معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1852
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ قَالَ: كَيْفَ تَقْضِي إِذَا عَرَضَ لَكَ قَضَاءٌ. قَالَ أَقْضِي بِكِتَابِ اللَّهِ. قَالَ: فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِي كِتَابِ اللَّهِ. قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ. قَالَ أَجْتَهِدُ بِرَأْيِي وَلاَ آلُو. فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى صَدْرَهُ وَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِي بِهِ رَسُولَ اللَّهِ. (رواه الترمذى وابوداؤد والدارمى)
قاضیوں کے لیے رہنما اصول اور ہدایات
حضرت معاذ بن جبل ؓٗ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ان کو قاضی بنا کر یمن کے لئے روانہ فرمایا تو آپ ﷺ نے ان سے دریافت کیا کہ جب تمہارے سامنے کوئی مقدمہ اور قضیہ پیش ہوگا تو تم اس کا فیصلہ کس طرح کرو گے؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ میں اللہ کی کتاب (قرآن مجید کی ہدایت) کے مطابق فیصلہ کروں گا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر کتاب اللہ میں تمہیں (اس کے بارے میں کوئی حکم اور ہدایت) نہ ملے؟ (تو کیا کرو گے) انہوں نے عرض کیا کہ پھر میں اللہ کے رسول کی سنت سے فیصلہ کروں گا آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا اور اگر رسول اللہ (ﷺ) کی سنت میں تمہیں (اس بارے میں) حکم اور ہدایت نہ ملے (تو کیا کرو گے؟) انہوں نے عرض کیا تو پھر میں اپنی رائے اور قیاس سے کام لوں گا اور اجتہاد کروں گا اور اور صحیح نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھوں گا۔ یہ جواب سن کر رسول اللہ ﷺ نے ان کے سینہ ٹھونکتےہوئے شاباشی دی اور فرمایا حمد و شکر اس اللہ کے لئے جس نے اپنے رسول کے فرستادہ کو اس بات کی توفیق دی جو اس کے رسول کو پسند ہے۔ (جامع ترمذی، سنن ابی داود، مسند دارمی)

تشریح
مقدمات اور نزاعات کا فیصلہ کرنے والے کا قاضیوں اور حاکموں کے لیے رسول اللہ ﷺ نے جو رہنما اصول مقرر فرمایا اور جو ہدایات دیں ان کے لئے مندرجہ ذیل حدیث پڑھی جائیں۔ تشریح .....حضرت معاذ بن جبل ؓ رسول اللہ ﷺ کے چند ممتاز صحابہ کرام میں سے ہیں جن کو اپنے طالب علمانہ مزاج اور حضور ﷺ کی طویل صحبت اور خصوصی تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں کتاب و سنت کے علم اور تفقہ فی الدین میں امتیازی مقام حاصل تھا۔ اسی سلسلہ معارف الحدیث میں پہلے بھی متعدد حدیثوں میں اس کا ذکر آچکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری دور میں ان کو یمن کا قاضی اور حاکم بنا کر بھیجا تھا ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی تعلیم اور آپ ﷺ کے طریقہ کار کے مسلسل مطالعہ سے ان کو یہ اصول معلوم ہو چکا تھا کہ جب کوئی فیصلہ طلب معاملہ پیش آئے تو اس کے بارے میں ہدایت حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کیا جائے اگر وہاں سے ہدایت نہ مل سکے تو رسول اللہ ﷺ کی سنت اور آپ ﷺ کے طریقہ کار سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے وہاں بھی نہ ملے تو کتاب و سنت کی روشنی میں اجتہاد و قیاس کیا جائے۔ تو جب آنحضرت نے ان کو یمن کا قاضی مقرر فرمایا تو امتحان کے طورپر ان سے دریافت کیا کہ تمہارے سامنے جو معاملات اور مقدمات آئیں گے تم ان کا فیصلہ کس طرح کرو گے؟ انہوں نے اس کا وہ جواب دیا جو حدیث میں مذکور ہوا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے ان کو شاباش دی ان کا سینہ ٹھوکا اور اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کہ انھوں نے آپ ﷺ کی مرضی اور منشاء کے مطابق جواب دیا جس سے معلوم ہوا کہ انہوں نے آپ ﷺ کی تعلیم اور صحبت سے اچھا استفادہ کیا ہے۔ اس حدیث کی اس لحاظ سے غیر معمولی اہمیت ہے کہ دین و شریعت میں اجتہاد و قیاس کی یہ سب سے زیادہ واضح بنیاد ہے اور امت کے ہر دور کے فقہاء و مجتہدین نے اسی حدیث کو بنیاد بنا کر اجتہاد و قیاس سے کام لیا ہے اور ان ہزاروں مسائل و معاملات کا فیصلہ کیا ہے جن کے بارے میں واضح ہدایت اور حکم کتاب وسنت میں نہیں ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرات محدثین کے مقررہ معیار کے لحاظ سے اس حدیث کی سند کوئی نہیں ہے بلکہ اس میں ضعف ہے (جس کی تفصیل شروح حدیث میں دیکھی جاسکتی ہے) لیکن اس کے باوجود امت کے ائمہ و فقہاء نے اس کو قبول کیا ہے اور اس کی بنیاد پر قیاس و اجتہاد کا سلسلہ چلا ہے شیخ ابن القیم وغیرہ محققین نے لکھا ہے کہ ائمہ فقہاء کے اس کو قبول کر لینے کے بعد اس کی صحت کے لیے کسی دوسری دلیل کی ضرورت نہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ کسی معاملہ اور مسئلہ میں قیاس و اجتہاد کی گنجائش جب ہی ہے جبکہ اس کے بارے میں کتاب وسنت میں کوئی حکم و ہدایت نہ مل سکے۔
Top