معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1856
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَوْ يُعْطَى النَّاسُ بِدَعْوَاهُمْ لاَدَّعَى نَاسٌ دِمَاءَ رِجَالٍ وَأَمْوَالَهُمْ وَلَكِنَّ الْيَمِينَ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ. (رواه مسلم)
دعوے کے لیے دلیل اور ثبوت ضروری
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا اگر محض دعوے پر لوگوں کے حق میں فیصلہ کر دیا جایا کرے تو لوگ دوسروں کے خلاف (بے باکی سے) خون یا مال کے (جھوٹے سچے) دعوے کرنے لگیں گے۔ لیکن (محض کسی کے دعوے پر اس کے حق میں فیصلہ نہیں کیا جائے گا بلکہ ثبوت طلب کیا جائے گا اور ثبوت و شہادت نہ ہونے کی صورت میں) مدعا علیہ سے حلفیہ انکاری بیان لیا جائے گا۔(صحیح مسلم)

تشریح
اگر کوئی شخص حاکم اور قاضی کی عدالت میں کسی دوسرے آدمی کے خلاف کوئی دعویٰ یا شکایت کرے تو خواہ دعویٰ کرنے والا کیسا ہی ثقہ صالح اور کتنا ہی بلند مرتبہ کیوں نہ ہو محض اس کے دعوے کی بنیاد پر قاضی اس کے حق میں فیصلہ نہیں کر سکے گا اسلامی قانون میں ہر دعوے کے لئے ضابطہ کے مطابق ثبوت اور شہادت ضروری ہے اگر مدعی شہادت اور ثبوت پیش نہ کر سکے تو مدعا علیہ کہا جائے گا کہ اگر اسکو دعویٰ تسلیم نہیں ہے تو وہ حلف کے ساتھ کہے کہ یہ دعویٰ غلط ہے۔ اگر مدعا علیہ اس طرح کے حلف سے انکار کرے تو دعویٰ صحیح سمجھ کے ڈگری کردیا جائے گا اور اگر وہ حلف کے ساتھ مدعی کے دعوے کو غلط قرار دے تو دعویٰ خارج کر دیا جائے گا اور مدعی علیہ کے حق میں فیصلہ دے دیا جائے گا۔ یہ عدالتی قانون اور ضابطہ ہے جس کی رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی اور جو خود آپ ﷺ کا طریقہ کار بھی تھا۔ تشریح .....صحیح مسلم کی اس روایت کے الفاظ میں مدعی سے ثبوت و شہادت طلب کرنے کا ذکر نہیں ہے صرف مدعا علیہ سے حلفیہ انکاری بیان لینے کا ذکر ہے لیکن صحیح مسلم کے شارح امام نووی نے اپنی شرح مسلم میں لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی اس حدیث کو امام بیہقی نے بھی حسن یا صحیح سند سے روایت کیا ہے اور اس میں پہلے مدعی سے ثبوت و شہادت طلب کرنے کا ذکر ہے اس کے آخری الفاظ یہ ہیں۔ "الْبَيِّنَةِ عَلَى الْمُدَّعِي، وَالْيَمِينِ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ" امام نووی کا یہ کلام صحیح مسلم کی اس حدیث کے ساتھ ہی مشکاۃالمصابیح میں بھی نقل کیا گیا ہے اسی لئے حدیث کے ترجمہ میں ہم نے قوسین میں اس کا اضافہ کردیا ہے۔ متعدد دوسرے صحابہ کرامؓ سے بھی اس مضمون کی حدیثیں مروی ہیں۔
Top