معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1848
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ جُعِلَ قَاضِيًا بَيْنَ النَّاسِ فَقَدْ ذُبِحَ بِغَيْرِ سِكِّينٍ. (رواه احمد والترمذى وابوداؤد وابن ماجه)
حاکم اور قاضی بننا بڑی آزمائش اور بہت خطرناک
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص قاضی (حاکم عدالت) بنایا گیا تا کہ لوگوں کے مقدمات نزاعات کا فیصلہ کرے وہ بغیر ذبح کیا گیا۔ (مسند احمد، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ)

تشریح
ظاہر ہے قاضی اور حاکم بن جانے کے بعد اس کے بہت امکانات پیدا ہو جاتے ہیں کہ آدمی کی نیت اور اس کے اخلاق میں فساد آجائے اور وہ ایسے کام کرنے لگے جن سے اس کا دین و ایمان برباد اور آخرت خراب ہو جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس لیے اس سے بہت ڈرایا ہے اور حتی الوسع اس سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔ اس سلسلہ میں آپ ﷺ نے یہ ہدایت بھی فرمائی کہ حکومتی عہدے اور عدالتی مناصب ان لوگوں کے کو نہ دیے جائیں جو ان کے طالب اور خواہشمند ہوں بلکہ ایسے لوگوں کو یہ ذمہ داری سپرد کی جائے جو اس کے طالب نہ ہو۔ جس آدمی کو چھری سے ذبح کیا جائے وہ دو چار منٹ میں ختم ہو جائے گا لیکن اگر کسی کو چھری کے بغیر ذبح کرنے کی کوشش کی جائے تو ظاہر ہے اس جلدی کام تمام نہ ہوسکے گا اور اس کی تکلیف طویل المیعاد ہوگی۔ حدیث کا مدعا اور مقصد یہ ہے کہ قاضی اور حاکم عدالت بننا اپنے کو بڑی آزمائش اور مصیبت میں مبتلا کرنا ہے۔ اور اس منصب اور ذمہ داری کے قبول کرنے والے کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ سر پہ کانٹوں کا تاج رکھ رہا ہے۔
Top