معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1821
عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَرُّوا بِأَصْحَابِهِ، فَذَبَحَتْ لَهُمْ شَاةً، وَاتَّخَذَتْ لَهُمْ طَعَامًا، فَأَخَذَ لُقْمَةً، فَلَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُسِيغَهَا، فَقَالَ: «هَذِهِ شَاةٌ ذُبِحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ أَهْلِهَا» ، فَقَالَتِ الْمَرْأَةُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّا لَا نَحْتَشِمُ مِنْ آلِ مُعَاذٍ، نَأْخُذُ مِنْهُمْ، وَيَأْخُذُونَ مِنَّا. (رواه احمد)
غصب (کسی دوسرے کی چیز ناحق لے لینا)
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اور آپ ﷺ کے چند اصحاب و رفقاء کا گزر ایک خاتون کی طرف سے ہوا اور اس نے آپ ﷺ سے کھانا تناول فرمانے کی درخواست کی۔ آپ ﷺ نے قبول فرما لیا)۔ تو اس نے ایک بکری ذبح کی اور کھانا تیا رکیا (اور آپ ﷺ کے اور آپ ﷺ کے رفقاء کے سامنے حاضر کر دیا) آپ ﷺ نے اس میں سے ایک لقمہ لیا مگر اس کو آپ ﷺ حلق سے نہیں اتار سکے، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ (واقعہ یہ معلوم ہوتا ہے) یہ بکری اصل مالک کی اجازت کے بغیر ذبح کر لی گئی ہے۔ اس خاتون نے عرض کیا کہ ہم لوگ (اپنے پڑوسی) معاذ کے گھر والوں سے کوئی تکلف نہیں کرتے ہم ان کی چیز لے لیتے ہیں اور اسی طرح وہ ہماری چیز لے لیتے ہیں۔ (مسند احمد)

تشریح
جیسا کہ دعوت کرنے والی خاتون کے جواب سے معلوم ہوا واقعہ یہی تھا کہ وہ بکری جو ذبح کی گئی تھی پڑوس کے ایک گھرانے آل معاذ کی تھی اور باہمی اعتماد و تعلق اور رواج و چلن کی وجہ سے ان سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی اور بکری ذبح کر کے اور کھانا تیار کر کے حضور ﷺ اور آپ ﷺ کے رفقاء کے سامنے پیش کر دیا گیا، لیکن آپ ﷺ نے جب پہلا ہی لقمہ اس میں سے لیا تو آپ ﷺ کی طبیعت مبارک نے اس کو قبول نہیں کیا اور وہ حلق سے اتر ہی نہیں سکا اور آپ ﷺ پر یہ منکشف کر دیا گیا کہ یہ بکری اصل مالک کی اجازت کے بغیر ذبح کر لی گئی۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے کی چیزوں کے بارے میں عام انسانوں کو ایک ذوق اور احساس دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کڑوی کسیلی چیزوں کا کھانا اور حلق سے اتارنا مشکل ہوتا ہے اسی طرح وہ اپنے بعض خاص بندوں کو جن کو وہ ناجائز غذاؤں سے حفاظت فرمانا چاہتا ہے ایسا ذوق عطا فرمادیتا ہے کہ ناجائز غذا نہ ان سے کھائی جا سکتی ہےاور نہ حلق سے اتاری جا سکتی ہے۔ مذکورہ بالا واقعہ میں رسول اللہ ﷺ کا لقمہ منہ میں لے لینے کے باوجود نہ کھا سکنا اللہ تعالیٰ کی اسی خاص الخاص عنایت کا ظہور تھا۔ امت کے بعض اولیاء اللہ سے بھی اسی طرح کے واقعات منقول ہیں۔ ذالك فضل الله يوتيه من يشاء. اس واقعہ میں یہ بات خاص طور سے قابلِ غور ہے کہ بکری نہ چرائی گئی تھی، نہ غصب کی گئی تھی، بلکہ باہمی اعتماد و تعلق اور رواج و چلن کی وجہ سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی تھی اور ذبح کر لی گئی تھی، اس کے باوجود اس میں ایسی خباثت اور خرابی پیدا ہو گئی کہ حضور ﷺ اس کو نہیں کھا سکے اور حلق سے نہیں اُتار سکے۔ اس میں سبق ہے کہ دوسروں کی چیز بغیر اجازت لے لینے اور استعمال کرنے کے بارے میں کس قدر احتیاط کرنی چاہئے۔
Top