معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1841
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ وَالْمَرْأَةُ بِطَاعَةِ اللَّهِ سِتِّينَ سَنَةً ثُمَّ يَحْضُرُهُمَا الْمَوْتُ فَيُضَارَّانِ فِي الْوَصِيَّةِ فَتَجِبُ لَهُمَا النَّارُ. (رواه احمد والترمذى وابوداؤد وابن ماجه)
وصیت
حضرت ابوہریرہ ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ (کبھی ایسا ہوتا ہے) کوئی مرد یا کوئی عورت 60 سال تک اللہ تعالی کی فرمانبرداری والی زندگی گزارتے رہتے ہیں پھر جب ان کی موت کا وقت آتا ہے تو وصیت میں (حقداروں کو) نقصان پہنچا دیتے ہیں (تو اس ظلم اور حقدار بندوں کی اس حق تلفی کی وجہ سے) ان کے لیے دوزخ واجب ہو جاتی ہے۔ (مسند احمد، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کے شرعی وارث موجود ہیں جو اللہ کے مقرر کیے ہوئے قانون کے مطابق اس کے مرنے کے بعد اس کے ترکہ کے حقدار ہوں گے تو یہ آدمی کسی ناراضی وغیرہ کی وجہ سے ان کو محروم کرنے کے لئے کسی غیر آدمی کے حق میں یا کسی خاص مصرف کیلئے وصیت کر دیتا ہے یا کوئی اور ایسی تدبیر کرتا ہے جس سے وہ وارث محروم ہوجائیں تو یہ (اس حدیث کے مطابق) اتنا بڑا گناہ اور ایسا ظلم ہے کہ اس کی وجہ سے ساٹھ سالہ اطاعت و فرماں برداری برباد ہو جاتی ہے اور آدمی عذاب دوزخ کا مستحق ہو جاتا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوچکا ہے کہ ہر شخص کو اپنی ایک تہائی دولت کے بارے میں وصیت کرنے کی اجازت ہے لیکن نیک نیتی کی شرط ہے۔ وارثوں اور حقداروں کو نقصان پہنچانے کا ارادہ بہرحال گناہ اور ظلم ہے۔
Top