معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1837
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شيءٌ يُوصَي فِيهِ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ إِلاَّ وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ. (رواه البخارى ومسلم)
وصیت
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: کسی ایسے مسلمان بندے کے لئے جس کے پاس کوئی ایسی چیز (جائیداد یا سرمایہ یا امانت اور قرض وغیرہ) ہو جس کے بارے میں وصیت کرنی چاہئے تو درست نہیں کہ وہ دو راتیں کزار دے، مگر اس حال میں کہ اس کا وصیت نامہ لکھا ہوا، اس کے پاس ہو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
مالی معاملات و تصرفات کے ابواب میں سے ایک "وصیت" کا باب بھی ہے۔ وصیت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص جس کے پاس جائیداد یا کسی شکل میں سرمایہ ہو، وہ یہ طے کر دے کہ میری فلاں جائیداد یا سرمایا کا اتنا حصہ میرے انتقال کے بعد فلاں مصرف خیر میں صرف کیا جائے یا فلاں شخص کو دے دیا جائے۔ شریعت میں اس طرح کی وصیت کو قانونی حیثیت حاصل ہے، اور اس کے خاص شرائط اور احکام ہیں جن میں سے بعض ذیل میں درج ہونے والی حدیثوں سے بھی معلوم ہوں گے اور مزید تفصیلی احکام کتب فقہ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اپنے متروکہ مال کے بارے میں اس طرح کی وصیت اگر لوجہ اللہ اور ثواب آخرت کی نیت سے کی گئی ہے تو ایک طرح کا صدقہ ہے اور شریعت میں اس کی ترغیب دی گئی ہے۔ اور اگر کسی کے پاس کسی کی کوئی چیا امانت کے طور پر رکھی ہے، یا اس پر کسی شخص کا قرض ہے یا کسی طرح کا حق ہے تو اس کی واپسی اور ادائیگی کی وصیت کرنا واجب ہے اور جو بھی وصیت ہو اس کو لکھ کر محفوظ کر دینا چاہئے۔ اس باب کی چند حدیثیں ذیل میں مطالعہ کی جائیں۔ تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ وصیت کرنے اور وصیت نامہ لکھنے یا لکھانے کے اس کا انتظار نہیں کرنا چاہئے کہ جب موت قریب نظر آئے گی اس وقت وصیت کر دیں گے۔ بلکہ ہر مرد مومن کو چاہئے کہ وہ ہر وقت موت کو قریب سمجھے اور اپنا وصیت نامہ تیار رکھے، دو دن بھی ایسے گزرنے نہیں چاہیئں کہ وصیت نامہ موجود نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اس معاملہ میں سستی اور تاخیر نہ کی جائے۔ معلوم نہیں کہ موت کا فرشتہ کس وقت آ جائے۔ حضرت ابنِ عمرؓ سے اس حدیث کی روایت کرنے والے ان کے خادم نافع کا بیان ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے یہ حدیث بیان کرنے کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ سے یہ ارشاد سننے کے بعد ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ میرا وصیت نامہ میرے پاس نہ ہو۔ افسوس ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی اس ہدایت پر عمل کا رواج امت میں اب بہت ہی کم ہے۔ بس خواص بلکہ اخص الخواص کو اس کی توفیق ہوتی ہے، حالانکہ اس میں دنیوی لحاظ سے بھی بہت بڑی خیر ہے، وصیت نامہ کے ذریعہ عزیزوں، قریبوں اور وارثوں کے درمیان بعد میں اٹھنے والے بہت سے نزاعات اور جھگڑوں کا بھی انسداد ہو سکتا ہے۔
Top