معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1825
عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أُعْطِيَ عَطَاءً فَوَجَدَ فَلْيَجْزِ بِهِ وَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيُثْنِ فَإِنَّ مَنْ أَثْنَى فَقَدْ شَكَرَ وَمَنْ كَتَمَ فَقَدْ كَفَرَ وَمَنْ تَحَلَّى بِمَا لَمْ يُعْطَهُ كَانَ كَلاَبِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ. (رواه الترمذى وابوداؤد)
ہدیہ کا بدلہ دینے کے بارے میں آپ ﷺ کا معمول اور آپ ﷺ کی ہدایت
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جس شخص کو ہدیہ تحفہ دیا جائے تو اگر اس کے پاس بدلہ میں دینے کے لئے کچھ موجود ہو تو وہ اس کو دے دے اور جس کے پاس بدلہ میں تحفہ دینے کے لئے کچھ نہ ہو تو وہ (بطور شکریہ کے) اس کی تعریف کرے اور اس کے حق میں کلمہ خیر کہے، جس نے ایسا کیا اس نے شکریہ کا حق ادا کر دیا اور جس نے ایسا نہیں کیا اور احسان کے معاملہ کو چھپایا تو اس نے ناشکری کی۔ اور جو کوئی اپنے کو آراستہ دکھائے اس صفت سے جو اس کو عطا نہیں ہوئی تو وہ اس آدمی کی طرح ہے جو دھوکے فریب کے دو کپڑے پہنے۔ (جامع ترمذی، سنن ابی داؤد)

تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ہدایت فرمائی ہے کہ جس کو کسی محب کی طرف سے ہدیہ تحفہ دیا جائے تو اگر ہدیہ پانے والا اس حال میں ہو کہ اس کے جواب اور صلہ میں ہدیہ تحفہ دے سکے تو ایسا ہی کرے اور اگر اس کی مقدرت نہ ہو تو اس کے حق میں کلمہ خیر کہے اور اس کے اس احسان کا دوسروں کے سامنے بھی تذکرہ کرے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کو بھی شکر سمجھا جائے گا۔ (اور آگے درج ہونے والی ایک حدیث سے معلوم ہو گا کہ "جزاک اللہ" کہنے سے بھی یہ حق ادا ہو جاتا ہے) اور جو شخص ہدیہ تحفہ پانے کے بعد اس کا اخفا کرے، زبان سے ذکر تک نہ کرتے "جزاک اللہ" جیسا کلمہ بھی نہ کہے تو وہ کفرانِ نعمت اور ناشکری کا مرتکب ہو گا۔ حدیث کے آخری جملے "ومن تخلى الخ" کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ جو شخص اپنی زبان یا طرز عمل یا خاص قسم کے لباس وغیرہ کے ذریعے اپنے اندر وہ کمال (مثلا عالمیت یا مشخیت) ظاہر کرے جو اس م یں نہیں ہے تو تو وہ اس دھوکہ باز اور فریبی بہروپئیے کی طرح ہے جو لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے باعزت اور باوقار لوگوں کا لباس پہنے۔ بعض شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ عرب میں کوئی شخص تھا جو نہایت گھٹیا اور ذلیل درجہ کا آدمی تھا لیکن وہ باعزت اور باوقار لوگوں کے سے نفیس اور شاندار کپڑے پہنتا تھا تا کہ اس کو معززین میں سمجھا جائے اور اس کی گواہی پر اعتبار کیا جائے، حالانکہ وہ جھوٹی گواہیاں دیتا تھا۔ اسی کو "لابس ثوبى زور" کہا گیا ہے۔ ہدیہ تحفہ سے متعلق مذکورہ بالا ہدایت کے ساتھ اس آخری جملہ کے فرمانے سے حضور ﷺ کا مقصد غالباً یہ ہے کہ کہ کوئی شخص جس میں وہ کمالات اور وہ اوصاف نہ ہوں جن کی وجہ سے لوگ ہدیہ وغیرہ پیش کرنا سعادت سمجھتے ہیں۔ ایسا شخص اگر لوگوں کے ہدیے تحفے حاصل کرنے کے لئے اپنی باتوں اور اپنے لباس اور اپنے طرز زندگی سے وہ کمالات اور اوصاف اپنے لئے ظاہر کر دے تو یہ فریب اور بہروپیا پن ہو گا اور یہ آدمی اس روایتی " لابس ثوبى زور" کی طرح مکار اور دھوکے باز ہو گا۔ واللہ اعلم۔
Top