معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1849
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّكُمْ سَتَحْرِصُونَ عَلَى الإِمَارَةِ، وَسَتَكُونُ نَدَامَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَنِعْمَ الْمُرْضِعَةُ وَبِئْسَتِ الْفَاطِمَةُ. (رواه البخارى)
حاکم اور قاضی بننا بڑی آزمائش اور بہت خطرناک
حضرت ابوہریرہ ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ آئندہ ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ تم لوگ حکومت اور اس کے عہدوں کی حرص کرو گے اور وہ قیامت کے دن ندامت و پشیمانی کا باعث ہوگی۔ بڑی اچھی لگتی ہے حکومت کی آغوش میں لے کر دودھ پلانے والی۔ اور بہت بری لگتی ہے دودھ چھڑانے والی۔ (صحیح بخاری)

تشریح
اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ سے منکشف فرمایا تھا کہ آپ ﷺ کی امت میں حکومت اور اس کے عہدے حاصل کرنے کا شوق اور اس کی حرص پیدا ہوگی۔ ایسے لوگوں کو آپ ﷺ نے آگاہی دی کہ یہ حکومت قیامت میں سخت ندامت اور پشیمانی کا باعث ہوگی جب ان کو اللہ تعالی کے حضور میں حکومت کا حساب دینا ہوگا۔ آخر میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ حکومت جب کسی کو ملتی ہے تو بڑی اچھی لگتی ہے جیسے بچہ کو دودھ پلانے والی دایہ اچھی لگتی ہے اور جب وہ ہاتھ سے جاتی ہے (یا موت کے وقت یا زندگی ہی میں اس سے محروم یا دستبردار رہنا پڑے) تو بہت بری لگتی ہیں جیسے کہ دودھ چھڑانے والی دایہ بچہ کو بہت بری لگتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حکومت کے شوقین اور طالبوں کو اس کے اخروی انجام سے غافل نہ ہونا چاہیے قیامت میں ان کو اپنے زیر حکومت لاکھوں کروڑوں بندگان خدا کے حقوق کے بارے میں جوابدہی کرنی ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ کے اس قسم کے ارشادات کا یہ اثر پڑا تھا کہ بہت سے صحابہ کرامؓ حکومتی اور عدالتی عہدوں سے دور رہنا چاہتے تھے۔ امام ترمذی نے نقل کیا ہے کہ حضرت عثمان ؓٗ نے اپنے زمانہ خلافت میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو قاضی بنانا چاہا لیکن وہ کسی طرح راضی نہ ہوئے۔
Top