سنائ تو کندی قسم کھانے سے رک گیا اور اس نے اقرار کر لیا کہ وہ زمین مدعی حضرمی ہی کی ہے چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اسی کے مطابق فیصلہ فرما دیا۔
Top