معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1828
عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَتَاهُ الْمُهَاجِرُونَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا رَأَيْنَا قَوْمًا أَبْذَلَ مِنْ كَثِيرٍ وَلاَ أَحْسَنَ مُوَاسَاةً مِنْ قَلِيلٍ مِنْ قَوْمٍ نَزَلْنَا بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ لَقَدْ كَفَوْنَا الْمُؤْنَةَ وَأَشْرَكُونَا فِي الْمَهْنَإِ حَتَّى خِفْنَا أَنْ يَذْهَبُوا بِالأَجْرِ كُلِّهِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ مَا دَعَوْتُمُ اللَّهَ لَهُمْ وَأَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِمْ. (رواه الترمذى)
محسنوں کا شکریہ اور ان کے لئے دعائے خیر
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے (اور مہاجرین نے انصار کی میزبانی اور ان کے ایثار کا تجربہ کیا) ت ایک دن مہاجرین نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ ہم نے کہیں ایسے لوگ نہیں دیکھے جیسے یہ لوگ ہیں جن کے ہاں آگے ہم اُترتے ہیں (یعنی انصارِ مدینہ) زیادہ ہو تو اس کو (فراخ حوصلگی اور دریا دِلی سے ہماری میزبانی پر)خوب خرچ کرنے والے اور (کسی کے پاس)تھوڑا ہو تو اس سے بھی ہماری غم خواری اور مدد کرنے والے، انہوں نے محنت مشقت کی ساری ذمہ داری ہماری طرف سے بھی اپنے ذمہ لے لی ہے اور منفعت میں ہم کو شریک کر لیا ہے (ان کے اس غیر معمولی ایثار سے)ہم کو اندیشہ ہے کہ سارا اجر و ثواب انہی کے حصہ میں آ جائے (اور آخرت میں ہم خالی ہاتھ رہ جائیں) آپ ﷺ نے فرمایا نہیں، ایسا نہیں ہو گا جب تک اس احسان کے عوض تم ان کے حق میں دعا کرتے رہو گے اور ان کے لئے کلمہ خیر کہتے رہو گے۔ (جامع ترمذی)

تشریح
جب رسول اللہ ﷺ مکہ معظمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ پاک تشریف لے گئے اور آپ کے ساتھ مہاجرین کی بھی اچھی خاصی جماعت تھی جو آپ ﷺ سے پہلے یا آپ ﷺ کے بعد اپنے اپنے گھر چھوڑ کے مدینہ طیبہ آئے تو جیسا کہ معلوم ہے ابتدائی ایام میں ان سب کو مدینہ طیبہ کے انصار نے للہ فی اللہ اپنا مہمان بنا لیا۔ کھیتی باڑی اور دوسرے کاموں میں خود محنت کرتے اور جو کچھ حاصل ہوتا اس میں مہاجرین کو شریک کر لیتے۔ ان انصار میں اچھے دولت مند بھی تھے اور نادار غربا بھی لیکن اپنی اپنی حیثیت کے مطابق مہاجرین کی خدمت میں سب حصہ لیتے، جو دولت مند تھے وہ پوری دریا دلی سے مہاجرین پر اپنی دولت بےدریغ خرچ کرتے اور غربا تھے وہ بھی اپنا پیٹ کاٹ کے ان کی خدمت اور مہمان داری کرتے تھے۔ اس صورت حاس سے مہاجرین کے دلوں میں یہ خیال آیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انصار کے اس غیر معمولی ایثار و احسان کی وجہ سے ہماری ہجرت اور عبادات وغیرہ کا ثواب بھی ہمارے انہی محسن میزبانوں کے حصہ میں آ جائے اور ہم خسارہ میں رہیں۔ انہوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں اپنا یہ خدشہ عرض کیا تو آپ ﷺ نے اطمینان دلایا کہ ایسا نہ ہو گا، شرط یہ ہے کہ تم ان کے اس احسان کے عوض ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں اور دل و زبان سے ان کے احسان کا اعتراف اور شکر گزاری کرتے رہو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اتنے ہی عمل کو ان کے احسان کے بدلے اور شکریے کے طور پر قبول فرما لے گا اور تمہاری طرف سے ان کے اس احسان و ایثار کا پورا بدلہ اپنے خزانہ کرم سے عطا فرمائے گا۔
Top