معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1813
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرُّوا بِمَاءٍ، فِيهِمْ لَدِيغٌ أَوْ سَلِيمٌ، فَعَرَضَ لَهُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ المَاءِ، فَقَالَ: هَلْ فِيكُمْ مِنْ رَاقٍ، إِنَّ فِي المَاءِ رَجُلًا لَدِيغًا أَوْ سَلِيمًا، فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ عَلَى شَاءٍ، فَبَرَأَ، فَجَاءَ بِالشَّاءِ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَكَرِهُوا ذَلِكَ وَقَالُوا: أَخَذْتَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ أَجْرًا، حَتَّى قَدِمُوا المَدِينَةَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخَذَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ أَجْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ» (رواه البخارى) وفى رواية اقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ سَهْمًا.
دم کرنے اور جھاڑنے پر معاوضہ لینا
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت ایک بستی پر گزری تو بستی کا ایک آدمی ملا اور اس نے کہا کہ کیا تم لوگوں میں کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ہے؟ ہماری بستی میں ایک آدمی کو سانپ نے کاٹ لیا ہے یا کہا کہ بچھو نے کاٹ لیا ہے۔ (غالباً یہ راوی کا شک ہے) تو جماعت صحابہ میں سے ایک آدمی اُٹھ کر چل دیا اور بستی میں جا کر کچھ بکریاں بطور معاوضہ مقرر کر کے اس کاٹے ہوئے آدمی پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تو وہ بالکل اچھا ہو گیا تو صاحب ٹھہرائی ہوئی بکریاں ساتھ لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آ گئے۔ تو ان حضرات نے اس کو برا سمجھا اور ان سے کہا کہ تم نے اللہ کی کتاب پڑھنے کا معاوضہ لے لیا۔ یہاں تک کہ یہ سب حضرات مدینہ آ گئے۔ لوگوں نے مسئلہ حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا کہ ہمارے فلاں ساتھی نے کتاب اللہ (سورہ فاتحہ) پڑھ کر معاوضہ لے لیا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کتاب اللہ اس کی زیادہ مستحق ہے کہ اس پر معاوضہ لیا جائے"۔ (صحیح بخاری) اور اس حدیث کی صحیح بخاری ہی کی ایک روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ تم نے ٹھیک کیا، ان بکریوں کو آپس میں تقسیم کر لو اور میرا بھی حصہ لگاؤ۔

تشریح
اپنے عمل اور اپنی محنت کا معاوضہ لینا اجارہ ہے اور اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کسی مریض وغیرہ پر قرآن شریف یا کوئی دعا پڑھ کر دم کیا جائے یا تعویذ لکھا جائے اور اس کا معاوضہ لیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایسے واقعات پیش آئے ہیں اور صحابہ کرامؓ نے دم کرنے کا معاوضہ لیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس کو جائز اور طیب قرار دیا ہے۔ تشریح .....صحیح بخاری میں یہ واقعہ اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ بھی مروی ہے۔ اور اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ مسند احمد اور سنن ابی داؤد میں بھی روایت کیا گیا ہے جس میں مذکور ہے کہ اسی طرح کے ایک سفر میں ایک دیوانے اور پاگل پر لوگوں نے دم کرایا، ایک صحابی نے سورہ فاتحہ پڑھ کر صبح شام تین دن دم کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ بالکل اچھا ہو گیا۔ انہوں نے بھی معاوضہ وصول کیا۔ لیکن ان صحابی کو خود تردد ہو گیا کہ میرا معاوضہ لینا جائز ہے یا ناجائز۔ چنانچہ واپسی پر حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا تو آپ نے اس کو صحیح اور جائز قرار دیا۔ انہی حدیثوں کی روشنی میں علماء و فقہا کا اس پر قریباً اتفاق ہے کہ اس طرح دم کرنے یا تعویز لکھنے پر معاوضہ لینا جائز ہے جس طرح طبیبوں اور ڈاکٹروں کے لئے علاج کی فیس لینا جائز ہے۔ ہاں اگر بغیر معاوضہ فی سبیل اللہ بندگانِ خدا کی خدمت کی جائے تو وہ بلند درجہ کی بات ہے اور انبیاء علیہم السلام سے نیابت کی نسبت رکھنے والوں کا طریقہ یہی ہے۔
Top