معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1812
عَنْ عَمْرٍو قَالَ : قُلْتُ لِطَاوُسٍ: لَوْ تَرَكْتَ المُخَابَرَةَ فَإِنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهُ، قَالَ: أَيْ عَمْرُو إِنِّي وَأُعْطِيهِمْ وَأُغْنِيهِمْ وَإِنَّ أَعْلَمَهُمْ، أَخْبَرَنِي يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَنْهَ عَنْهُ وَلَكِنْ، قَالَ: «أَنْ يَمْنَحَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ عَلَيْهِ خَرْجًا مَعْلُومًا» (رواه البخارى ومسلم)
لگان یا بٹائی پر زمین دینا
عمرو بن دینار تابعی نے فرمایا کہ میں نے جناب طاؤس (تابعی) سے ایک بار کہا کہ آپ بٹائی (یا لگان) پر زمین اُٹھانا چھوڑ دیتے تو اچھا ہوتا، کیوں کہ لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا تھا، تو انہوں نے فرمایا کہ میرا طریقہ یہ ہے کہ میں کاشت کاروں کو کاشت کے لئے زمین بھی دیتا ہوں اور اس کے علاوہ بھی ان کی مدد کرتا ہوں۔ اور امت کے بڑے عالم یعنی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے مجھ کو بتلایا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کو بٹائی یا لگان پر اٹھانے سے منع نہیں فرمایا تھا۔ البتہ یہ فرمایا تھا کہ اپنی زمین اپنے دوسرے بھائی کو کاشت کے لئے (بغیر کسی معاوضہ کے) دے دینا اس سے بہتر ہے کہ اس پر کوئی مقررہ لگان وصول کرے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
عمرو بن دینار کی اس روایت سے معلوم ہوا کہ صحابہ و تابعین کے زمانہ میں کچھ حضرات کا خیال تھا کہ اپنی مملوکہ زمین کی بٹائی یا لگان پر اٹھانا درست نہیں۔ لیکن حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے مشہور شاگرد اور فیض یافتہ طاؤس نے حضرت ابنِ عباسؓ سے یہ وضاحت نقل کی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو ناجائز قرار نہیں دیا تھا بلکہ اخلاقی طور پر فرمایا تھا کہ اپنے کسی بھائی کو مقررہ لگان یا بٹائی پر زمین دینے سے بہتر یہ ہے کہ للہ بغیر کسی معاضہ کے اس کو کاشت کے لئے زمین دے دی جائے۔ طاؤس حضرت ابنِ عباس ؓ کی اس وضاحت اور فتوے کی روشنی میں اپنی زمینیں بٹائی یا لگان پر اُٹھاتے تھے اور ان کاشتکاروں کی کاشت کے اخراجات وغیرہ میں مزید امداد و اعانت بھی کرتے تھے۔
Top