معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1801
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا، أَقَالَهُ اللَّهُ عَثْرَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» (رواه ابوداؤد وابن ماجه)
اِقالہ یعنی بیع کا معاملہ مکمل ہو جانے کے بعد فسخ اور واپسی
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جو بندہ اپنے کسی مسلمان بھائی کے ساتھ اقالہ کا معاملہ کرے (یعنی اس کی بیچی یا خریدی ہوئی چیز کی واپسی پر راضی ہو جائے) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی غلطیاں (یعنی اس کے گناہ) بخش دے گا۔ (سنن ابو داؤد، سنن ابن ماجہ)

تشریح
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو شخصوں کے درمیان کسی چیز کی بیع کا معاملہ ہوا اور فریقین کی طرف سے بات بالکل ختم ہو گئی لین دین بھی ہو گیا، اس کے بعد کسی ایک نے اپنی مصلحت سے معاملہ فسخ کرنا چاہا، مثلاً خریدار نے جو چیز خریدی تھی اس کو واپس کرنا چاہا یا بیچنے والے نے اپنی چیز واپس لینی چاہی تو اگرچہ قانونِ شریعت کی رو سے دوسرا فریق مجبور نہیں ہے کہ وہ اس کے لئے راضی ہو لیکن رسول اللہ ﷺ نے اخلاقی انداز میں اس کی اپیل کی ہے اور اس کو بہت بڑی نیکی قرار دیا ہے۔ شریعت کی زبان میں اسی کو "اقالہ" کہا جاتا ہے۔ تشریح ..... کسی چیز کو خرید کر یا بیچ کر آدمی واپس کرنا یا واپس لینا جب ہی چاہتا ہےجب محسوس کرتا ہے کہ مجھ سے غلطی ہو گئی، میں اس معاملہ میں نقصان اور خسارہ میں رہا اور دوسرا فریق نفع میں رہا۔ اس صورت میں دوسرے فریق کا معاملہ فسخ کر کے واپسی پر راضی ہو جانا بلاشبہ ایثار ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس ارشاد میں اس ایثار ہی کی ترغیب دی ہے اور ایسا کرنے والے کو بشارت سنائی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے قیامت میں اس کے قٓصوروں اور گناہوں سے دَرگزر فرمائے گا۔ بلاشبہ بڑا نفع بخش ہے یہ سودا۔
Top