معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1823
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: تَهَادَوْا فَإِنَّ الْهَدِيَّةَ تُذْهِبُ وَحَرَ الصَّدْرِ وَلاَ تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِهَا وَلَوْ شِقَّ فِرْسِنِ شَاةٍ. (رواه الترمذى)
ہدیہ تحفہ دینا لینا: ہدیہ دِلوں کی کدورت دور کر کے محبت پیدا کرتا ہے
حضرت ابو ہریرہ ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: آپس میں ہدیے تحفے دیا کرو، ہدیہ سینوں کی کدورت و رنجش دور کر دیتا ہے اور ایک پڑوسن دوسری پڑوسن کے ہدیہ کے لئے بکری کے گھر کے ایک ٹکڑے کو بھی حقیر اور کمتر نہ سمجھے۔ (جامع ترمذی)

تشریح
تمدنی زندگی میں لین دین کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اپنی کوئی چیز ہدیہ اور تحفہ کے طور پر کسی کو پیش کر دی جائے۔ رسول اللہ ﷺنے اپنے ارشادات میں اس کی بڑی ترغیب دی ہے۔ اس کی یہ حکمت بھی بتلائی ہے کہ اس سے دِلوں میں محبت و اُلفت اور تعلقات میں خوشگواری پیدا ہوتی ہے جو اس دنیا مٰں بڑی نعمت اور بہت سی آفتوں سے حفاظت اور عافیت و سکون حاصل ہونے کا وسیلہ ہے۔ ہدیہ وہ عطیہ ہے جو دوسرے کا دل خوش کرنے اور اس کے ساتھ اپنا تعلق خاطر ظاہر کرنے کے لئے دیا جائے اور اس کے ذریعے رجائے الہی مطلوب ہو۔ یہ عطیہ اور تحفہ اگر اپنے کسی چھوٹے کو دیا جائے تو اس کے ساتھ اپنی شفقت کا اظہار ہے، اگر کسی دوست کو دیا جائے تو یہ ازدیادِ محبت کا وسیلہ ہے، اگر کسی ایسے شخص کو دیا جائے جس کی حالت کمزور ہے تو یہ اس کی خدمت کے ذریعہ اس کی تطییب خاطر کا ذریعہ ہے اور اگر اپنے کسی بزرگ اور محترم کو پیش کیا جائے تو ان کا اکرام ہے اور "نذرانہ" ہے۔ اگر کسی کو ضرورت مند سمجھ کر اللہ کے واسطے اور ثواب کی نیت سے دیا جائے تو یہ ہدیہ نہ ہو گا صدقہ ہو گا۔ ہدیہ جب ہی ہو گا جب کہ اس کے ذریعہ اپنی محبت اور اپنے تعلق خاطر کا اظہار مقصود ہو اور اس کے ذریعہ رضائے الہی مطلوب ہو۔ ہدیہ اگر اخلاص کے ساتھ دیا جائے تو اس کا ثواب صدقہ سے کم نہیں بلکہ بعض اوقات زیادہ ہو گا۔ ہدیہ اور صدقہ کے اس فرق کا نتیجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہدیہ شکریہ اور دعا کے ساتھ قبول فرماتے اور اس کو خود بھی استعمال فرماتے تھے۔ اور صدقہ کو بھی اگرچہ شکریہ کے ساتھ قبول فرماتے اور اس پر دعائیں بھی دیتے لیکن خود استعمال نہیں فرماتے تھے، دوسروں ہی کو مرحمت فرما دیتے تھے۔ افسوس ہے کہ امت میں باہم مخلصانہ ہدیوں کی لین دین کا رواج بہت ہی کم ہو گیا ہے۔ بعض خاص حلقوں میں بس اپنے بزرگوں، عالموں، مرشدوں کو ہدیہ پیش کرنے کا تو کچھ رواج ہے لیکن اپنے عزیزوں، قریبوں، پڑوسیوں وغیرہ کے ہاں ہدیہ بھیجنے کا رواج بہت ہی کم ہے حالانکہ قلوب میں محبت و الفت اور تعلقات میں خوشگواری اور زندگی میں چین و سکون پیدا کرنے اور اسی کے ساتھ رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لئے یہ رسول اللہ ﷺ کا بتلایا ہوا "نسخہ کیمیا" تھا۔ اس تمہید کے بعد ہدیہ سے متعلق رسول اللہ ﷺ کے مندرجہ ذیل چند ارشادات پڑھئے! تشریح ..... ہدیے تحفے دینے سے باہمی رنجشون اور کدورتوں کا دور ہونا، دِلوں میں جوڑ تعلقات میں خوشگواری پیدا ہونا بدیہی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ اس زریں ہدایت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ حضرت ابو ہریرہؓ کی حدیث میں جو یہ اضافہ ہے کہ ایک پڑوسن دوسری پڑوسن کے لئے بکری کے گھر کے ٹکڑے کے ہدیہ کو بھی حقیر نہ سمجھے۔ اس سے حضور ﷺ کا مقصد بظاہر یہ ہے کہ ہدیہ دینے کے لئے ضروری نہیں کہ بہت بڑھیا ہی چیز ہو، اگر اس کی پابندی اور اس کا اہتمام کیا جائے گا تو ہدیہ دینے کی نوبت بہت کم آئے گی۔ اس لئے بالفرض اگر گھر میں بکری کے پائے پکے ہیں تو پڑوسن کو بھیجنے کے لئے اس کے ایک ٹکڑے کو بھی حقیر نہ سمجھا جائے وہی بھیج دیا جائے۔ (واضح رہے کہ یہ ہدایت اس حالت میں ہے جب اطمینان ہو کہ پڑوسن خوشی کے ساتھ قبول کرے گی اور اس کو اپنی توہین و تذلیل نہ سمجھے گی، رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ماحول ایسا ہی تھا)۔
Top